#Shia #Scholar
علامہ طالب جوہری (شیعہ اسکالر)
پٹنہ، بھارت
27 اگست 1929- 22 جون 2020
خانوادہءآیت اللہ مولانامحمدمصطفیٰ کے چشم وچراغ اورفرزندجلیل
عظیم المعتبر خطیبِ دوراں، شاعر
مفکر، مفسرقرآن وحدیث
ماہرعلوم اسلامیہ،ستارہ امتیازکےمالک
اردو، فارسی،عربی زبانوں پردسترس
فقہ جعفریہ
کی نہایت قد آور اور ممتاز شخصیت مولانا طالب جوہری 1929 میں ریاست بہار کے شہر پٹنہ (بھارت) میں پیدا ھوئے۔
ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کرکے مذہبی تعلیم کیلئے نجف وعراق کاسفر کیا۔ وھاں آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم الخوئی کے زیرانتظام "حوزہ علمیہ" (Howza Ilmiya) جہاں شیعہ طلباءتعلیم
پاتے تھے، میں داخلہ لیا۔
عراق میں تقریباً دس سال قیام کیا اور نہ صرف عربی و فارسی پر عبور حاصل کیا بلکہ عرب وعجم کی تاریخ پر بھی مکمل گرفت حاصل کی۔
اگر ھم علامہ صاحب کی شخصیت میں غوطہ زن ھوں تو قہوہ اور کھجوروں کے دلدادہ طالب جوہری علوم قرآنی پر ملکہ رکھنے کے باوجودخشک طبیعت ہرگز
نہ تھے۔ آپ کی حس جمالیات ہمیشہ توانا وتروتازہ رہتی۔
فقہ جعفریہ کی علم ودانش کی اس عظیم درسگاہ میں عظیم اور معتبرحکایتوں کاذخیرہ رہا۔
یہ بھی سچ ھےکہ علامہ صاحب کی تقاریر،خطبات،تصانیف کےبرعکس آپکی شاعری اورتنقیدپوری آب وتاب کیساتھ عام قاری تک نہ پہنچ سکی۔
آپ کی شہرہ آفاق تصانیف میں
مقاتل
حدیثِ کربلا
ذکر معصوم
نظامِ حیات انسانی
علامات ظہورمہدی
انسانیت کاالوہی منشور
میراث عقل اور وحی الٰہی
عالیات معاصر (2005)
حرفِ نمو (اردو شاعری)
شاخِ صدا (اردو شاعری)
میزان الہدایت القرآن
شامل ہیں۔ آپ کی شاعری میں کلاسیکی رنگ کیساتھ جدت کی آمیزش دکھائی دیتی ھےبلکہ علامہ صاحب
لایعنی شاعری، جزئیات اور جذبات نگاری میں بھی کمال دسترس رکھتے تھے۔
دیوار گر رہی ھے ہمارے مکان کی
پہنچاءو بات خضرعلیہ السلام تک
(ط۔ ج۔)
علامہ صاحب کے مرثیوں میں مبالغہ آرائی ہرگز نظر نہیں آتی۔
علومِ آل محمدﷺ کا یہ دبستان اور تناور درخت قحط الرجال کے موسم 22 جون 2020 کو اپنا سایہ
سمیٹ کر 91 برس کی عمر میں اپنے دائمی سفر پر روانہ ھو گیا۔
یہ سچ ھے کہ
"ہیں نگینے بہت حسین ؓ کے پاس
پر کوئی جوہری تلاش کرو"
#Indology
#Rajhastan
#architecture
گلتاجی مندر(جےپور، راجھستان)
Galtaji Temple 🛕(Jaipur)
جہاں "Engineering"ختم ھوتی ھے،وھاں سے "فن تعمیر"شروع ھوتاھے۔
اس حقیقت کو15ویں صدی میں جےپورمیں گلابی ریت اورسرخ اینٹوں سےبنائےگئے "گلتاجی مندر" نےثابت کیاجوخالص راجھستانی تعمیراتی حسن اوڑھے
7مقدس تالابوں اورچشموں سےگھرا ایک قدیم دیوہیکل کمپلیکس ھےجسے بندروں کی بھرمار کیوجہ سے "گلوار باغ" کہاجاتاھے۔
مندر کاکمپلیکس گویاکئی مندروں کا ایک جھرمٹ ھےجنہیں اراولی کی پہاڑیوں میں ایک پہاڑی درے کی ایک تنگ شگاف کے اندر بنایاگیا ھے۔
درختوں اورپہاڑوں کےبیچ کسی عظیم الشان شاہی محل
کی مانند مندر اپنےعقیدت مند ھندوؤں کیلئے "اشنان" (نہانے/Showering) یعنی گناہ دھونے کا ذریعہ ھے۔7 مقدس تالابوں میں سے گلتاکنڈ سب سےمقدس ھےکیونکہ یہ حوض کبھی خشک نہیں ھوتا۔
بھگوان کرشنا، بھگوان رام اور بھگوان ہنومان کیلئےوقف مندر آج ایک اہم ھندو زیارت گاہ ھے۔
گلتاجی کمپلیکس کے اندر
#ancient
#geology
#Iran
زگروس پہاڑ (عراقی کردستان، #ایران)
Zagros Mountains ⛰️(Iraqi Kurdistan)
ایران، تاریخ اور ثقافت سے مالا مال ایک قدیم اور ان "زگروس پہاڑوں" کاملک جہاں 9000 قبل مسیح کی انسانی رہائش اور زراعت کےٹھوس ثبوت موجود ہیں۔
زگروس پہاڑوں کی تاریخ اتنی سادہ نہیں!
کیونکہ
ان پہاڑوں نےایران میں تہذیبوں کی ترقی میں نہایت اہم کردار اداکیا۔
وہ ایسےکہ پہاڑوں کیطرف سےفراہم کردہ قدرتی رکاوٹوں نےحملوں کیخلاف تحفظ کاکام کیااورمختلف ثقافتوں اوربرادریوں کی نشوونماکوفروغ دیا۔ایلمائٹ(Elamites Empire/3200 BC-539 BC) ایران کی قدیم ترین تہذیبوں میں سےایک زگروس کے
دامن میں ہی پروان چڑھی۔ بعد میں اچمینیڈ سلطنت (Achaemenid Empire/500 BC) جس کا دارالحکومت پرسیپولیس میں تھا، نے دفاع اور وسائل کیلئے زگروس پر انحصار کیا۔
زگروس پہاڑ جنوب مشرقی ایران میں واقع کرسٹل چٹانوں کی ایک پٹی پرمشتمل ھے۔
یہ پہاڑ ترکی سےخلیج عمان تک 1500 کلومیٹر سے زیادہ تک
#ancient
#HistoryBuff
کندوان کے غار نما گھر(کندوان، تبریز)
Kandovan Cave Houses 🏘(Tabriz, #Iran)
کیا کبھی انسان بھی مکھیوں کے چھتوں (Hives) میں رھے ہیں؟
کندوان___ایران کےمنجمد کر دینے والےپہاڑی سلسلےسہند میں واقع شہد کےچھتےکی مانند نوکیلے یعنی عجیب وغریب شکلوں والےگھروں پر مشتمل
ایک پرامن قدرتی گاؤں جو اپنےمنفرد پتھر سے کٹے خصوصا آتش فشانی چٹانوں سے تراشے فن تعمیر کےباعث مشہور ھےجو آج دنیامیں بچ جانےوالے چند دیہاتوں میں سے ایک ھے۔
آتش فشاں جو آج غیر فعال ھے 11 ملین سال سے زیادہ عرصے سےسرگرم تھا۔ کندوان گاؤں کو "Iranian cappadocia" کہاجائےتو بےجانہ ھو گا۔
ماہرین آثار قدیمہ (#Archeologists) کا کہنا ھے کہ لوگ 3000 سال پہلےبھی غاروں میں رہتے تھے۔ تاہم کندوان میں رہنےوالے لوگوں کے مطابق موجودہ گاؤں 800 سال پرانے گاؤں کے پہلے باشندے خوارزم کے پناہ گزین تھے، جو منگول فوج سے بھاگے تھے۔ وہ چھپنےکی غرض سے انہی غاروں میں ٹھہرے کیونکہ غار سے
#Indology
#architecture
سورلا مسجد (گوا، بھارت)
Surla Mosque (Goa, India)
سولہویں صدی میں ھندو-مسلم اتحاد کی واحدنمائندہ مسجد
سرخ مٹی سےبنی دریائےمنڈووی کےآبی پھیلاؤ اور سرسبز وشاداب جنگل کے درمیان واقع مختصر سی "سورلا مسجد" گوا کی قدیم ترین بچ جانےوالی مساجدمیں سے ایک جوعادل شاہ
کے دور کی تعمیر ھے۔
کئی دہائیوں سے اس کا واحد مسلمان نگراں ایک ہی خاندان چلا آ رہا ھے۔ یہ ذمہ داری ان کے خاندان کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ھوتی رہی ھے۔
دریا سےمتصل ایک درگاہ مسجد کےپیچھےبنی ھوئی ھے۔ اس درگاہ پر پڑی باقیات ایک پیر صاحب کی ہیں جو پرتگالی دور سے پہلے کے ھندوؤں
اور مسلمانوں کےدرمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے گوا آئے تھے۔ ان کے نام آج تک معلوم نہیں ہیں.
مقامی لوگوں کے مطابق پرانےزمانے میں مسجد تک جانے والی کوئی سڑک نہیں تھی۔ اس کے احاطے میں صرف کاجو اور آم کا گھنا جنگل تھا۔ آخر کار پہاڑی کے نیچے ایک تاریک سڑک بنائی گئی، جس سے زائرین کیلئے
#Indology
#architecture
فیروز مینار(کانپور، بھارت)
Firoz Minar (West Bangal, Kanpur)__1485ء
ہرھندوستانی کی سماعت سےتلنگنہ(حیدرآباد) کا"چار مینار"،مہرولی(دہلی)کا"قطب مینار" یاشیخوپوری "ہرن مینار" توضرورٹکرایا ھوگامگرحبشی سلطنت(Habshi Dynasty) کےسیکیولر دلیرسلطان سیف الدین فیروزشاہ
کا "فیروز مینار" یقینا ایک اجنبی مینار ھو گا۔
اس مینار کی انفرادیت اس کاحبشی سرپرست فیروز شاہ تھا جو پیدائشی طور پر تو ایتھوپیا کاباشندہ تھا مگرسلطنت میں غلام رہنےکے بعد اقتدار کی بلندی پر پہنچا اور بنگال کےحکمرانوں میں سب سےقابل احترام ٹھہرا۔
شاید 14ویں صدی ہی میناروں کی صدی تھی
جوطاقت اور دولت کا نشان سمجھے جاتے تھے۔
اس تاریخی نشان کو "پیر آشا مینار" یا "چراغ دانی" کے نام سےبھی جانا جاتا ھے۔ مینار سلطان سیف الدین فیروز شاہ نے 4سال کے دوران اپنی باربک شاہ کیخلاف فتح کے نشان کے طور پر تعمیرکروایا تھا۔
قطب مینار سےاپنی حیرت انگیز اپنی سرخ رنگت کیساتھ مشابہ
#Church
#Architecture
بور گند سٹیو چرچ (بورگند، ناروے)
Borgund Stave Church ⛪️ (Borgund, #Norway)___1180 AD
کسی کارٹون یا ڈراؤنے منظر کی مانندسیاہ کیتھولک گرجاگھر
پادری اسٹیو کیلئےبورگند کے چھوٹے سےگاؤں میں کنگز روڈ کیساتھ بنایا گیا "اسٹیو چرچ" ناروے کے بہترین اور اب تک غیرمعمولی
طور پر محفوظ گرجا گھروں میں سے ایک ھے۔
اس ناقابل یقین اور شاہکار چرچ کی نمایاں خصوصیت اس کا ماحول اور تکونی چھتیں (Vertical Staves/Ceilings) ہیں۔
چرچ مکمل لکڑی اور نہایت مختصر مدت میں تعمیر کیا گیا تھا۔
اسکے دلکش بیرونی حصے میں عام ڈریگن کے سروں اور گیلریوں کے ساتھ ساتھ ٹائر والی
چھت کےساتھ ساتھ پیچیدہ نقش ونگار والے پورٹلز ہیں۔ سجاوٹ اندر سے بھی اتنی ہی تفصیلی اور دلکش ھےجتنی کہ باہر سے۔
14ستونوں پر بنایاگیا چرچ کا آغاز میں تعمیری رقبہ نہایت چھوٹا تھا جسے 1800کی دہائی میں ناروے قوانین کیمطابق "Society for the Preservation of Ancient Norwegian Monuments"