1958میں مارشل لاء لگا کر جنرل ایوب نےاقتدار پر قبضہ تو کرلیا لیکن اسےمعلوم تھا کہ پرانے سیاستدانوں کو ٹھکانےلگائے بغیر سکون سےحکومت کرنا مشکل ہوگا، لہذا ایبڈو (EBDO) کے نام سے نیب طرز پر ایک قانون بنایا، جس کے تحت سیاستدانوں پر #کرپشن کے الزامات لگائے جاتے
👇1/7
جواب میں یا تو سیاستدان 7 سال تک سیاست سے بے دخلی قبول کرتا، یا فوجی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرتا۔
جن چند سیاستدانوں نے مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا، ان میں عوامی لیگ کے بانی اور شیخ مجیب کے سسر جناب حسین شہید سہروردی بھی تھے۔جو 12 ستمبر 1956 سے 17 اکتوبر1957 تک وزیراعظم رہے۔
👇2/7
سہروردی صاحب پر الزام لگا کہ بطور وزیراعظم انہوں نے اپنے ایک چہیتے صنعتکار کو بلااستحقاق امپورٹ پرمٹ دیا۔ فوجی عدالت میں سہروردی صاحب نے ریکارڈ سے ثابت کردیا کہ مذکورہ پرمٹ کے اجراء کیلئے وزارت تجارت کے سیکرٹری نے ان سے منظوری لی ہی نہیں، بلکہ خود ہی پرمٹ جاری کردیا۔
🙏3/7
فوجی عدالت کے سربراہ کرنل نے سہروردی صاحب سے کہا کہ کسی سیکرٹری کیلئے یہ کیسے ممکن ہوا کہ متعلقہ وزیر اور وزیراعظم سے منظوری لیئے بغیر اتنا بڑا پرمٹ خود ہی جاری کردیا۔ سہروردی نے جواب دیا کہ یہ اس لئے ممکن ہوا کہ وقت کے آرمی چیف نے اس کیلئے سیکریٹری پر دبائو ڈالا۔
👇4/7
(آرمی چیف جنرل ایوب اسوقت چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر بن چکا تھا) یہ سن کر کرنل کا چہرہ پیلا پڑگیا، اور کانپتے ہوئے بولا: آپکے پاس کیا ثبوت ہے؟ سہروردی صاحب نے جیب سے ایوب کی ایک دستخط شدہ پرچی نکال کر دکھائی،جو وزیراعظم سہروردی کے نام تھی
اور ان سے مذکورہ صنعتکار
👇5/7
کو پرمٹ دینے کی سفارش کیگئی تھی۔ سہروردی صاحب نے کہا کہ میں نے کیس دیکھ کر پرمٹ دینے سےانکار کردیا تھا، تو آرمی چیف نے وزیر اور وزیراعظم کی منظوری کے بغیر سیکریٹری سے پرمٹ جاری کروادیا۔
اس گفتگوکےبعدسہروردی صاحب کو7سالہ نااہلی کی سزا تو پھربھی دی گئی،لیکن پریس کوعدالتی
👇6/7
کارروائی رپورٹ کرنےسےروک دياگېا
سہروردی کی جگہ شیخ مجیب نے عوامی مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور مسلم لفظ نکال دیا۔ یہ تاریخ کا جھروکہ انکے لیے جن کو معلوم نہیں ملک کیوں ٹوٹا
ملک جرنیلوں نے توڑا
End
فالو اور شیئر کریں🙏
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
کل رات ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے زندگی کی کئی پہلوؤں کو چھو لیا۔
قریب شام کے7بجےہونگے ،موبائل کی گھنٹی بجی۔ اٹھایا تو ادھر سے رونے کی آواز
میں نے کہا آپ پریشانی بتائیں اور بھائی صاحب کہاں ہیں؟ ۔ اور ماں کدھر ہیں
👇1/20
آخر ہوا کیا ہے؟
لیکن ادھر سے صرف ایک ہی رٹ کہ آپ فوراً آجائیے۔
میں اسے مطمئن کرتے ہوئے کہا کہ ایک گھنٹہ لگے گا پہنچنے میں۔ جیسے تیسے گھبراہٹ میں پہونچا
دیکھا کہ بھائی صاحب، (جو ہمارے جج دوست ہیں) سامنے بیٹھے ہوئے ہیں
بھابی جی رونا چیخنا کر رہی ہیں
میں نے بھائی صاحب سے
👇2/20
پوچھاکہ آخر کیا بات ہے؟
بھائی صاحب کچھ جواب نہیں دے رہے تھے
پھر بھابی جی نے کہا؛ یہ دیکھیے طلاق کے کاغذات۔
کورٹ سے تیار کرا کر لائے ہیں مجھے طلاق دینا، چاہتے ہیں
میں نے پوچھا " یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اتنی اچھی فیملی ہے
دو بچے ہیں۔ سب کچھ سیٹلڈ ھے
پہلی نظر میں مجھےلگا
👇3/20
پاکستان میں ان دنوں اہم حکومتی عہدوں اور سرکاری اداروں میں کئی حاضر سروس اور سابق فوجی افسران تعینات ہیں جنکی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہاھے
اہم سرکاری عہدوں پر حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی
👇1/20
افسران کی تعیناتی پر کئی حلقے تشویش کا اظہار کر رھےہیں اور اس معاملے پر سوشل میڈیا پر بھی گاھے بگاھے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فوج چونکہ ایک ڈسپلن فورس ہے لہذا سابق فوجی افسران کی مہارت سےاستفادہ کرنےمیں کوئی حرج نہیں
البتہ بعض تجزیہ کار اسے
👇2/20
سیاسی حکومتوں کی کمزوری قرار دیتےہیں
وہ سول افسران کی صلاحیتوں سےفائدہ اُٹھانےمیں ناکام رہی ہیں
ناقدین یہ سوال بھی اُٹھا رھےہیں کہ ماضی میں ایسا صرف فوجی دور حکومت میں ہوتا تھا
ایک سویلین حکومت کے ہوتےہوئے ریٹائر فوجی افسران کی اہم عہدوں پر تعیناتیاں کیوں کی جا رہی ہیں؟
👇3/20
ایک ڈاکٹر جس کی عمر 65 برس تھی یہ کہتے سنا کہ میں ڈاکٹر ہوں، میری اہلیہ ڈاکٹر ہے،میرا بیٹا اور بہو بھی ڈاکٹر ہیں
1994 میں شوگر ہوئی شوگر نے 2005 میں ہارٹ کا مریض بنایا اب کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر زندگی سے مکمل مایوس ہوچکا تھا۔
تب #علاج_بالغذا کا نسخہ ہاتھ لگا
میں چند
👇1/14
قدم چلنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اب پانچ کلومیٹر روزانہ واک کرتا ہوں ، صحت مند زندگی گزار رہا ہوں
اب مجھے اپنی ساری سائینس اور ساری تعلیم جہالت محسوس ہوتی ہے جس نے مجھے صحت مند زندگی کی بجائے شوگر کے قید خانے میں ڈال دیا تھا
اب ہم آپکو علاج بالغذا کا مکمل شیڈول بتاتے ہیں
👇2/14
#ناشتہ
فروٹ چاٹ۔۔600 گرام۔۔
تمام پھل کھائیں
آم، تربوز، خربوزہ، سمیت کوئی پرہیز نہیں
فروٹ چاٹ مصالحہ بھی استعمال کرسکتے ہیں مگر فروٹ چارٹ میں کریم بلکل نہ ڈالیں۔
قہوہ پئیں.
چائےسے کم از کم چالیس یوم تک مکمل پرہیز کریں
دن بارہ بجےتک فروٹ سے ہٹ کر کوئی چیز استعمال نہ کریں
👇3/14
اس کی وردی پر #میڈل دیکھو جیسے یہ سکندراعظم کی اولاد آدھی دنیا فتح کرکے آیا ہو
اب اس بدبخت کےکرتوت بھی پڑھ لو
یہ ایڈمرل منصور الحق پاکستان نیوی کا سربراہ تھا، یہ 10نومبر 1994ء سے یکم مئی1997ء تک نیول چیف رہا۔ منصور الحق پر ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 300 ارب روپے
👇1/13
کی کرپشن کا الزام نیوی کے لیے خریدے گئے بحری جہاز، ہتھیار، آگسٹا آبدوزیں، نیوی اور نیشنل شپنگ کارپوریشن کے سکریپ بحری جہاز بیچنے کے دوران کمشن اور کک بیکس لینے پر لگا۔
میاں نواز شریف نے یکم مئی 1997ء کو اسے نوکری سے برخاست کر دیا اور اس کے خلاف تحقیقات شروع کرا دیں جبکہ
👇2/12
منصور الحق 1998ء میں ملک سے فرار ہو گیا اور یہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں پناہ گزین ہو گیا۔
ملک میں اس کے خلاف مقدمات چلتے رہے، جنرل پرویز مشرف نے جب ’’نیب‘‘ بنائی تو یہ مقدمات نیب میں منتقل ہو گئے اور اتفاق سے اسی دوران امریکہ میں اینٹی کرپشن قوانین پاس ہو گئے
👇3/12
پاکستان کی بری فوج میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہنےوالےدو سابق جرنیلوں پر الزام ہےکہ انھوں نے غیرقانونی طور پر سوئٹزر لینڈ کے بینک میں ناجائز طریقوں سے حاصل کیگئی دولت اکٹھی کی۔
یہ الزامات بین الاقوامی نجی بینک ’کریڈٹ سوئز‘ کے
👇1/9
صارفین کے اکاؤنٹس کی خفیہ معلومات پر مشتمل ’دی سوئز سیکرٹس‘ کا حصہ ہیں جن میں دنیا بھر سے سیاست دانوں، فوجی آمروں، جرائم پیشہ افراد سمیت کئی دیگر افراد کا نام بھی شامل ہے۔
ان افراد میں پاکستان کے دو سابق جنرلز کے نام بھی شامل ہیں۔ ان میں سے ایک سابق ISI چیف اور چیئرمین
👇2/9
جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل اختر عبد الرحمان ہیں اور دوسرے جنرل زاہد علی اکبر۔
یہ افراد کون ہیں؟ بی بی سی نے سوئز سیکرٹس کے تناظر میں قارئین کے لیے اس خصوصی رپورٹ میں چند اہم تفصیلات پیش کی ہیں۔
جنرل اختر عبدالرحمن پاکستان کی آئی ایس آئی کے سربراہ اور بعد میں
👇3/9
دلچسپ و عجیب وا قعات
پاک فوج کے افسران اور جوان جب ریٹائر ہوتے ہیں تو انہیں عہدے کے لحاظ سے کتنی زمین ملتی ہے؟جانئے
لاہور (ویب ڈیسک) مشہور جرمن ویب سائٹ ڈوئچے ویلے نےپاک فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب سےکچھ سوالات کیے: ایک سوال تھا
👇1/13
دیکھا جائےتو یہ کہنا درست ہوگا کہ آجکل جب آپ فوج سےبطور کور کمانڈر ریٹائر ہوتےہیں تو
آپکے پاس لگ بھگ ایک ارب کے اثاثے ہوسکتےہیں؟
جنرل شعیب: جس زمانے میں بطور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائر ہوا تھا، اُس وقت آپ کو ڈی ایچ اے میں ایک کمرشل، ایک ریزیڈنشل اور ایک پلاٹ لیز پر ملتا تھا
👇2/13
آرمی کی کنٹونمٹ کی زمینوں میں۔ کنٹونمنٹ پلاٹ کو آپ بیچ نہیں سکتے تھے اور وہ گھر بنانے کے لیے تھا۔لیکن بعد میں ہمارے آرمی افسران نے اس پر اعتراض کیا کہ گھر تو مل جاتا ہے لیکن انہیں دیگر گھریلو خرچوں کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پلاٹ بیچنے کی اجازت ہونی چاہییے
👇3/13