#میں اج آپ کے سامنے ایک تلخ حقیت بیان کرنے جا رہا ہوں، یہ #تھریڈ پڑھ کر اپ خود فیصلہ کرنا
میں نے پانامہ فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں اپنے انکھوں سے جو دیکھا اور کانوں سے جو سنا،وہ منظر اپکو اس تھریڈ میں بتانا چاہتا ہوں۔
فروری2018 اپریل 2018دس جون 2018 نومبر 2018کو ثاقب نثار اور1/4
اعجاز الحسن پر مشتمل دو رکنی بینج نے احستاب عدالت کے جج بشیر کو کیا احکامات دیے اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے فروری 2018 کو احتساب کورٹ کے جج بشیر نے نواز شریف کے خلاف ریفرنس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں مزید وقت لینے کے لئے دارخواست دی تو سپریم کورٹ نے 7ہفتے کا ٹائم دیا،ثاقب نثار2/4
نے کہا 7 ہفتوں میں کیس کی سماعت مکمل کرنا، پھر اپریل میں جب 7ہفتے کا ٹائم مکمل ہوا تو جج بشیر صاحب توسیع کے لئے سپریم کورٹ گئے، اس مرتبہ بھی میں وہاں موجود تھا ڈیم جج ثاقب نثار نے جون 2018 تک کا وقت دیا۔جون میں کیس کا فیصلہ نہیں ہوا جج بشیر کی درخواست پر سپریم کورٹ میں 10جون 3/4
کو کیس لگا۔خواجہ حارث صاحب بھی وہاں پیش ہوئے، ثاقب نثار اور اعجاز الحسن کیس کی سماعت کے لئے کورٹ روم نمبر ایک ائے تو بہت غصے میں تھے۔کیس کے حوالے سے پوچھا، خواجہ حارث کو روسٹرم پر بلایا خواجہ صاحب نے دلائل دئے میرے اور بھی بہت کیسز ہیں وہاں پر بھی پیش ہونا پڑتا ہے۔ ثاقب نثار غصے
میں اگئے کہا جو بھی ہو جائے نواز شریف کے خلاف ریفرنس کا فیصلہ 25 جولائی 2018 کے الیکشن سے پہلے ہونا چاہئے، احتساب عدالت کے جج بشیر کو حکم دیا کچھ بھی ہو جائے بےشک ہفتے میں کیس کی سماعت 7 دن ہو جائے ہفتے اور اتور کو بھی کیس کی سماعت ہو، صبح سے لیکر رات تک کیس کی سماعت ہو کیس کا
فیصلہ 25 جولائی 2018 کے الیکشن سے پہلے ہونا چاہئے یہ ریمارکس تھے ڈیم جج ثاقب نثار کے، پھر اسی طرح ہوا ہفتے میں 6 دن کیس کی سماعت ہوئی اور الیکشن سے پہلے کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ اور میاں نواز شریف، مریم نواز کو سزا دی گئی۔
اس کے بعد باقی دو ریفرنس احتساب عدالت کے دوسرے جج ارشد
ملک صاحب کی کورٹ میں چل رہے تھے، نومبر 2018 کو سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی ٹائم ختم ہوئی تو جج ارشد ملک اضافی وقت کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست لیکر پہنچ گئے, یہ نومبر 2018 کی بات ہے نواز شریف صاحب کو IHC سے ضمانت پر رہائی مل چکی تھی سپریم کورٹ میں کیس لگا، خواجہ حارث صاحب کو بھی
بلایا گیا، میں بھی اپنے پارٹی کے وکلا دوستوں کے ساتھ وہاں موجود تھا، جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ثاقب نثار نے خواجہ حارث صاحب کو مخاطب کر کے کہا میں ایک مہینے کا ٹائم دے رہا ہوں دسمبر میں کیس کا فیصلہ ہونا چاہئے خواجہ صاحب نے کہا یہ ممکن نہیں، مجھے اور کیسوں میں بھی پیش ہونا ہے
ثاقب نثار نے کہا تو پھر آپ نے یہ کیس کیوں لیا، خواجہ حارث نے کہا ٹھیک ہے میں اپنا وکالت نامہ واپس لیتا ہوں، نواز شریف کوئی اور وکیل کرے گا، ڈیم جج ثاقب نثار نے غصے میں کہا، اپ وکالت نامہ واپس نہی لے سکتے، آپ نے وکالت نامہ واپس لیا تو دوسرا وکیل کیس کی تیاری کے لئے وقت مانگے گا
آپ کو ہی ہر حال میں پیش ہونا ہو گا، اور دن رات کیس کی سماعت ہونا چاہئے اور دسمبر میں کیس کا فیصلہ ہونا چاہئے یہ ریمارکس تھے ڈیم جج ثاقب نثار کے، اصل بات یہ تھی جنوری میں ثاقب نثار صاحب ریٹائر ہو رہا تھا ثاقب نثار کے مرضی کے مطابق دسمبر 2018 میں کیس کا فیصلہ ہو گیا، فلیگ شپ
ریفرنس میں نواز شریف صاحب کو بری کیا العزیزیہ میں 7سال کی سزا ہوئی۔ #نوٹ میں نے جو تفصیلات یہاں بیان کی اس کی تصدیق آپ لوگ کورٹ رپورٹر @HassanAyub82 , @Matiullahjan919 , @HasnaatMalik , @QayyumReports سمیت بہت سے اور صحافیوں سے بھی کر سکتے۔اعجاز الحسن اب بھی ن لیگ کے کیسز سنتا ہے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس عطا بندیال کو خط
قاضی عیسئ نے لاہور اور سندھ ہائی کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے بلائے گئے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے ملتوی کرنے یا سپین سے ویڈیو لنک میں شریک ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان 1/4
اور جوڈیشل کمیشن کے ممبرز کو لکھے گئے خط میں انہوں نے چھٹیوں میں بلائے گئے اجلاسوں پر 19 اعتراضات اٹھائے ہیں۔
جسٹس قاضی عیسیٰ نے لکھا کہ 28 اور 29 جون کو سندھ ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی اور لاہور ہائی کورٹ میں ایڈیشنل ججز کی کنفرمیشن کے لیے جو اجلاس بلائے گئے ہیں اس کے لیے 2/4
انہیں اطلاع نہیں دی گئی۔
انہوں نے کمیشن کے سیکریٹری جواد پال پر بھی اعتراضات اٹھائے ہیں۔
جسٹس قاضی عیسیٰ نے خط میں لکھا کہ ان کے پرائیویٹ سیکریٹری نے جواد پال کے خط اور ان کے ساتھ تین باکسز کی تصاویر انہیں بھیجی ہیں جن میں شاید امیدوار ججز کے کوائف ہوں گے۔
اپنے خط میں انہوں نے3/4
عمران خان کا فاشسٹ پلان کیسے ناکام بنایا گیا۔نواز شریف کو عمران خان کےخلاف عدم اعتماد کے لیے کس نے قائل کیا حامد میر کے تہلکہ خیز انکشافات
حامد میر نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف نے اپریل میں آرمی چیف کو تبدیل کرنا تھا جس کے بعد نئے انتخابات کرائے جاتے اور دو تہائی اکثریت کے1/4
ساتھ حکومت قائم کی جاتی،تحریک انصاف کی نئی حکومت آئین میں ترمیم کرکے صدارتی نظام نافذ کرتی اور آئندہ 15 سے20 برس کیلئے حکومت کرتی لیکن پیپلز پارٹی نے ان کا یہ منصوبہ ناکام بنادیا۔عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے باقاعدہ منصوبے کے تحت لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کو 15 اپریل سے قبل آرمی2/4
چیف بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔تحریکِ انصاف نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مسلم لیگ ن کو ملک کی سیاست سے کنارے پر لگا دیا جائے گا۔اس مقصد کےلیے انہوں نے پیپلز پارٹی سے رابطہ کر کےحکومت کے اتحاد اور نواز شریف اور شہباز شریف کو ملکی سیاست سے باہر کرنے کی پیشکش کی
حامد میر کےمطابق پی پی پی3/4
گزشتہ 5 ماہ سے سپریم کورٹ کے 3 ججز کی اسامیاں خالی ہے چیف جسٹس عطا بندیال صاحب ابھی تک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس نہیں بلایا۔میں نے عطا بندیال صاحب کا کام آسان کرنے کے لیے تمام ہائی کورٹ کے ججز کی ڈیٹا حاصل کی 117ججز مختلف ہائی کورٹ میں کام کر رہے ہیں ان ججز کی جو سینئرٹی لسٹ بنتی 1/3
ہے وہ اس طرح ہے
جسٹس احمد علی شیخ سینئرٹی لسٹ میں پہلے نمبر پر
عرفان سادات دوسرے نمبر پر
عقیل عباسی تیسرے نمبر
سید حسن اظہر رضوی چوتھے نمبر پر ان چاروں ججز کا تعلق سندھ ہائی کورٹ سے ہے
سینئرٹی لسٹ کے مطابق نعیم اختر اعوان BHC پانچویں نمبر پر ہاشم خان کاکڑ BHC چھٹے نمبر پر 2/3
جسٹس محمد عامر بھٹی LHCساتویں نمبر پر ملک شہزاد احمد خان LHC آٹھویں نمبر پر چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ قیصر رشید نویں نمبر پر,
سندھ ہائی کورٹ کے ندیم اختر دسویں نمبر پر سندھ ہائی کورٹ کے محمد شافی صدیقی سینئرٹی لسٹ کے مطابق گیارویں نمبر پر ہیں۔ اب مزید وقت ضائع کیے بغیر اجلاس بلائے
سننے میں آ رہا ہے جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ میں 3 نئے ججز کی تعیناتی کے لیے حکومت پر دباو ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اٹارنی جنرل اور وزیر قانون اس کے نامزد کردہ شخص کی حمایت میں ووٹ دے جبکہ میرے پاس جو اطلاع ہے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کا موقف وہی ہوگا جو بار کونسل کے 1/2
ممبر اختر حسین کا موقف ہوگا وہی موقف جسٹس قاضی عیسیٰ ،جسٹس سردار طارق اور جسٹس مظہر عالم خیل کا بھی ہوگا۔اسلیے 3 ماہ سے عطا بندیال جوڈیشل کمیشن کا اجلاس نہیں بلا رہا ہے۔ پینڈنگ کیسز کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کر گئے مگر سپریم کورٹ میں صرف 14 ججز کام کر رہے 3 ججز کی سیٹین خالی 2/3
ہے ان پر ابھی تک تعیناتی نہیں ہوئی یہ تین ججز روزانہ دس 10 کیسز کا بھی فیصلہ کرتے تو ایک دن میں 30 کیسز کا فیصلہ ہوتا مہینے میں 900 کیسز کا فیصلہ ہوتے اور تین ماہ میں 2700 کیسز کا اب تک فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ مگر عطا بندیال کو پتہ ہے ان کے پاس اکثریت نہی اسلیے از خود نوٹس لیکر حکومت
تحریک انصاف ممنوعہ فارن فنڈننگ کیس
کل عمران خان کراچی جلسے میں فارن فنڈنگ کیس کو لیکر بہت پریشان دیکھائی دیے وہ کہتے ہے نا چور کی داڑھی میں تنکا
فارن فنڈنگ کیس ہے کیا؟
پاکستان تحریکِ انصاف کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے نومبر 2014 میں پاکستان تحریکِ انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ1/3
لینے کے معاملے پر درخواست الیکشن کمیشن میں دائر کی تھی۔
درخواست گزار کا الزام تھا کہ تحریکِ انصاف کو بیرون ممالک سے بھاری رقوم فنڈنگ کی مد میں حاصل ہوئی۔ لیکن الیکشن کمیشن کو جو ریکارڈ فراہم کیا گیا وہ اُس رقم سے مطابقت نہیں رکھتا۔لہذٰا فنڈز میں خرد برد کی گئی۔8 سال سے یہ کیسز2/3
الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں چلتا رہا عمران خان نے 70 مرتبہ التوا لیا اب یہ کیس اپنے منطقی انجام کی طرف گامزن، میڈیا کے زریعے اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کی جو مندرجات سامنے آ رہے ہیں اس کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف نے 65 بنک اکاؤنٹس میں سے صرف 12 بینک اکاؤنٹس کے بارے میں کمیشن کو
تھریڈ
ثاقب نثار کی بدنیتی پر مبنی ایک غلط فیصلے نے سپریم کورٹ کے ججز میں داراڑیں ڈالی آج سپریم کورٹ دو حصوں میں تقسیم نظر آ رہی ہے۔
مئی 2018 سے لیکر جنوری 2022 تک ان 4 سالوں کے دوران سپریم کورٹ میں 8 ججز کی تقرریاں ہوئی ان 8 ججز میں سے 6 جونیئر ججز کو سپریم کورٹ تعینات کیا گیا1/3
جبکہ 2 سینئر موسٹ ججز کی تقرری ہوئی۔
ثاقب نثار نے بطور چیف جسٹس 2 سال کے عرصے میں ہائیکورٹ کے 4 ججز کو سپریم کورٹ تعینات کیا ان میں سے 3 ججز جسٹس سجاد علیشاہ،جسٹس منصور علیشاہ،جسٹس یحیئ آفریدی کو سینئرٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ کاجج تعینات کیا جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے سینئرٹی لسٹ2/3
میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس منیب اختر کو 8 مئی 2018 کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا ثاقب نثار کی اس تعیناتی میں بدنیتی واضح تھی کیونکہ ثاقب نثار نہیں چاہتا تھا جسٹس یحیٰی آفریدی زیادہ عرصہ چیف جسٹس آف پاکستان رہے ثاقب نثار نے منیب اختر کو چوتھے نمبر سے سپریم کورٹ کا جج لگا کر 3/4