اسرائیل کا پہلا وزیر اعظم بن گوریان، ایک صبح جلدی میں گھر سے نکل رہا تھا کہ اسکی بیٹی نے یاد دہانی کروائی آج دیوارِ گریہ پر سالانہ دعا کا دن ہے۔
بن گوریان نے جواب دیا کہ ریاستی امور سے متعلق کچھ کام نمٹانے ضروری ہیں۔
بیٹی نے کہا کہ سالانہ دعا سے اہم اور کیا کام ہو سکتا ہے؟🔻1|3
بن گوریان نے جواب دیا: اگر صرف دعا سے کام ہوتے تو تمام عرب اور مسلمان حج کے اجتماع میں ہر سال یہودیوں اور اسرائیل کی تباہی کی دعا مانگتے ہیں، لیکن عمل سے عاری ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ عرب اور مسلمان کس حال میں ہیں اور ہماری چھوٹی سی ریاست دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔🔻2|3
2 ارب مسلمان اس ساٹھ لاکھ کی آبادی والے ملک کے سامنے بے بس ہیں اور اسکی شرائط پر تعلقات استوار کرنے کی فکر میں ہیں۔
صرف بد دعاؤں ، التجاوں، اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلانے سے مسائل حل ہوتے تو کبھی اپنے حق اور آزادی کے تحفظ کیلئے جنگیں نہ کرنی پڑتیں۔۔۔
3|3 Copied... #ظفریات
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
دنیا مکافات عمل ہے، وقت گھوم کے ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں ضرور لاتا ہے۔
2003 میں عراق پر حملہ کرنے والوں میں سب سے بڑی فوج یوکرائن کی تھی، اور اب وہ خود کو بچانے کیلئے بھیک مانگ رہی ہے۔
افغانستان اور عراق پر حملہ کر کے لاکھوں بے گناہوں کو قتل کرنے والے یورپ اور امریکہ ۔۔۔
P1/4🔻
بغیر کسی جنگ کے ایک وائرس سے 50 لاکھ سے زائد جانیں گنوا چکے۔ ساری منصوبہ بندی اور ترقی ایک وائرس کا مقابلہ نہیں کر سکی اور افلاس میں مبتلا افریقی ساری لہریں ہضم کر گئے۔
"تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف" کہنے والوں کو کہنا پڑا "یہاں سے نکلنے میں ہماری مدد کرو"۔۔۔
P2/4🔻
صدر بننے کے بعد ایک مرد قلندر کو فون نہ کرنے والا آج اس کی اڑان پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ وہ کس پلڑے میں اپنا وزن ڈال رہا ہے۔۔۔
جو سفیر پاکستان کی تقدیر کے فیصلے کرتے تھے، آج ناکام لوگوں سے مل کر کے اس کے خلاف جمع ہو رہے ہیں جس نے Absolutely Not کہہ کے ٹھینگا دکھا دیا۔۔۔
P3/4🔻
ثمرقند سے طویل سفر طے کر کے آنے والا قاصد ، سلطنت اسلامیہ کےحکمران سے ملنا چاہتا تھا۔ اس کے پاس ایک خط تھا جس میں پادری نے سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت کی تھی۔
پادری نے لکھا !
"ہم نے سنا تھا کہ مسلمان جنگ اور حملے سے پہلے قبول اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔۔۔🔻1
۔۔اگر دعوت قبول نہ کی جائے تو جزیہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کوئی ان شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرے تو جنگ کرتے ہیں۔
مگر ہم پر اچانک حملہ کر کے ہمیں مفتوح کر لیا گیا ہے۔
یہ خط ثمر قند کے سب سے بڑے پادری نے عمر بن عبد العزیز کے نام لکھا تھا۔🔻2
دمشق کے لوگوں سے حاکم کی قیام گاہ کا معلوم کرتے کرتے وہ قاصد ایک ایسے گھر جا پہنچا جو انتہائی معمولی اور خستہ حالت میں تھا۔ جہاں ایک شخص چھت کی لپائی کر رہا تھا اور نیچے کھڑی عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی تھی۔ یہ عمر بن عبدالعزیز کا گھر تھا جسے دیکھ کر قاصد مایوس ہوا۔۔۔ 🔻3