سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تاریخ شھادت؟
دو تین روز میں بہت سے دوستوں نے میسنجر میں استفسار کیا ،کہ گذشتہ کئی سالوں سے شرالبریة اور اُن کے اُگلے ہوئے قے زدہ لُقمے ذوق و شوق سے کھانے والے نام نہاد مسلمان بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ سیدنا فاروق رضہ کا
یوم شھادت 26 یا 27 ذی الحج ہے!
اس کا جواب کیا ہے؟
سو جواب حاضرِ خدمت ہےسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یوم شھادت و یوم تدفین یکم محرم ہی ہےسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پہ حملہ ہونے کےدن اور تاریخ پہ تمام مؤرخین کا اجماع ہےکہ حملہ بروز بدھ 27 ذی الحج کو نماز فجر میں کیا گیا،
اور اس پہ بھی مؤرخین کااجماع ہے کہ حملہ کے تین دن بعد شھادت ہوئ۔
اب 27 ذی الحج کے تین دن بعد یکم محرم ہی بنتی ہے27 ذی الحج ہی نہیں رہتی۔
اردو خواں طبقے میں ماضی قریب میں لکھی جانے والی علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی مشہورِ زمانہ کتاب " الفاروق " کا سب سے زیادہ حوالہ دیا جاتا ہے
کہ علامہ شبلی نعمانی نے اپنی کتاب " الفاروق " کے صفحہ 166 پہ باقاعدہ عنوان باندھا ہے۔
حضرت عمر کی شھادت
( 26 ذی الحج سن 23 ھجری - 644 عیسوی )
( کل مدت خلافت دس برس چھ مہینے چار دن )
یہ عنوان لکھنے کے بعد علامہ موصوف واقعۂ شھادت لکھنا شروع کرتے ہیں
صفحہ نمبر 169 پہ ان الفاظ سے واقعۂ شھادت کا اختتام کرتے ہیں ، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے تین دن بعد انتقال کیا ، اور محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن مدفون ہوئے۔
علامہ موصوف کے عنوان کو مد نظر رکھیں ، عنوان میں 26 کو یوم شھادت قرار دے رہے ہیں ، اور تفصیل میں تین دن بعد کا تذکرہ
کر کے یکم کو تدفین قرار دے رہے ہیں! یا للعجب
یہی معاملہ متقدمین و متاخرین کی چند کتب تواریخ میں بھی نظر آتا ہے ، کہ حملہ کی تاریخ 27 ذی الحج بھی لکھتے ہیں ، تین دن بعد شھادت کا تذکرہ بھی کرتے ہیں ، اور پھر یوم شھادت بھی 27 ذی الحج ہی رہتاہے! کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
مُعترضین تاریخِ شہادت پہ اعتراض کرتے ہوئے زیادہ تر دو کُتب کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں۔ ان میں ایک اسد الغابة فی معرفة الصحابة ہے ، أسد الغابة في معرفة الصحابة صحابہ کرام کے احوال پر مشہور کتاب ہے۔ اس کتاب کے مصنف عز الدين بن الاثير ابو الحسن علی بن محمد الجزری المُتوفٰی 630ھ ہیں،
مختصراً اس کتاب کو اسد الغابة کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
دوسری کتاب الإصابة في تمييز الصحابة صحابہ کرام کے احوال پر علامہ ابن حجر عسقلانی کی کتاب ہے۔
علامہ عسقلانی رح کی تاریخِ وفات 852 ہجری ہے ، اور ان کی یہ کتاب مندرجہ بالا کتاب اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ اور
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں پیش کردہ روایات کا مجموعہ ہےعلامہ ابن حجر عسقلانی رح کو مندرجہ بالا دونوں کتب میں جہاں جہاں اشتباہات تھے انہوں نے ان کا ازالہ کرکے “ الاصابة “ میں ضروری توضیحات و ترامیم کی ہیں۔ الاستيعاب في معرفة الأصحاب علامہ ابن عبد البر رح المُتوفٰی 463 ہجری
کی تصنیف ہے۔
یومِ شھادتِ سیدنا عمر رضی اللہ عنه 26 یا 27 ذی الحجہ ثابت کرنے والوں کی ساری عمارت مندرجہ بالا کُتب اور “ علامہ گوگل شریف “ پہ قائم ہے۔
ان میں سے ایک کتاب کے مؤلف پانچویں صدی ہجری ، دوسری کے مؤلف ساتویں صدی ہجری اور تیسری کے مؤلف نویں صدی ہجری کے ہیں،
اپنے کمزور ترین مطالعہ اور برطانیہ میں کتب کی عدم دستیابی کے باوجود ذیل میں 42 کُتُب کے حوالہ جات پیش کر رہا ہوں ، جن میں اکثر میں مندرجہ ذیل عبارت بڑی واضح اور صاف لکھی ہوئی ہے۔
إِنَّ وَفَاتَهُ كَانَتْ فِي غُرَّةِ الْمُحَرَّمِ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ ودفن يوم الأحد
صباح هلال المحرم سنة أربع وعشرين
سيدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت یکم محرم سن 24 ہجری کو ہوئی
اور آپ رضی اللہ عنہ کو یکم محرم 24 ہجری کو ہی دفن کیا گیا۔
آئیے دیکھتے ہیں کن کُتُب میں یکم محرم تاریخ شہادت سیدنا عمر رضی اللہ بیان کی گئی ہے
تیسری صدی ہجری کی دو کُتب۔ (1) الطبقات الكبري - ط العلميه (ابن سعد 230 هجرى) ، الجزء : 3 ، الصفحة : 278 (2) تاريخ المدينة (عمر بن شبه النميري البصري 262 هجرى) ، الجزء : 3 ، الصفحة : 944
چوتھی صدی ہجری کی 5 کُتُب (3) تاريخ الطبري تاريخ الرسل والملوك وصله تاريخ الطبري (الطبري، ابن جرير 310 هجرى ) ، الجزء : 4 ، الصفحة : 193 (4) المنتخب من ذيل المذيل (الطبري، ابن جرير 310 هجرى) ، الجزء : 1 ، الصفحة : 11
(5) رجال صحيح البخاري الهدايه والارشاد في معرفه اهل الثقه والسداد (الكلاباذي، أبو نصر 323 هجرى) ، الجزء : 2 ، الصفحة : 507 (6) المستخرج من كتب الناس للتذكرة والمستطرف من أحوال الرجال للمعرفة ابن منده عبد الرحمن بن محمد 382 هجرى - الجزء : 2 ، الصفحة : 488
(7) إثارة التّرغيب والتّشويق إلى المساجد الثّلاثة والبيت العتيق (الخوارزمي، محمد بن إسحاق 383 هجرى) ، الجزء : 1 ، الصفحة : 320
پانچویں صدی ہجری کی 1 کتاب (8) التعديل والتجريح , لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح أبو الوليد الباجي 403 هجرى - الجزء : 3 ، الصفحة : 935
چھٹی صدی ہجری کی تین کُتب (9) تاريخ مدينة دمشق (ابن عساكر571 هجرى) ، الجزء : 44 ، الصفحة : 464 (10) تلقيح فهوم أهل الأثر في عيون التاريخ والسير (ابن الجوزي 597هجرى) ، الجزء : 1 ، الصفحة : 77 (11) علامہ ابن جوزی رح اپنی کتاب مناقب عمر بن خطاب میں محمد بن سعد سے روایت کرتے ہیں ،
، 27 ذی الحج بروز بدھ حملہ ہوا ، ہفتہ یکم محرم الحرام رات کے وقت انتقال ہوا ، اور رات ہی میں تدفین ہوئی۔
ساتویں صدی ہجری کی 8 کُتُب (12) اسد الغابه ط العلميه (ابن الأثير، عزالدین 637 هجرى)الجزء : 3 ، الصفحة : 578(13) الكامل في التاريخ - ط دار صادر (ابن الأثير، عزالدین 630 هجرى)
الجزء : 3 ، الصفحة : 52 (14) الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله(ص) و الثلاثة الخلفاء (أبو الربيع الحميري الكلاعي 634 هجرى) ، الجزء : 2 ، الصفحة : 605 (15) كتاب رياض الأفهام في شرح عمدة الأحكام تاج الدين الفاكهاني 654 هجرى - الجزء :1 ، الصفحة : 14
(16) نهاية الأرب في فنون الأدب [النويري 667 هجرى - الجزء : 19 صفحة : 404 (17) اسم الکتاب : المختصر في اخبار البشر (أبو الفداء 672 هجرى) ، الجزء : 1 ، الصفحة : 165 (18) كتاب العبر في خبر من غبر الذهبي، شمس الدين 673 هجرى - الجزء : 1 ، الصفحة : 20
(19) تاريخ ابن الوردي 691 هجرى . الجزء : 1 صفحة 142
آٹھویں صدی ہجری کی 5 کُتُب (20) شرح التبصرة والتذكرة ألفية العراقي [العراقي، زين الدين 725 هجرى - الجزء : 2 ، الصفحة : 303
واتفقوا على أنَّهُ دُفِنَ مُسْتَهَلِّ المُحَرَّمِ سنةَ أربعٍ وعشرينَ
(21) تهذيب الاسماء واللغات (النووي، أبو زكريا 767 هجرى) ، الجزء : 2 ، الصفحة : 13 (22) البداية والنهاية للإمام ابن كثير 774 هجرى . الجزء : 7 صفحة 154 - دار إحياء التراث العربي (23) تاريخ الإسلام، ووفيات المشاهير والأعلام قال الإمام الذهبي784 هجرى . الجزء : 2 صفحة 158
(24) تخريج الدلالات السمعية (الخزاعي، علي بن محمد 789 هجرى) ، الجزء : 1 ، الصفحة : 56نویں صدی ہجری کی 6 کُتُب (25) الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح [برهان الدين الأبناسي 802 هجرى الجزء 2 الصفحة725
(26)كتاب مآثر الإنافة في معالم الخلافة القلقشندي 821 هجرى -الجزء :1 الصفحة : 94
حوالے اور بھی موجود ہے تسلی کر لیجئے،
ان متقدمین و متاخرین کے علاوہ چند غیر معروف مؤرخین ایک روایت 8 محرم کی اور ایک روایت 10 محرم کی بھی بیان کرتےہیں ۔
متقدمین و متاخرین میں سے زیادہ مؤرخین کی رائے یکم محرم سن 24 ھجری ہی کی ہے،
اس لئے ہم یکم محرم ہی کو ترجیح دیتے ہیں تاریخ شھادت میں اختلاف سےسیدنا عمر فاروق رصہ کا مقام نہ کم ہوگا نہ زیادہ!اللہ نےان کو جو عظمتیں اور رفعتیں دی ہیں وہ اسی طرح رہیں گی، #تلمیذ_نوفل
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اکثر اہل سنت دوستوں نے میسیج کیا ہے کہ واقعہ کربلا، واقعہ حرہ اور یزید کی شخصیت وغیرہ جیسے موضوعات کے بارے میں کس کتاب یا کن کتب کا مطالعہ کیا جائے جو مختصر بھی ہوں اور آسان و عام فہم بھی ہوں؟
تو عرض ہے کہ میری اس پوسٹ کے ساتھ چند کتابوں کے سر ورق لگائے گئے ہیں، ہر سر ورق پر میں نے ایک نمبر لگایا ہے، آپ اسی ترتیب کے ساتھ ان کتابوں کا مطالعہ کرلیں، یعنی نمبر 1 والی کتاب سب سے پہلے، اس کے بعد نمبر 2 اور پھر نمبر 3 ، پھر نمبر 4 اور آخر میں نمبر 5 کتاب کو پڑھیں
لیکن مکمل پانچوں کتب پڑھنی ہیں کیونکہ اگر ایک یا دو یا تین یا چار پڑھ کر چھوڑ دیا تو ذہن میں آئے شکوک وشبہات دور نہ ہوں گےنوٹ: مکتب دیوبند سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے لئے كتاب نمبر 5 کے بارے میں جاری شدہ ایک فتویٰ بھی ساتھ منسلک ہے.
اگر آپ نام نہاد مسلمان شیعی طین کے مزید ہم اثر رہنا چاہتے ہیں تو سن لیجئے جس طرح وہ ذلیل خوار ہوتے ہیں اسی طرح تمہاری بھی ذلیل خواری طے ہے جس طرح وہ ہر بات پر مار کھاتے ہیں اسی طرح تمہارے لیے بھی جوتے طے ہیں،
تو پھر دونوں جوتا کھانے کیلئے تیار ہوجائیں
السید کمال الحیدري يبراً يزيد من قتل الحسین رضي الله عنہ مشہور شیعہ عالم سید کمال الحیدری نے شیعہ کتب کی بنیاد پر یہ اعتراف کیا ہے کہ یزید قتلِ حسین رضی اللہ عنہ کا ذمہ دار نہیں بلکہ یزید نے اس قتل کو پسند بھی نہیں کیا بلکہ قاتل حسین پر لعنت کی
اور کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ حسین رض کو نقصان پہنچایا جائے گا تو میں اپنے بچوں کو ان کی حفاظت پر مامور کر دیتا۔
افسوس اس حقیقت کا اعتراف روا_فض نے بھی کر لیا ہے لیکن ہمارے یہاں نام نہاد حسینی نما نیم رافضی عوام سے چھپا رہے ہیں اور شیعی پروپیگنڈا کو فروغ دینے کے لیے
ماتمِ حسینؓ اور تعزیہ داری کی ابتداء اس امت میں کیونکر اور کب ہوئی، اس پر سب سے مفصل کلام علامہ ابن کثیر دمشقی نے اپنی کتاب "البدایہ و النہایہ" کی جلد ۱۱ میں کیا ہے۔ ۳۳۴ ہجری میں جب ایرانی النسل دیلمی حکمران معزالدولہ بن بویہ کو بعہدِ
خلافتِ عباسیہ خودمختار وزیر کی حیثیت سے بغداد میں منصب ملا تو حادثۂ کربلا کے تقریباً تین سو برس بعد ۳۵۲ ہجری میں اس نے ماتمِ حسینؓ اور تعزیہ داری کی بدعات کا اجراء کروایا۔ عباسی خلیفہ خود اس وقت اس قدر کمزور ہوچکا تھا کہ وہ اس بابت نہ کچھ کہہ سکا اور نہ کرسکا۔
ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ۳۵۲ ہجری میں ماہِ محرم کی دسویں تاریخ کو معزالدولہ دیلمی نے حکم دیا کہ بازار سارے بند رکھے جائیں، عورتیں ماتمی لباس پہن کر چہرے کھولے، بال بکھیرے اور منہ و رخسار پیٹتی ہوئی بغداد کے بازاروں میں ماتمِ حسینؓ کرتی پھریں۔ روافض نے اس حکم کی بخوشی تعمیل کی
کبھی اپنے آپکو شہادت عثمان رضہ کے حوالے سے بھی یہوں تیار کر رکھو جس طرح شہادت حسین رضہ پر تیار کیے ہوئے اور اور سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر قاتل حسین رضہ کی جانچ پڑتال میں دن اور رات ایک کرکے تمام تر توانائیاں وقف کرتے ہو
کبھی عثمان رضہ کی دردناک شہادت پر یہوں ہی غم خوارِ تصور کروا دو جس طرح شہادت حسین رض پر دوکانیں بند کرتے ہو جگہ جگہ چاول پکاتے ہو جگہ جگہ سبیلیں لگاتے ہو،
کبھی شہادت عثمان رض پر بھی فوج کو الرٹ رکھو اداروں کو الرٹ رکھو
پورا کا پورا ملک یرغمال رکھو
فون سروسز بند کروا دو،
کبھی اپنے آپکو شہادت عثمان رض پر بھی ایسے تیار رکھو،
جس طرح شہادت حسین رض پر رکھتے ہو
محرم میں شہادت جائز نہیں کبھی یہوں بھی لکھو ذوالحج میں شادی جائز نہیں!
ذرا نہیں پورا سوچیں!!
یزید کی آڑ میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ والہ پر تبرا ؟کیا ہم نے کبھی غور کیا ؟ کہ واقعتا اصحاب رسول ﷺ ایسے تھے جیسے شیعی طین یا ان کے ہمنوا کرتے ہیں؟
کیا ہم نے کبھی غور کیا ؟ کہ خلفائے ثلاثہ اور سیدنا علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان واقعتا ایسی رقابتیں تھیں جیسے آج بیان کیا جاتا ہے؟
کیا ہم نے کبھی غور کیا؟ کہ سیدنا معاویہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہما کے مابین اختلافات کو جیسے ہوا دی جاتی ہے واقعتا ایسے تھے؟
کیا ہم نے کبھی غور کیا؟ کہ بنوامیہ کی آڑ میں اصحاب رسول ﷺ پر کیسے تبرا کیا جاتا ہے؟ جبکہ ان کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں؟کیا کوئ بتا سکتا ہے؟ کہ یزید کی بیوی ام محمد سیدنا علی اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کی کیا لگتی تھی ؟
وغیرہ وغیرہ۔
کبھی سنیں کہ بجائے پڑھا یا جانچہ بھی ہے؟
ویڈیو End تک دیکھیے گا،اسکے ممکن ہے کہ بعض دوست مجھے یا تو بلوک کرکے چلے جائیں گے یا مجھے انفالو کرکے چلیں جائیں گے، انکی خدمت میں عرض ہے میرے شیخ الاجمہوریہ صاحب عزت ذلت اللہ ہی کے ہاتھ میں کسی انسان کہ ہاتھ میں نہیں، میرا مقصد کسی عزت سے کھلنے نہیں بلکے
ان چلینج کا جواب دے رہا ہوں جو آج بھی کہتے ہیں کہ قیامت بھی آجائے تو مولانا فضل الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی کرپشن ثابت نہیں کرسکتے انکی خدمت میں یہ ویڈیو پیش کررہا ہوں، جیسے خالد محمود سومرو رحہ نے چیلینج دیا پھر اسی وقت انصار عباسی نے چیلینج کو قبول کرکے ثابت کیا،
پھر تو آپ بخوبی خالد محمود سومرو رحہ کی کیفیت دیک سکتے ہیں،