آج کے دنوں کی مناسبت سے ایک تحریر

ماتمِ حسینؓ اور تعزیہ داری کی ابتداء اس امت میں کیونکر اور کب ہوئی، اس پر سب سے مفصل کلام علامہ ابن کثیر دمشقی نے اپنی کتاب "البدایہ و النہایہ" کی جلد ۱۱ میں کیا ہے۔ ۳۳۴ ہجری میں جب ایرانی النسل دیلمی حکمران معزالدولہ بن بویہ کو بعہدِ
خلافتِ عباسیہ خودمختار وزیر کی حیثیت سے بغداد میں منصب ملا تو حادثۂ کربلا کے تقریباً تین سو برس بعد ۳۵۲ ہجری میں اس نے ماتمِ حسینؓ اور تعزیہ داری کی بدعات کا اجراء کروایا۔ عباسی خلیفہ خود اس وقت اس قدر کمزور ہوچکا تھا کہ وہ اس بابت نہ کچھ کہہ سکا اور نہ کرسکا۔
ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ۳۵۲ ہجری میں ماہِ محرم کی دسویں تاریخ کو معزالدولہ دیلمی نے حکم دیا کہ بازار سارے بند رکھے جائیں، عورتیں ماتمی لباس پہن کر چہرے کھولے، بال بکھیرے اور منہ و رخسار پیٹتی ہوئی بغداد کے بازاروں میں ماتمِ حسینؓ کرتی پھریں۔ روافض نے اس حکم کی بخوشی تعمیل کی
تاہم پہلے سال تو کوئی فساد برپا نہ ہوا لیکن اگلے سال اہلسنت یہ بدعات و خرفات برداشت نہ کرسکے اور ۳۵۳ ہجری میں ماہِ محرم میں جب دوبار ان بدعات کا اعادہ کیا گیا تو شیعہ سنی فساد برپا ہوگیا اور کثیر تعداد میں فریقین مارے گئے۔
معزالدولہ نے صرف اسی پر بس نہ کیا بلکہ اگلے سال "عیدِ غدیر" جیسی بدعی عید منانے کا بھی اجراء کیا جس کے لئے اس کے حکم سے شہر کے بازار آراستہ کئے گئے اور چراغاں اور آتش بازی کا اہتمام کروایا گیا۔ عیدِ غدیر منانے کے لئے ۱۸ ذی الحجہ کی تاریخ کو منتخب کیا گیا
کیا گیا جس کے پسِ پردہ اصل میں تو سیدنا عثمان ؓ کی شہادت کی خوشی منانا تھا لیکن پیشِ منظر میں اس کو سیدنا علیؓ سے متعلق وصیتِ رسول اللہ ﷺ سے جوڑا گیا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر مدینہ واپسی پر ایک برساتی نالے خم پر آپﷺ نے سیدنا علیؓ کا ہاتھ اٹھا کر نہ صرف ان کو "مولا" کے لقب سے
نوازا بلکہ اپنے بعد ان کی جانشینی کی وصیت بھی کرگئے۔ تاہم نبی ﷺ کی اس وصیت کو ان کے بعد ان کے اصحاب جلیل ؓ نے درخوراعتناء نہ سمجھا اور یکے بعد دیگے سیدنا ابو بکرؓ ، سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کو خلیفہ منتخب کرکے سیدنا علیؓ کے حق کو "غصب" کرلیا۔ پر مقامِ حیرت ہے کہ سیدنا علیؓ
کے حق کو "غصب" کرلیا۔ پر مقامِ حیرت ہے کہ سیدنا علیؓ نے اس کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند نہ کی بلکہ ان تینوں خلفاء کے مشیرِ خاص بنے رہے اور ان کی خلافتوں کو کامیاب بنوانے میں اپنے دن و رات صرف کردئیے۔ پھر سیدنا علیؓ نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ پہلے "غاصب" سیدنا ابوبکرؓ کے
کے انتقال کے بعد ان کی بیوہ سیدہ اسماء بنت عمیسؓ سے نکاح کرلیا اور سیدنا ابو بکر ؓ کے بیٹے محمد بن ابی بکر کو اپنی تولیت میں لیکر پالا۔ جبکہ دوسرے" غاصب "سیدنا عمر ؓ کو اپنی بیٹی سیدہ امِ کلثومؓ بیاہ دی۔ اس کے بعد جب سیدنا علیؓ کے اپنی مختلف بیویوں سے اولاد تولد ہوئی تو ایک
اولاد کا نام نبی ﷺ کے نام پر محمد بن علی رکھا تو دوسری کا نام اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب ؓ کےنام پر عباس بن علی رکھا۔ تیسرے کا نام پہلے"غاصب" خلیفہ کے نام پر ابو بکر بن علی رکھا تو چوتھے کا نام بھی دوسرے "غاصب"خلیفہ عمر بن خطابؓ کے نام پر عمر بن علی رکھ چھوڑا۔ اس کے باوجود بھی
جب سیدنا علیؓ کے دل میں ان احباب کے خلاف "نفرت کی آگ" کچھ کم نہ ہوئی تو پانچویں بیٹے کا نام تیسرے "غاصب" خلیفہ عثمان بن عفانؓ کے نام پر عثمان بن علی رکھ دیا۔
خیر یہ نام کی کہانیاں تو ضمناً زیرِ بحث آگئیں،
بات ہورہی تھی بنو بویہ و دیلمی حکمرانوں کی اجراء کردہ بدعات کی۔ ان ہی دیلمی حکمرانوں نے نہ صرف اپنے دورِ وزارت میں تعزیہ داری اور عیدِ غدیر کی بدعات کا اجراء کروایا بلکہ انہیں کے زمانے میں پہلی دفعہ روافض و شیعہ ایک الگ فرقے کے طور پر منظم ہوکر سامنے آئے اور انہوں نے اپنی کتب
و مصادر الگ سے مدون کرنا شروع کردئیے۔ اسی زمانے میں شیعوں کی حدیث کی معتبر ترین کتاب "الکافی" کی تدوین ہوئی جس کے فقہی مباحث کے حصہ کو الگ سے "اصول کافی" کے نام سے تدوین کیا گیا۔ ساتھ ساتھ صلوٰۃ، صوم، زکوٰۃ اور اذان کے احکامات میں بھی اہلسنت سے ممیز ہونے کے لئے تبدیلیاں کی
گئیں جیسا کہ افطار میں تاخیر کرنا اور اذان میں حی علی خیر العمل وغیرہ کا اضافہ کرنا۔ اس کے ساتھ ساتھ توّلا و تبّرا کی خرافات بھی ایجاد کی گئیں جن کے تحت اہلبیت سے محبت کے اعلان کو توّلا کا نام دیا گیا اور اصحابِ کرامؓ کو دشمنانِ اہلبیت قرار دیکر ان سے بیزاری کو تبّرا سے موسوم
کیا گیا۔بغداد کی مساجد کے دروازوں پر خلفائے ثلاثہ، سیدنا معاویہؓ، سیدنا مروان اور سیدہ عائشہؓ پر لعنت لکھوائی گئی ۔ اس رسمِ بد کے اجراء سے ایک دفعہ پھر بغداد میں شیعہ سنی فسادات پھوٹ پڑے جس کی وجہ سے وقتی طور پر ان رسومات پر پابندی عائد کی گئی۔
تاہم معزالدولہ کے بھتیجے عضدالدولہ نے جب یہ دیکھا کہ لوگ ان بدعات کو بھولنے لگے ہیں تو ان کو مستقل بنیادوں پر رواج دینے کی غرض سے اس نے اپنے دورِ وزارت میں عراق میں دو متبرک مقامات "دریافت" کرلئے۔ سیدنا علیؓ کی وفات کے تقریباً سوا تین سو برس بعد ۳۶۹ ہجری میں عراق میں نجف کے
علاقے میں ان کی قبر دریافت کرکے اسکو "مشہد علیؓ " کا نام دیا گیا جبکہ سیدنا علیؓ کی قبر عرصۂ دراز سے نامعلوم تھی ۔ اس کے ساتھ ہی حادثہ کربلا کے تین سو دس برس کے بعد ۳۷۰ ہجری میں سیدنا حسینؓ کی قبر کو از سرِ نو دریافت کرکے اسکو "مشہدِ حسینؓ" کے نام سے موسوم کیا گیا جبکہ حقیقت
یہ ہے کربلا میں جس مقام پر سیدناحسینؓ کی قبر بتائی جاتی تھی اس کی بابت ابن کثیر دمشقی البدایہ و النہایہ جلد ۸ صفحہ ۲۰۳ میں لکھتے ہیں کہ اُس مقام کے آثار جہاں سیدنا حسین ؓ کا مقتول ہونا بتایا جاتا ہے اس درجہ مٹ چکے تھے کہ کوئی شخص بھی صحیح طور سے وہ جگہ متعین نہیں
نعیم فضل بن دکین جن کے تشیع کی بابت محدثین نے تصریح کی ہے اس شخص کے قول کو نہیں مانتے تھے جو قبرِ حسینؓ کے جاننے پہنچاننے کا دعویٰ کرےکیونکہ روافض و جاھل عوام الناس نے یہاں جمع ہوکر مشرکانہ افعال انجام دینا شروع کردئیے تھے۔ اسی بناء پر بقول ابن جریر طبری خلیفہ المتوکل علی
اللہ عباسیؒ ، جن کی بابت علامہ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں کہ وہ نہایت متبع سنت اور امام احمد بن حنبل کے معتقد تھے نے ۲۳۶ ہجری میں حکم دیا کہ قبرِ حسین بن علیؓ کو ڈھادیا جائے اور آس پاس زائرین کے لئے جو سرائے تعمیر کئے گئے ہیں ان کو مہندم کرکے پورے علاقے میں آبپاشی کی جائے اور
لوگوں کو وہاں جانے سے منع کیا جائے۔ ساتھ ہی حکم دیا کہ اس مقام پر زراعت کا کام شروع کروادیا جائے (طبری جلد ۱۱ صفحہ ۴۴) ۔ لیکن دیلمیوں نے اپنے زمانےمیں برسرِ اقتدار آنے بعد تقریباً ۱۳۵ سال کے بعد ۳۷۰ ہجری یہاں "مشہدِ حسینؓ " تعمیر کروادیا جبکہ اس سے پیشتر اس علاقہ میں ۱۰۰ سال
سے زیادہ عرصہ تک زراعت ہوتی رہی تھی اور اس وقت سے لیکر آج تک یہ علاقہ زائرین کے لئے مرجع کی جگہ بنا ہوا ہے۔

دیلمیوں و بنی بویہ کا سیاسی اقتدار تقریباً ایک صدی تک رہا یہاں تک کہ سلجوقی جو کہ مذہباً سنی المسلک تھے انہوں نے آکر انتظامِ سلطنت اپنے ہاتھ میں لیا اور امت کو ان
بد بختوں سے نجات دلوائی۔ دیلمی اپنا سیاسی اقتدار تو کھو بیٹھے لیکن ان کے نظریاتی افکار امت میں افتراق کا بیج پوری طرح بوگئے۔ اپنے تقریباً ایک صدی پر مشتمل سیاسی اقتدار میں بنی بویہ اس امت کو ماتمِ حسینؓ، عیدِ غدیرِ، مشہدِ علیؓ و حسینؓ جیسی فرضی قبریں، شیعہ کتبِ احادیث کی تدوین
خلفائے ثلاثہ اور اصحاب کرامؓ پر سب و شتم اور بدگوئی کی گئی ہے، نسب و قومیت کے تفاخر کے لئے لفظ "سید" کا استعمال، خطباتِ جمعہ میں نبی ﷺ کی بقیہ تین صاحبزادیوں اور نواسوں کو چھوڑ کر
صرف سیدہ فاطمہؓ و حضراتِ حسنینؓ کا تذکرہ کرنا جیسی روایات دے کر رخصت ہوگئے جو کہ اب تک اس امت میں جاری و ساری ہیں۔
#تلمیذ_نوفل

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with نوفل_Nofil

نوفل_Nofil Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @NofilnoNofill

Aug 7
کون سی کتاب کا مطالعه کریں؟

اکثر اہل سنت دوستوں نے میسیج کیا ہے کہ واقعہ کربلا، واقعہ حرہ اور یزید کی شخصیت وغیرہ جیسے موضوعات کے بارے میں کس کتاب یا کن کتب کا مطالعہ کیا جائے جو مختصر بھی ہوں اور آسان و عام فہم بھی ہوں؟ ImageImageImageImage
تو عرض ہے کہ میری اس پوسٹ کے ساتھ چند کتابوں کے سر ورق لگائے گئے ہیں، ہر سر ورق پر میں نے ایک نمبر لگایا ہے، آپ اسی ترتیب کے ساتھ ان کتابوں کا مطالعہ کرلیں، یعنی نمبر 1 والی کتاب سب سے پہلے، اس کے بعد نمبر 2 اور پھر نمبر 3 ، پھر نمبر 4 اور آخر میں نمبر 5 کتاب کو پڑھیں
لیکن مکمل پانچوں کتب پڑھنی ہیں کیونکہ اگر ایک یا دو یا تین یا چار پڑھ کر چھوڑ دیا تو ذہن میں آئے شکوک وشبہات دور نہ ہوں گےنوٹ: مکتب دیوبند سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے لئے كتاب نمبر 5 کے بارے میں جاری شدہ ایک فتویٰ بھی ساتھ منسلک ہے.
Read 7 tweets
Aug 7
اگر آپ نام نہاد مسلمان شیعی طین کے مزید ہم اثر رہنا چاہتے ہیں تو سن لیجئے جس طرح وہ ذلیل خوار ہوتے ہیں اسی طرح تمہاری بھی ذلیل خواری طے ہے جس طرح وہ ہر بات پر مار کھاتے ہیں اسی طرح تمہارے لیے بھی جوتے طے ہیں،
تو پھر دونوں جوتا کھانے کیلئے تیار ہوجائیں
السید کمال الحیدري يبراً يزيد من قتل الحسین رضي الله عنہ مشہور شیعہ عالم سید کمال الحیدری نے شیعہ کتب کی بنیاد پر یہ اعتراف کیا ہے کہ یزید قتلِ حسین رضی اللہ عنہ کا ذمہ دار نہیں بلکہ یزید نے اس قتل کو پسند بھی نہیں کیا بلکہ قاتل حسین پر لعنت کی
اور کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ حسین رض کو نقصان پہنچایا جائے گا تو میں اپنے بچوں کو ان کی حفاظت پر مامور کر دیتا۔
افسوس اس حقیقت کا اعتراف روا_فض نے بھی کر لیا ہے لیکن ہمارے یہاں نام نہاد حسینی نما نیم رافضی عوام سے چھپا رہے ہیں اور شیعی پروپیگنڈا کو فروغ دینے کے لیے
Read 4 tweets
Aug 5
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تاریخ شھادت؟
دو تین روز میں بہت سے دوستوں نے میسنجر میں استفسار کیا ،کہ گذشتہ کئی سالوں سے شرالبریة اور اُن کے اُگلے ہوئے قے زدہ لُقمے ذوق و شوق سے کھانے والے نام نہاد مسلمان بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ سیدنا فاروق رضہ کا
یوم شھادت 26 یا 27 ذی الحج ہے!
اس کا جواب کیا ہے؟

سو جواب حاضرِ خدمت ہےسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یوم شھادت و یوم تدفین یکم محرم ہی ہےسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پہ حملہ ہونے کےدن اور تاریخ پہ تمام مؤرخین کا اجماع ہےکہ حملہ بروز بدھ 27 ذی الحج کو نماز فجر میں کیا گیا،
اور اس پہ بھی مؤرخین کااجماع ہے کہ حملہ کے تین دن بعد شھادت ہوئ۔
اب 27 ذی الحج کے تین دن بعد یکم محرم ہی بنتی ہے27 ذی الحج ہی نہیں رہتی۔
اردو خواں طبقے میں ماضی قریب میں لکھی جانے والی علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی مشہورِ زمانہ کتاب " الفاروق " کا سب سے زیادہ حوالہ دیا جاتا ہے
Read 25 tweets
Aug 5
کبھی اپنے آپکو شہادت عثمان رضہ کے حوالے سے بھی یہوں تیار کر رکھو جس طرح شہادت حسین رضہ پر تیار کیے ہوئے اور اور سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر قاتل حسین رضہ کی جانچ پڑتال میں دن اور رات ایک کرکے تمام تر توانائیاں وقف کرتے ہو
کبھی عثمان رضہ کی دردناک شہادت پر یہوں ہی غم خوارِ تصور کروا دو جس طرح شہادت حسین رض پر دوکانیں بند کرتے ہو جگہ جگہ چاول پکاتے ہو جگہ جگہ سبیلیں لگاتے ہو،
کبھی شہادت عثمان رض پر بھی فوج کو الرٹ رکھو اداروں کو الرٹ رکھو
پورا کا پورا ملک یرغمال رکھو
فون سروسز بند کروا دو،
کبھی اپنے آپکو شہادت عثمان رض پر بھی ایسے تیار رکھو،
جس طرح شہادت حسین رض پر رکھتے ہو
محرم میں شہادت جائز نہیں کبھی یہوں بھی لکھو ذوالحج میں شادی جائز نہیں!
Read 5 tweets
Aug 4
ذرا نہیں پورا سوچیں!!
یزید کی آڑ میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ والہ پر تبرا ؟کیا ہم نے کبھی غور کیا ؟ کہ واقعتا اصحاب رسول ﷺ ایسے تھے جیسے شیعی طین یا ان کے ہمنوا کرتے ہیں؟
کیا ہم نے کبھی غور کیا ؟ کہ خلفائے ثلاثہ اور سیدنا علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان واقعتا ایسی رقابتیں تھیں جیسے آج بیان کیا جاتا ہے؟
کیا ہم نے کبھی غور کیا؟ کہ سیدنا معاویہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہما کے مابین اختلافات کو جیسے ہوا دی جاتی ہے واقعتا ایسے تھے؟
کیا ہم نے کبھی غور کیا؟ کہ بنوامیہ کی آڑ میں اصحاب رسول ﷺ پر کیسے تبرا کیا جاتا ہے؟ جبکہ ان کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں؟کیا کوئ بتا سکتا ہے؟ کہ یزید کی بیوی ام محمد سیدنا علی اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کی کیا لگتی تھی ؟
وغیرہ وغیرہ۔
کبھی سنیں کہ بجائے پڑھا یا جانچہ بھی ہے؟
Read 7 tweets
Jun 18
ویڈیو End تک دیکھیے گا،اسکے ممکن ہے کہ بعض دوست مجھے یا تو بلوک کرکے چلے جائیں گے یا مجھے انفالو کرکے چلیں جائیں گے، انکی خدمت میں عرض ہے میرے شیخ الاجمہوریہ صاحب عزت ذلت اللہ ہی کے ہاتھ میں کسی انسان کہ ہاتھ میں نہیں، میرا مقصد کسی عزت سے کھلنے نہیں بلکے
ان چلینج کا جواب دے رہا ہوں جو آج بھی کہتے ہیں کہ قیامت بھی آجائے تو مولانا فضل الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی کرپشن ثابت نہیں کرسکتے انکی خدمت میں یہ ویڈیو پیش کررہا ہوں، جیسے خالد محمود سومرو رحہ نے چیلینج دیا پھر اسی وقت انصار عباسی نے چیلینج کو قبول کرکے ثابت کیا،
پھر تو آپ بخوبی خالد محمود سومرو رحہ کی کیفیت دیک سکتے ہیں،
Read 5 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Don't want to be a Premium member but still want to support us?

Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(