طوفان نوح دنیا کی تاریخ کا ایک عظیم اور ناقابل فراموش واقعہ جسے تاریخ انسانی صدیاں گزر جانے کے باوجود فراموش نہیں کرسکی وہ ایک پانی کا سیلاب تھا جو حکم الٰہی کے تحت ایک مخصوص تنور کے ذریعے ابلا اور روئے زمین پر اس تیزی سے پھیلا کہ کسی بھی جاندار کے لئے مفر ممکن نہیں رہا
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کوہ جودی کی چوٹی کو چھونے لگا یہاں تک کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اس سے جالگی۔ آپ علیہ السلام اپنے 70 تا 80 پیروؤں کے ہمراہ سلامتی کے ساتھ وہاں اتر گئے
اس میں آپ علیہ السلام کے تین بیٹے سام، حام، یغوث اور ان کی بیویاں بھی شامل تھیں۔ اس طوفان میں حضرت
حضرت نوح علیہ السلام کی کافرہ بیوی واعلہ اور نافرمان بیٹا کنعان جو کہ ایک بہترین تیراک تھا پیغمبر کی نظروں کے سامنے غرق ہوگئے یہ سیلاب نہیں بلکہ عذاب کی ایک شکل تھی جو نافرمانی اور مشرکانہ عقائد رکھنے والوں کے لیے ایک سزا بنی،
اس واقعےکوقرآن نےتفصیل سے بیان کیاہے ترجمہ یہاں تک ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا ہم نے کہا اس کشتی میں ہر قسم کے جوڑے (نرمادہ) سوار کرالے اوراپنےگھر کے لوگوں کو بھی سوائےان کےجن پر پہلے بات پڑ چکی ہےاورسب ایمان والوں کو بھی۔ اس کے ساتھ ایمان والے بہت کم تھے(سورۂ ہود آیت 40)
حضرت لوط کی قوم معاشرے میں ایک بڑے گھناؤنے فعل میں مبتلا تھی،
حضرت ہود ؑ کے ساتھ جو لوگ عذاب سے بچ گئے تھے وہ حضرت صالح کے وقت میں قومِ ثمود کے نام سے مشہور ہوئے
انہیں عاد ثانی بھی کہا جاتا ہے
حضرت شعیب ؑ کی قوم کو اصحابِ مدین اور اصحاب الایکہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا ذکر قرآن حکیم میں 4 سورتوں میں آیا ہے۔ الحجر 78، الشعراء 176، ص 13اور ق آیت 14مدین انکے مذہبی شہر کا بھی نام ہے اور قبیلے کا نام بھی،
اگر تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو ہم تجھے سنگسار کردیتے اور ہم تجھے کوئی حیثیت والی ہستی نہیں سمجھتے۔‘‘ (سورئہ ہود آیت 91)
حدیث میں آیا ہے کہ ’’جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اس پر قحط سالی، سخت محنت اور حکمرانوں کا سخت ظلم مسلّط کردیا جاتا ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ حدیث نمبر 19۔40)
قوم کے ایسے ہی بے ہودہ جواب پر غضبِ الٰہی جوش میں آتا ہے اور پھر وہ انہیں کہیں کا نہیں چھوڑتا اور عذاب الٰہی ان کا مقدّر بن جاتا ہے۔ فرمایا ترجمہ ’’پس ان کو زلزلہ نے آپکڑا سو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔‘‘ (سورئہ اعراف آیت91) اس طرح وہ پوری قوم صفحہ
ہستی سے نیست و نابود ہوگئی عذاب کا سبب ان مذکورہ قوم پر یہ بتایا جاتا ہے کہ ان پر انھی میں سےپیغمبر مبعوث ہوئےانہوں نے حق کا پیغام بلا کم و کاست امّت تک پہنچایا مگر ان کی قوم نے ان کی تعلیمات پر کوئی توجہ نہ دی اور وہ شرک پر ڈٹے رہےشرک ایک ایسا
مذموم فعل ہے جو اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ نا پسند ہے،کیوںکہ یہ اﷲ کی چوکھٹ سے غیر کی چوکھٹ پر لے جاتا ہے پھر پیغمبروں کی تکذیب اور ایذارسانیاں جیسے امور پر امّت پر اجتماعی عذاب نازل کرکے انہیں صفحۂ
ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے
عقل والوں کیلئے اس میں بہت سی عبرتناک نشانیاں موجود ہیں، #تلمیذ_نوفل
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
(راکھ کے ڈھیر میں شعلہ بھی ہے چنگاری بھی)
قسط:11
امام غزالی نے یزید پر شب و ستم کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ وہ مسلمان تھے اور یہ ثابت نہیں کہ وہ قتل حسین پر راضی تھے – رہا ان پر رحمتہ الله علیہ کہنا سو یہ جائز ہے بلکہ مستحب ہےاور ہم ان پررحمت کی دعا اپنی نمازوں میں تمام
مومنین و مسلمین کے بشمول مانگا کرتے ہیں.(البدایه و النہایه صفحہ 173 جلد 12 )
رَبَّنَا اغفِر لى وَلِوٰلِدَىَّ وَلِلمُؤمِنينَ يَومَ يَقومُ الحِسابُ ﴿إبراهيم: 41﴾
کتاب فضل یزید .پانچویں اورچھٹی ہجری صدی کا وہ زمانہ ہے جب بنی امیہ اور خاص کر یزید کےمخالفانہ پروپیگنڈہ نےشدت اختیار
کی اور طرح طرح کے بہتان تراشے گیے تو کچھ صالحین امت نے حقیقت انکشاف کرنے کا ارادہ کیا تو شیخ عبد المغیث نے امیر یزید کی حسن سیرت پر ایک کتاب تصنیف کی (البدایه و النہایه جلد 12 صفحہ 338 )
اس سلسلہ میں علامہ ابن کثیر نے یہ لطیفہ بیان کیا ہے
اکثر اہل سنت دوستوں نے میسیج کیا ہے کہ واقعہ کربلا، واقعہ حرہ اور یزید کی شخصیت وغیرہ جیسے موضوعات کے بارے میں کس کتاب یا کن کتب کا مطالعہ کیا جائے جو مختصر بھی ہوں اور آسان و عام فہم بھی ہوں؟
تو عرض ہے کہ میری اس پوسٹ کے ساتھ چند کتابوں کے سر ورق لگائے گئے ہیں، ہر سر ورق پر میں نے ایک نمبر لگایا ہے، آپ اسی ترتیب کے ساتھ ان کتابوں کا مطالعہ کرلیں، یعنی نمبر 1 والی کتاب سب سے پہلے، اس کے بعد نمبر 2 اور پھر نمبر 3 ، پھر نمبر 4 اور آخر میں نمبر 5 کتاب کو پڑھیں
لیکن مکمل پانچوں کتب پڑھنی ہیں کیونکہ اگر ایک یا دو یا تین یا چار پڑھ کر چھوڑ دیا تو ذہن میں آئے شکوک وشبہات دور نہ ہوں گےنوٹ: مکتب دیوبند سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے لئے كتاب نمبر 5 کے بارے میں جاری شدہ ایک فتویٰ بھی ساتھ منسلک ہے.
اگر آپ نام نہاد مسلمان شیعی طین کے مزید ہم اثر رہنا چاہتے ہیں تو سن لیجئے جس طرح وہ ذلیل خوار ہوتے ہیں اسی طرح تمہاری بھی ذلیل خواری طے ہے جس طرح وہ ہر بات پر مار کھاتے ہیں اسی طرح تمہارے لیے بھی جوتے طے ہیں،
تو پھر دونوں جوتا کھانے کیلئے تیار ہوجائیں
السید کمال الحیدري يبراً يزيد من قتل الحسین رضي الله عنہ مشہور شیعہ عالم سید کمال الحیدری نے شیعہ کتب کی بنیاد پر یہ اعتراف کیا ہے کہ یزید قتلِ حسین رضی اللہ عنہ کا ذمہ دار نہیں بلکہ یزید نے اس قتل کو پسند بھی نہیں کیا بلکہ قاتل حسین پر لعنت کی
اور کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ حسین رض کو نقصان پہنچایا جائے گا تو میں اپنے بچوں کو ان کی حفاظت پر مامور کر دیتا۔
افسوس اس حقیقت کا اعتراف روا_فض نے بھی کر لیا ہے لیکن ہمارے یہاں نام نہاد حسینی نما نیم رافضی عوام سے چھپا رہے ہیں اور شیعی پروپیگنڈا کو فروغ دینے کے لیے
ماتمِ حسینؓ اور تعزیہ داری کی ابتداء اس امت میں کیونکر اور کب ہوئی، اس پر سب سے مفصل کلام علامہ ابن کثیر دمشقی نے اپنی کتاب "البدایہ و النہایہ" کی جلد ۱۱ میں کیا ہے۔ ۳۳۴ ہجری میں جب ایرانی النسل دیلمی حکمران معزالدولہ بن بویہ کو بعہدِ
خلافتِ عباسیہ خودمختار وزیر کی حیثیت سے بغداد میں منصب ملا تو حادثۂ کربلا کے تقریباً تین سو برس بعد ۳۵۲ ہجری میں اس نے ماتمِ حسینؓ اور تعزیہ داری کی بدعات کا اجراء کروایا۔ عباسی خلیفہ خود اس وقت اس قدر کمزور ہوچکا تھا کہ وہ اس بابت نہ کچھ کہہ سکا اور نہ کرسکا۔
ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ۳۵۲ ہجری میں ماہِ محرم کی دسویں تاریخ کو معزالدولہ دیلمی نے حکم دیا کہ بازار سارے بند رکھے جائیں، عورتیں ماتمی لباس پہن کر چہرے کھولے، بال بکھیرے اور منہ و رخسار پیٹتی ہوئی بغداد کے بازاروں میں ماتمِ حسینؓ کرتی پھریں۔ روافض نے اس حکم کی بخوشی تعمیل کی
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تاریخ شھادت؟
دو تین روز میں بہت سے دوستوں نے میسنجر میں استفسار کیا ،کہ گذشتہ کئی سالوں سے شرالبریة اور اُن کے اُگلے ہوئے قے زدہ لُقمے ذوق و شوق سے کھانے والے نام نہاد مسلمان بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ سیدنا فاروق رضہ کا
یوم شھادت 26 یا 27 ذی الحج ہے!
اس کا جواب کیا ہے؟
سو جواب حاضرِ خدمت ہےسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یوم شھادت و یوم تدفین یکم محرم ہی ہےسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پہ حملہ ہونے کےدن اور تاریخ پہ تمام مؤرخین کا اجماع ہےکہ حملہ بروز بدھ 27 ذی الحج کو نماز فجر میں کیا گیا،
اور اس پہ بھی مؤرخین کااجماع ہے کہ حملہ کے تین دن بعد شھادت ہوئ۔
اب 27 ذی الحج کے تین دن بعد یکم محرم ہی بنتی ہے27 ذی الحج ہی نہیں رہتی۔
اردو خواں طبقے میں ماضی قریب میں لکھی جانے والی علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی مشہورِ زمانہ کتاب " الفاروق " کا سب سے زیادہ حوالہ دیا جاتا ہے
کبھی اپنے آپکو شہادت عثمان رضہ کے حوالے سے بھی یہوں تیار کر رکھو جس طرح شہادت حسین رضہ پر تیار کیے ہوئے اور اور سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر قاتل حسین رضہ کی جانچ پڑتال میں دن اور رات ایک کرکے تمام تر توانائیاں وقف کرتے ہو
کبھی عثمان رضہ کی دردناک شہادت پر یہوں ہی غم خوارِ تصور کروا دو جس طرح شہادت حسین رض پر دوکانیں بند کرتے ہو جگہ جگہ چاول پکاتے ہو جگہ جگہ سبیلیں لگاتے ہو،
کبھی شہادت عثمان رض پر بھی فوج کو الرٹ رکھو اداروں کو الرٹ رکھو
پورا کا پورا ملک یرغمال رکھو
فون سروسز بند کروا دو،
کبھی اپنے آپکو شہادت عثمان رض پر بھی ایسے تیار رکھو،
جس طرح شہادت حسین رض پر رکھتے ہو
محرم میں شہادت جائز نہیں کبھی یہوں بھی لکھو ذوالحج میں شادی جائز نہیں!