ایک بہن کہتی ہیں ایک دن میں اپنے گھر کی صفائی کر رہی تھی اتنے میں میرا بیٹا آیا اور شیشے سے ایک شاہکار تحفہ گرا دیااور وہ ٹوٹ گیا
میں اس سے بہت ناراض تھی کیونکہ یہ بہت مہنگاتھااور میری ماں نے مجھے دیاتھااور میں اسے پسند کرتی تھی اور اسے رکھنا چاہتی
تھی
میں نے غصے سے اسے بلایا اور کہا
میرا رب ایسی دیوار گرائے جو تمہاری ہڈیاں توڑ دے
بہن کہتی ہیں
سال گزر گئے اور میں اس پکار اس بدعا کو بھول گئی اور مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی، اور نہ ہی مجھے معلوم تھا کہ وہ آسمان پر چڑھ گئی ہے
میرا بیٹا اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ پلا
بڑھا اور وہ میرے دل میں میرے بیٹوں میں سب سے زیادہ پیارا تھا
میں اس کوہوا لگنے سے بھی ڈرتی تھی وہ میرے لیے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے زیادہ نیک تھا
اس نے تعلیم حاصل کی گریجویشن کیا، ملازمت حاصل کی اور میں اس کے لیے بیوی تلاش کر رہی تھی
اس کے والد کی ایک پرانی عمارت تھی اور وہ
اسے گرا کر دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے
میرا بیٹا اپنے والد کے ساتھ عمارت کی طرف گیا اور مزدور منہدم کرنے کی تیاری کر رہے تھے، اور اپنے کام کے درمیان میرا بیٹا اپنے والد سے دور چلا گیا اور کارکن نے اسے نوٹس نہیں کیا تو دیوار اس پر گر گئ
میرا بیٹا چیخا اور پھر اس کی آواز غائب
ہوگئی
کارکن رک گئے اور سب پریشان اور خوف زدہ ہو گئے
انہوں نے بڑی مشکل سے اس سے دیوار ہٹائی اور ایمبولینس آئی اوراس کا جسم لے جانے کے قابل نہ رہاتھاکیونکہ شیشے کی طرح گر کر ٹوٹ گیاتھا، تو انہوں نے اسے بڑی مشکل سے اٹھایا اور انتہائی نگہداشت میں منتقل کیا
اور جب اس کے والد نے
مجھے خبرکی تو میں بے ہوش ہو گئی اور جب مجھے ہوش آیا تو گویا اللہ تعالیٰ نے میری آنکھوں کے سامنے وہ گھڑی بحال کر دی ہو جس میں میں نے بچپن میں کئی سال پہلے اس کے لیے بددعا کی تھی اور مجھے وہ بددعا یاد آ گئی۔ ، اور میں روتی رہی اور روتی رہی یہاں تک کہ میں دوبارہ ہوش کھو بیٹھی
جب
ہسپتال میں مجھے افاقہ ہوا، تو میں نے اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لیے کہا
میں نے اسے دیکھا، اور کاش میں نے اسے اس حالت میں نہ دیکھا ہوتا
ان لمحوں میں دل کی دھڑکن رک گئی اور میرے بیٹے نے آخری سانس لی
میں نے روتے ہوئے کہا
کاش وہ دوبارہ زندہ ہو جائے، گھر کے تمام فن پاروں کو توڑ دے
بس میں اسے نہ کھووں
کاش میں گونگی ہوجاتی اور اس کو بددعانہ دیتی
کاش کاش کاش، لیکن کاش لفظ کا وقت پورا ہوچکا تھا
ایک شخص عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کے پاس اپنے بیٹے کی نافرمانی کی شکایت کرنے آیا
ابن مبارک نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اس کے لیے بددعا کی
اس نے کہا ہاں
اس نے
کہا: جاؤ، تم نےہی اسے خراب کر دیاہے
ہر ماں اور باپ کے لیے میرا پیغام
اپنے بچوں کوغصے میں بددعاکرنے میں جلدی نہ کریں
شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگیں
اپنی زبانوں سے وعدہ کریں کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کامیابی اور رہنمائی کے لیے دعا کریں ان کو بددعا نہ دیں
اور جان لیں کہ
اپنے بچوں کے لیے بددعا کرنے سے ان میں فساد ضد اور نافرمانی ہی بڑھ جاتی ہے
اس نافرمانی کی شکایت کرنے والے سب سے پہلے آپ ہیں جنہوں نے ان کے لیے بددعا کرنے میں جلدی کی
اپنے بچوں کو بددعا نہ دیں بلکہ اللہ سے ان کی اصلاح اور رہنمائی کے لیے دعا کریں
اور جب بھی آپ اپنے بچوں کو خوش
ہوتے اور کھیلتے ہوئے پائیں تو ان کے لیے یہ دعا مانگیں
اے اللہ میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ انہیں جنت میں خوش رکھ، جیسا کہ تو نے انہیں دنیا میں خوش رکھا
اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے
آمین یارب العالمین #قلمبیت #قاسم_ملک
پاکستان اور اسرائیل کی حقیقت
پاکستان اور اسرائیل دو ایسی ریاستیں ہیں جو ایک ہی نظریے پر بنی ہیں
پاکستان اسلام کے نظریے پہ جبکہ اسرائیل یہودیت اور سہونیت کے نظریے پہ یہ دونوں نظریات ایک دوسرے کے الجھ ہیں
اور انکا ٹکراؤ ہمیشہ ہر دور میں رہا ہے
قیام پاکستان کے اوائل میں ہی اس بات 👇
کا اعلان کردیا گیا تھا کہ پاکستان اسرائیل جیسی مملکت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا
یہ بات کسی اور نے نہیں بلکہ خود
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے کی تھی
اول دن سے ہی اسرائیل پاکستان سے خائف تھا
اور پاکستان کا وجود اس کے لئے باعث تسلیم نہیں تھا
پاکستان کے پہلے وزیراعظم 👇
لیاقت علی خان کو اور بڑی رقم بطور امداد دینے کا لالچ دیا گیا تھا جو کہ اس وقت اربوں کی مالیت تھی اور یہ شرط رکھی گئی تھی کہ وہ ایک بار اپنے منہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے الفاظ بیان کردیں
لیکن اس وقت لیاقت علی نے یہ بات بڑی سختی سے واضع کی تھی کہ ایسا ہونا کبھی بھی ممکن نہیں ہے👇
بھولنا بیماری نہیں اچھی ذہانت کی علامت
نئی تحقیق کا انکشاف
ہمارا دماغ ہزاروں لاکھوں خلیوں پر مشتمل ہے جس میں ان گنت واقعات کی یادوں کا خزانہ موجود ہے
کبھی انسان ان یادوں میں سے کچھ کو بھول بھی جاتا ہے جو پریشان کن نہیں
ہماری ایک نسل پرائمری کی اردو کتاب میں شان الحق حقی کی ایک 👇
دلچسپ نظم "بھائی بھلکڑ " پڑھ کر بڑی ہوئی ہے
ہمارے معاشرے میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کئی باتیں بھول جاتے ہیں
جنہیں لوگ مذاقا بھائی بھلکڑ یا کمزور دماغ پکارتے ہیں
لیکن نئی تحقیق نے اس بات کی نفی کردی ہے کہ بھولنا کوئی بیماری ہے
آئرلینڈ میں ہونے والی اس نئی تحقیق سے یہ 👇
دعوہ سامنے آیا ہے کہ بھولنا کوئی بیماری نہیں بلکہ یہ ممکنہ طور پر سیکھنے کی ایک قسم ہو سکتی ہے
ٹرینیٹی کالج میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مخصوص یادوں تک رسائی کے حوالے سے ہماری صلاحیت میں ماحولیاتی تبدیلیاں موحولیاتی فیڈ بیک اور قابل پیشگوئی جیسے عناصر کے باعث آتی ہے👇
جب حضرتِ ابوذرؓ نے بلالؓ کو کہا
"اے کالی کلوٹی ماں کے بیٹے اب تو بھی میری غلطیاں نکالے گا
بلال یہ سن کر غصے اور افسوس سے بے قرار ہو کر یہ کہتے ہوے اٹھے خدا کی قسم میں اسے ضرور بالضرور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اٹھاؤں گا
یہ سن👇
کر اللہ کے رسول کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ نے ارشاد فرمایا
ابوذر! کیا تم نے اسے ماں کی عار دلائی
تمھارے اندر کی جہالت اب تک نہ گئی
اتنا سننا تھا کہ ابوذر یہ کہتے ہوے رونے لگے: یا رسول اللہ! میرے لیے دعائے مغفرت کر دیجئے، اور پھر روتے ہوے مسجد سے نکلے
باہر آکر اپنا رخسار مٹی👇
پر رکھ دیا اور بلال سے مخاطب ہو کر کہنے لگے
"بلال! جب تک تم میرے رخسار کو اپنے پاؤں سے نہ روند دو گے میں اسے مٹی سے نہ اٹھاؤں گا یقیناً تم معزز و محترم ہو اور میں ذلیل و خوار
یہ دیکھ کر بلال روتے ہوے آئے اور ابوذر سے قریب ہو کر ان کے رخسار کو چوم لیا اور بے ساختہ گویا ہوے
خدائے👇