#Kashmiri refugees in Azad Kashmir have been pushed to the ghettos since 1990, when they were forced to leave their homes and hearths in Indian-Occupied Kashmir. Now their third generation is being born in these slums, and this is where they grow up.
For them there is no chance of living a decent life, getting a good education or finding a proper job to help them live like a respectable human being. For all practical purposes, they have become the so-called ‘untouchables’ of Azad Kashmir.
You must have heard many politicians repeat the mantra that they support the Kashmir cause. After all these decades, the word ‘cause’ seems to have come to mean ‘ghettos
پہلے ایک ان دیکھی سرحد کشمیر کو تقسیم کرتی تھی۔ اب کشمیر ذہینی طور پر تقسیم ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو بظاہر خود مختار کشمیر کے حامی ہیں وہ بھی مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے کسی شخض کی راۓ کو مداخلت سمجھتے ہیں۔ بظاہر الحاق پاکستان کا نعرہ لگانے والے بھی مختلف نہیں ہیں۔
یہی صورت حال ان لوگوں کی ہے جو جوں کی توں کی صورت حال کے حامی ہیں۔ یہ سب میں ایک بات پر متفق ہیں وہ یہ کہ وادی کے لوگ مرتے رہنے چاہیے۔ حق خود اراسیت صرف وادی کا مسلہ نہیں یہ سب کا مسلہ ہے۔ وادی کے لوگ اب مزید سب کے حق خود ارادیت کے لیے نہیں مر سکتے ہیں۔
جن جن کو حق خود ارادیت چاہیے وہ لڑیں اور حق خودارادیت حآصل کریں۔ آزاد کشمیر میں تمام مکتبہ فکر کے لوگ اس بات پر بھی متفق کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کے بقول ان کو کچھ کرنے کا حق نہیں ہے۔
AJK's pro-status quo politicians raise the slogan of Kashmir banega Pakistan (Kashmir will accede to Pakistan).
But when they are asked to bring a resolution in the AJK Assembly to declare it a part of Pakistan, they desist, saying that unless the part of Kashmir under Indian occupation is liberated, this cannot be done.
In the meantime, India has gone ahead and laid down all measures to annex its occupied part of Kashmir.
آزاد کشمیر کی مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے کشمیر کو انڈیا سے آزاد کرانے کا انوکھہ طریقہ دریافت کیا۔ یہ ٹویٹر یا ٹویٹر سپیس پر کشمیری خواتین کو گالیاں دیتے ہیں اور پھر ان گالیوں کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال بھی کرتے ہیں۔
ہر جماعت آن لائن گالیاں دینے والے اپنے brigade پر خاموش رہتا ہے اور دوسرے کی گالیوں کو اچھالتا ہے۔ ان کی گالیوں سے ابھی تک شاہد ہی کشمیری خاتون محفوظ رہی ہوگی۔
لیکن کشمیری خواتین جو ٹویٹر پر ہیں selective outrage
کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وہ اپنے جماعت کے گالیوں پر مامود آن لائن brigade کی گالیوں پر خاموش رہتا ہے اور دوسروں کی گالیوں پر بات کرتے ہیں۔
Hypocrisy in Azad Kashmir
It is often quite shocking to see that some people here exhibit absolutely no concern about threats to the lives of the people of the valley who perpetually live under the shadow of the gun.
Instead, they are more concerned about whether those people celebrated Pakistani cricket win despite threats, or whether did they wrap the body of martyred Kashmiri in Pakistani flag. This is the limit of callousness.
Why don’t they include Azad Kashmir into Pakistan? Who is stopping them? Why do they want to turn the Kashmir valley’s women and children into cannon fodder by creating a selfish assumption that those women and children should first liberate Kashmir from India
Thread
Kashmir was struck into silence at 10 O’Clock on the night of August 4, 2019. It was deathly quiet all across. The only sound on the streets and roads outside homes was that of the boots of Indian soldiers.
The whole of Kashmir had descended into a siege by the Indian army. 700,000 Fauji jawans had already been posted there; now another 200,000 were called in. Together they imprisoned the entire 900,000 population of the valley in their homes.
A child born an hour ago and a 100-year-old were all consigned to the same fate. Outside their homes were hovering armed soldiers, ready to shoot anyone who tried to step out.
یہ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ ڈیڑھ ارب کی آبادی والے ملک کی دس لاکھ فوج ایک چھوٹی سی وادی کے آیک چھوٹی سی آبادی یعنی صرف اسی لاکھ لوگوں پر حملہ آور ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر طرف ان ہی خلاف ایک نفرت کی مہم بھی چل رہی ہے۔ یہ نفرت کی مہم انڈیا کے چپے چپے میں چل رہی۔
یہی نہیں ہورہا بلکہ ڈیژھ ارب والے ملک کا سارا میڈیا اور 700سے زیادہ ویبسائٹس کے ذریعے اس چھوٹی سی آبادی کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔ پوری دبیا میں آنڈینز سوشل میڈیا کا استعمال کرکے ان کے خلاف مہم چلارہے۔ انڈیا کے سفارتکار اور سیاست دان بھی ان کے خلاف پوری دنیا میں کام کررہے۔
اس چھوٹی سی وادی کی 80 لاکھ آبادی میں 40 لاکھ عورتیں اور 40 لاکھ مرد ہیں۔ ان مردوں میں نصف سے زیادہ بچے اور بزرگ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 20 لاکھ نوجوان ڈیڑھ ارب والی آبادی کے ملک کی 10 لاکھ فوج کے خلاف لڑیں اور کشمیر کو اازاد کرائیں۔ کیا یہ ممکن ہے؟