sohail ahmad Profile picture
Sep 22 23 tweets 6 min read
#Transgender's #letter posted by
Leena Hashir

ماں جی

میری عمر نو دس برس کی تھی جب ابا نے مجھے زمین پر گھسیٹتے ہوئے گهر سے بے گهرکر دیا تھا۔ میں چیخ چیخ کر تمہیں پکارتا رہا مگر تم بےحس وحرکت سہمی ہوئی مجھے تکتی رہیں۔ واحد روانی تمہارے آنسوؤں کی تھی جو ابا کے غیض و غضب (1/23)
کے آگے بھی تهمنے کو تیار نہ تھے۔ تمہارا ہر آنسو اس بات کا ثبوت تها کہ تم ابا کے اس فعل سے بہت نالاں تھی مگر ابا کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور بهی۔

محلے والوں کے طعنے، رشتے داروں کے طنز اور لوگوں کی چبهتی ہوئی نگاہوں سے جب ابا بے قابو ہو جاتے تو پهر اپنی کالے (2/23)
چمڑے کی چپل سے میری چمڑی ادھیڑتے۔ اپنے جسم پر چپل سے بنائے گئے نقش لیے میں اس کال کوٹھڑی کی جانب بھاگتا جو پورے گهر میں میری واحد پناہ گاہ بن گئی تھی۔ پٹائی کا دن جب رات میں ڈھلتا تو تم ابا سے چھپ کر دبے پاؤں آتیں۔ مجھے سینے سے لگاتی، اپنے دوپٹے سے میرے زخموں کی ٹکور (3/23)
کرتی۔ میرا سر اپنی گود میں لیے گھنٹوں میرے پاس بیٹھی رہتی۔ مجھے چپ کراتے کراتے تمہاری اپنی سسکیاں بندھ جاتیں۔ آہوں اور سسکیوں کی گونج کے علاوہ اس کال کوٹھڑی میں کچھ سنائی نہ دیتا۔ ہم دونوں آنسوؤں کی زبان میبیٹا

ت کرتے۔ میرے آنسوؤں میں ان گنت سوال ہوتے۔ کہ آخر کیوں ابا (4/23)
کی نفرت کی خاص عنایت مجھ پر ہی ہے؟ آخر کیوں گھر میں مہمانوں کے آتے ہی اسٹور کے تنگ وتاریک کمرے میں گهر کے ہر فالتو سامان کے ساتھ مجھے بند کردیا جاتا ہے اور جب تک اللہ کی رحمت ہمارے گھر سے چلی نہیں جاتی مجھے رہائی کا پروانہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ یہ رحمت ہر بار میرے لیے (5/23)
زحمت کیوں بن جاتی ہے؟ مگر اماں میرے ہر سوال کے جواب میں تم خاموشی سے میرے اوپر محبت بهری نگاه ڈالتی اور کچھ نہ بولتیں۔ بس کبھی تم میرے ماتهے کا بوسہ لیتی اور کبھی میرے ہاتھوں کو چوم کر اس بات کی گواہی دیتی کہ میں تو اپنے راجہ بیٹے سے بہت پیار کرتی ہوں۔ ایک سوال کرتے (6/23)
کرتے میں تهک جاتا اور نیند کی آغوش میں چلا جاتا کہ آخر میرے سے ایسی کیا خطا ہوئی جو میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح ابا کے پیار کا حقدار نہیں۔

ہاں تمہاری گود میں سو جانے سے پہلے میں یہ دعا بھی کرتا کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو مگر صبح ہوتی اور تم پھر اس عورت کا لباده (7/23)
اوڑھ لیتی جو ابا اور معاشرے کے خوف سے مجھے پیار کرتے ڈرتی تھی۔

جس دن ابا نے مجهے گهر سے نکالا اس دن میرا قصور بس اتنا تھا کہ میں نے تمہاری سنگھار میز پر رکھی ہوئی لالی سے اپنے ہونٹ رنگ لیے تھے، تمہارا سرخ دوپٹہ سر پر رکھے، تمہارے ہاتھوں کے کنگن اپنی کلائی میں ڈالے (8/23)
تمہاری ٹک ٹک کرنے والی جوتی پہن کرخوش ہو رہا تھا، بس یہ دیکھنے کی دیر تھی کہ ابا نے مجھ پر پهر جوتوں کی برسات شروع کر دی۔ میں معافی کا طلب گار رہا مگر میری شنوائی نہ ہوئی اور پهرگالی گلوچ کرتے ہوئے زمین پر گھسیٹتے ہوئے زنخا زنخا کہتے ہوئے مجھے ہمیشہ کے لیے سب گهر والوں (9/23)
سے دور کر دیا۔

میرے لیے آبا کے آخری الفاظ یہ تھے کہ آج سے تو ہمارے لیے مر گیا۔ یہ جملہ سنتے ہی میری ہاتھوں کی گرفت جس نے ابا کے پیروں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا کمزور پڑ گی۔ میری گڑگڑاتی ہوئی زبان خاموش ہوگی، میرے آنسو تهم گئے کیونکہ میں جانتا تھا کہ ابا اپنی کہی ہوئی (10/23)
بات سے کبھی نہیں پھرتے۔ اور تم ماں، ابا کے کسی بھی فیصلے کے خلاف جانے کی ہمت نہیں رکھتی

اس کے بعد ابا مجھے ہمیشہ کے لیے یہاں چهوڑ گے جہاں ایک گرو رہتا تھا۔ امجد کی جگہ میرا نام علیشاہ رکھ دیا گیا۔ مجھے ناچ گانےکی تربیت دی جاتی۔ مجھ پر نظر رکھی جاتی لیکن میں جب کبھی (11/23)
موقع ملتا تمہاری محبت میں گرفتار اپنے گهر کی طرف دیوانہ وار بھاگتا مگر ابا کا آخری جملہ مجھے دہلیز پار کرنے سے روک دیتا۔ دروازے کی اوٹ سے جب تمہیں گرما گرم روٹی اتارتے دیکھتا تو میری بھوک بھی چمک جاتی اور پهر تم اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر میرے بہن بھائیوں کے منہ (12/23)
میں ڈالتی تو ہر نوالے پر میرا بھی منہ کھلتا مگر وہ نوالے کی حسرت میں کھلا ہی رہتا۔ اس حسرت کو پورا کرنے کے لیے میں اکثر گهر کے باہر رکھی ہوئی سوکهی روٹی کو اپنے آنسوؤں میں بهگو بهگو کر کھاتا۔

بعد کی عیدیں تو تنہا ہی تھیں پر جب گھر بدر نہ ہوا تھا تب بھی عید پر جب ابا ہر (13/23)
ایک کے ہاتھ پر عیدی رکهتے تو میرا ہاتھ پھیلا ہی ره جاتا۔ جب ہر بچے کی جھولی پیار اور محبت سے بهر دی جاتی تو میری جھولی خالی ہی ره جاتی۔ جب ابا اپنا دست شفقت سب کے سروں پر پھیرتے تو میرا سر جهکا ہی رہتا۔

صحن میں کھڑی ابا کی سائیکل جس کو اکثر میں محلے سے گزرتے دیکھتا تو (14/23)
ہر بار دل میں یہ خواہش ہوتی کہ کاش ابا سائیکل روک کر مجھے ایک بار، صرف ایک بار سینے سے لگا لیں مگر میری یہ خواہش، خواہش ہی ره گی۔ گھر چھوڑنے کے عذاب کے بعد میرے اوپر ایک اور عذاب نازل ہوا جس کے کرب نے میری روح تک کو زخمی کر دیا۔ چند ‘شرفا’ گرو کے پاس آئے اور مجھے اپنے (15/23)
ساتھ لے گئے۔ مجھے زبردستی بے لباس کیا اور اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔ ماں، میں اتنا چھوٹا اور کمزور تھا کہ میں تکلیف کی وجہ سے اپنے ہوش ہی کهو بیٹھا تھا۔ پهر اس ہی بے ہوشی کے عالم میں مجھے گرو کے حوالے کر دیا گیا۔ پهر یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ میں روز ہی اپنی ہی نظروں (16/23)
میں گرتا رہا مرتا رہا۔ کرتا بھی کیا کہ اب میرے پاس کوئی اور دوسری پناہ گاه نہ تهی۔

پهر اسی کام کو میرے گرو نے میرے پیشے کا نام دے دیا۔ میں گرو کے پاس سے کئی بار بھاگا، در در نوکری کی تلاش میں پهرتا رہا مگر مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ ہر بار گرو کے در پر ہی پناہ (17/23)
ملی۔

ہمارا وجود معاشرے میں گالی سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں تو کسی کو بددعا بھی دینی ہو تو ہم کہتے ہیں کہ جا تیرے گهر بھی مجھ جیسا پیدا ہو۔ حالانکہ ہماری رگوں میں بهی سرخ رنگ کا خون دوڑتا ہے۔ ہمیں بنانے والا بھی تو وہی ہے جس نے ان کو پیدا کیا۔ ان کے سینے میں بھی دل ہماری طرح (18/23)
ہی دھڑکتا ہے۔ تو پهر ہمیں کس بات کی سزا دی جاتی ہے ؟ہمارا جرم کیا ہوتا ہے؟ شاید ہمارا جرم یہ ہوتا ہے کہ ہمارا خون سرخ ہے اور معاشرے کا سفید۔

ماں میں ساری زندگی جینے کی چاه میں مرتا چلا گیا۔ سفید خون رکھنے والے لوگ کبھی مذہب کی آڑ لے کر تو کبھی جسم فروشی سے انکار پر (19/23)
ہمارے جسموں میں گولیاں اتار دیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، مجھے بھی گولیاں ماری گئیں۔ جب مجھے ہوش آیا تو ڈاکٹر مجھے امید کی کرن دکهانے کی کوشش میں آہستہ آہستہ میرے کان میں سرگوشی کر رہا تھا کہ اگر تم ہمت کرو تو زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہو۔ میں نے بہت مشکل سے اپنے (20/23)
ہونٹوں کو جنبش دی اور ڈاکٹر سے کہا کہ اگر میں ہمت کر کے لوٹ بھی آیا تو کیا مجھے جینے دیا جائے گا؟ جب ملک الموت میرے پاس آیا تو میں نے اس سے جینے کے لیے چند لمحوں کی درخواست کی۔ نجانے کیوں اس بار مجھے امید تھی کہ تم دوڑی چلی آؤ گی، میرا بچہ کہتے ہوئے مجھے اپنے سینے سے (21/23)
لگاو گی۔ میرے سر کو اپنی گود میں رکھ کر میرے زخموں کی ٹکور کر کے مجھے اس دنیا سےرخصت کرو گی۔ لیکن موت کے فرشتے نے چند لمحوں کی مہلت بھی نہ دی۔

سنا ہے قیامت کے روز بچوں کو ماں کےحوالے سے پکارا جائے گا۔ بس ماں تم سے اتنی سی التجا ہے کہ اس دن تم مجھ سے منہ نہ (22/23)
پهیرنا۔

تمہاری محبت کا طلبگار

تمہارا بیٹا (23/23)

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with sohail ahmad

sohail ahmad Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @oolabmys

Sep 23
اہتمام
امیر لشکر تک ایک مجاہد کی زوجہ کے حسن کے افسانے پہنچے تو کشمیر آزاد کروانے کی قرعہ اندازی میں اس کا نام نکل آیا. کہا گیا کہ اس نے ابهی عمومی تربیت بهی مکمل نہیں کی. جواب آیا اس کے لیے خصوصی اجازت ہے. کہا گیا وہ رخصت لینے گهر جانا چاہتا ہے. پیغام آیا کہ کشمیر کو (1/4)
غلام ہوئے 70 سال گزر چکے اب اور انتظار نہیں ہوتا، مجاہدین کو ساتھ بهیجو، ہاتھ کے ہاتھ اسے اور رخصت دونوں کو لے کر آئیں. رخصت کو زنانہ حصے میں بهجوا کر مجاہد کو شہادت کی بشارت دی گئئ. وہ مرید کے سے نکلا ہی ہو گا کہ حکم ہوا خبر بهجوا دو. کسی نے کہا ابهی تو وہ لائن آف (2/4)
کنٹرول پر بهی نہیں پہنچا ہو گا. کہا گیا حافظ صاحب کب کے پہنچ چکے. مجاہد سرینگر میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہوا کامونکی کے پاس شہید ہو گیا. پوچها گیا حضرت جنازہ پڑها نے اور جماعت کی طرف سے افسوس کرنے کی ذمہ داری کون ادا کرے گا. کہنے لگے جنازہ کوئی بهی پڑها دو بیوہ سے (3/4)
Read 4 tweets
Sep 23
جوش ملیح آبادی کی کتاب "یادوں کی برات"سے اقتباس
"ایک بار، جب، پاکستان سے رخصت لے کر، میں دہلی میں پنڈت جواہر لال نہرو سے ملا، تو انہوں نے بڑے طنز کے ساتھ، مجھ سے کہا تھا کہ جوش صاحب، پاکستان کو اسلام، اسلامی کلچر، اور اسلامی زبان، یعنی اردو کے تحفظ کے واسطے بنایا گیا (1/6)
تھا۔ لیکن ابھی کچھ دن ہوئے کہ میں پاکستان گیا اور وہاں، یہ دیکھا کہ میں تو شیروانی اور پاجامہ پہنے ہوئے ہوں لیکن وہاں کی گورنمنٹ کے تمام افسر، سو فیصد، انگریزوں کا لباس پہنے ہوئے ہیں۔ مجھ سے انگریزی بولی جا رہی ہے، اور، انتہا یہ ہے کہ مجھے انگریزی میں ایڈریس بھی دیا جا (2/6)
رہا ہے۔ مجھے اس صورتِ حال سے بے حد صدمہ ہوا، اور میں سمجھ گیا کہ "اردو، اردو، اردو" کے جو نعرے، ہندوستان میں لگائے گئے تھے، وہ سارے اوپری دل سے، اور کھوکھلے تھے۔ اور خطاب کے بعد، جب میں کھڑا ہوا تو میں نے اس کا اردو میں جواب دے کر، سب کو حیران و پشیمان کر دیا اور یہ بات (3/6)
Read 6 tweets
Sep 23
How Gullible Are You?
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
The man who is admired for the ingenuity of his larceny is almost always rediscovering some earlier form of fraud.

—John Kenneth Galbraith Jason Statham has appeared in over 40 major motion pictures, which have (1/13)
grossed upwards of $1 billion in ticket sales. The British actor has a penchant for action movies, appearing in a handful of the Fast & Furious movies, The Expendables franchise, and a plethora of other films with extended fight scenes, car chases, and stuff getting (2/13)
blown up. I’m partial to his early work in his roles as Turkish in Snatch and Bacon in Lock, Stock and Two Smoking Barrels, both Guy Ritchie movies, but movie fans obviously enjoy his work.

While Statham is known as an action movie star, he is most certainly not known (3/13)
Read 13 tweets
Sep 23
Fascist politics seeks to undermine public discourse by attacking and devaluing education, expertise, and language. Intelligent debate is impossible without an education with access to different perspectives, a respect for expertise when one’s own knowledge gives out, (1/4) Image
and a rich enough language to precisely describe reality. When education, expertise, and linguistic distinctions are undermined, there remains only power and tribal identity.
This does not mean that there is no role for universities in fascist politics. In fascist (2/4)
ideology, there is only one legitimate viewpoint, that of the dominant nation. Schools introduce students to the dominant culture and its mythic past. Education therefore either poses a grave threat to fascism or becomes a pillar of support for the mythical nation. It’s (3/4)
Read 4 tweets
Sep 22
Mustafa Khar was the kind of man who could choose his place at the dinner table, and he chose to sit directly across from me. We made small talk across the salt-cellars. He asked about my parents again - how they were, where they were, what they were doing. His words (1/5) Image
did not hold me, but his eyes had me riveted.
They grew lustrous; they glittered and blinked rather frequently; they peered across the table at me hypnotically. Their message was far from subtle. Perhaps I should have been frightened; instead I was drawn like a moth to (2/5)
a flame.
After dinner, we adjourned to a sitting-room for cognac and liqueurs. The men smoked and so did some of the women. Mustafa was clearly the chief of this group, and all the rest of us were merely rank and file. As he drained the last of his Napoleon brandy, (3/5)
Read 5 tweets
Sep 22
The irony is that although we know a lot about waging war, we are not smart at making peace. It is easy to award Nobel Peace Prizes, but many winners are embarrassed when their efforts do not withstand the test of time. Prominent examples are former US Secretary of (1/8) Image
State Henry Kissinger and Ethiopian President Abiy Ahmed.

That is why, all peace is provisional and once a society has tasted violence, it is perpetually prone to it, especially when Hollywood, Bollywood, and Netflix myth-makers get into shaping the remembrance of (2/8)
history.

We should not be surprised, therefore, that endless armed conflicts have accumulated over the decades: some 170 of different types are now raging across the world. The numbers who died directly in combat increased approximately three-fold to 120,000 last year (3/8)
Read 8 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Don't want to be a Premium member but still want to support us?

Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(