پہلی تصویر کو غور سے دیکھیں،
یہ مصر کی ملکہ 'ٹیا' کی کمپیوٹر سے بنائی گئی تصویر ہے کہ وہ حقیقت میں کیسی لگتی تھی۔ خوبصورت ملکہ ٹیا وہ پہلی طاقتور مصری فرعونہ تھی جسے بادشاہوں کی وادی میں دفن کیا گیا۔ یہی وہ پہلی فرعونہ بھی تھی جس کے دستخط شاہی سرکاری خطوط میں درج ملتے ہیں
👇
ملکہ ٹیا 'اخیناتن' بادشاہ کی والدہ اور مشہور بادشاہ 'طوطن خامن' کی دادی تھی۔اس نے سب سے ذیادہ پیچیدہ سرنگوں والا احرام بھی بنوایا۔ اسی فرعونہ نے مصر کی تاریخ میں پہلی بار بابل کے بادشاہوں سے براہ راست ملاقاتیں کیں۔ اس نے خود کے لیے محل میں مخصوص 'ٹائیٹلز' اختیار کر رکھے تھے
👇
مثلاً،
"مصر کی دیوی، ملکہ ٹیا، آمون کی ساتھی، شاہی خواتین میں سب سے عظیم، دیوتا را کی طاقت، ہمیشہ خوبصورت رہنے والی، ہورس کی مقدس دیوی، را کے مندر کی عظیم پجارن"
پھر اس دیوی کے ساتھ کیا ہوا، ذرا اس کی دوسری تصویر دیکھیں۔ اپنے دور کی زمینی خدا، اپنے تمام حسن، اپنی تمام فرعونیت،
👇
اپنے بڑے بڑے خطابات اور ہزاروں غلاموں کی ملکیت، اپنے دور کی رعونیت، اپنے تمام تر جلوؤں کو صدیوں پیچھے چھوڑ کر آج قاہرہ کے عجائب گھر میں پتھر کی طرح بے جان پڑی ہے۔
جسے ہر آنے جانے والا کراہت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جن چند سالوں کی لذت کے لیے ہم دنیا کے ہر جرم ہر گناہ کا ارتکاب
👇
کر لیتے ہیں، دل سے خدا کا خوف نکال دیتے ہیں، حق اور سچ کو حقیر اور اپنی انا کو خدا مان لیتے ہیں، وہ سب کچھ ایک دن ملکہ ٹیا کی طرح کہیں بے جان پتھر بنا پڑا ہوتا ہے۔
👇
المیہ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس حقیقت کے ادراک کے باوجود ہر صاحب اختیار اکثریتی طور پر یہی رویہ اختیار کرتا ہے اور خود کو خدا سمجھتا ہے۔
"بے شک دنیا فانی ہے"
اٹھائیس سالہ ایم فِل سوشیالوجی کی طالبہ نازیہ* نے نہاتے ہوئے محسوس کیا کہ چھاتی میں ایک اُبھار سا بنا ہوا ہے۔ ہاتھ لگانے پر کچھ گُھٹلی جیسا احساس ہوتا تھا۔ لیکن کوئی خاص درد تکلیف وغیرہ نہ تھی۔ اس نے سوچا والدہ سے ڈسکس کر لے گی۔ چند ہفتے یونہی بےدھیانی میں یاد نہ رہا۔
👇
ایک دن دوبارہ نہاتے ہوئے اس طرف دھیان گیا تو ماں سے اس بارے مشورہ کر ہی لیا۔ ماں نے کہا کوئی درد یا تکلیف ہے تو دکھا لیتے ہیں ڈاکٹر کو، ساتھ مشورہ دیا کہ زیادہ مسئلہ نہیں لگ رہا تو پیاز باندھ لو اور ساتھ وظیفہ پڑھ لو یہ آپ ہی “گُھل” جائے گی۔ چند ہفتے وظیفہ پڑھا، اور پیاز بھی
👇
باندھا اور ساتھ ساتھ زیتون کے تیل سے ہلکے ہاتھ مالش بھی کی۔ گویا نازیہ نے نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو یقین دلا دیا کہ ٹوٹکوں سے ابھار کا سائز کچھ کم ہو گیا ہے۔ وہ مطمئن ہو گئی۔ ابھار اپنی جگہ موجود رہا۔ خاموش۔ کسی تکلیف یا درد کے بغیر۔ جیسے طوفان سے پہلے سمندر ہوتا ہے۔
شہریار خان کے مضمون سوہنی، ہیر اور لیلیٰ کی جھوٹی محبت
سے سوہنی مہینوال کی محبت کا پوسٹ مارٹم
معلوم نہیں کیوں لیکن یہ پیار، عشق اور محبت کی کہانیاں بہت مشہور ہو جاتی ہیں اور لوگ ان کو مزے لے لے کر سنتے بھی ہیں اور سناتے بھی
اگر ان سب قصوں کو بغور پڑھیں تو پتا چلے گا کہ یہ
👇
سب جھوٹ ہے
مثلاً اگر سوہنی مہینوال کی محبت کی کہانی دیکھئے تو پتا چلتا ہے کہ جس نے بھی یہ کہانی گھڑی ہے انتہائی سستی فلمیں دیکھتا رہا ہو گا
یہ کوئی بات ہے کہ سوہنی ملنے کے لیے آئے تو اسے اپنی ران کے گوشت کا کباب بنا کر کھلایا
کچھ لوگوں کو یہ مذاق لگے گا لیکن کہانی میں یہی
👇
لکھا ہے کہ سوہنی اپنے محبوب سے ملنے کے لیے اس کے گھر آئی، اور مہینوال کے حالات جانتے ہوئے بھی اس سے کبابوں کی فرمائش کی چونکہ اس کے پاس کچھ کھلانے کو نہیں تھا تو اس نے یہ بات چھپانے کے لیے اپنی ہی ران کا گوشت کاٹا اور اس کے کباب بنا دیئے اور سوہنی نے بھی بہت چسکے لے کر وہ
👇
اس کہانی کا مریم،ن لیگ، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں
ایک نکٹھو کو بیوی نے کام کاج کے لیے کہا سست الوجود کے پاس اور تو کچھ نہ تھا،ایک مرغی تھی اٹھائی اور بازار کو چل دیا کہ بیچ کے کاروبار کا آغاز کرے
راستےمیں مرغی ہاتھ سے نکل بھاگی اور ایک گھر میں گھس گئی وہ مرغی کے
👇
پیچھے گھر کے اندر گھس گیا
مرغی کو پکڑ کے سیدھا ہوا ہی تھا کہ خوش رو خاتون خانہ پر نظر پڑی، ابھی نظر "چار ہوئی تھی کہ باہر سے آہٹ سنائی دی، خاتون گھبرائی اور بولی کہ اس کا خاوند آ گیا ہے اور بہت شکی مزاج ہے ، اور ظالم بھی
خاتون نے جلدی سے اسے ایک الماری میں گھسا دیا
لیکن وہاں
👇
ایک صاحب پہلے سے "تشریف فرماء " تھے -
اب اندر دبکے نکٹھو کو کاروبار سوجھا ..آئیڈیا تو کسی جگہ بھی آ سکتا ہے - سو اس نے دوسرے صاحب کو کہا کہ :
"مرغی خریدو گے ؟"
اس نے بھنا کے کہا کہ یہ کوئی جگہ ہے اس کام کی ؟
"خریدتے ہو یا شور کروں ؟؟؟"
مجبور ہو کے اس نے کہا کہ
" بولو کتنے کی ؟
👇
آج ہمارا ایمان بالغیب انٹرنیٹ اور موبائیل کے ذریعے آزمایا گیا ہے، جہاں ایک کلک آپ کو وہ کچھ دکھا سکتی ھے جو ہمارے باپ دادا 10، 10 بچے پیدا کرانے کے باوجود دیکھے بغیر اللہ کو پیارے ہو گئے
ہم نے خفیہ گروپ بنا کر اپنے اپنے گٹر کھول رکھے ھیں
یستخفون من الناس
👇
لوگوں سے تو چھپا لیتے ھیں
ولا یستخفون من اللہ و ھو معھم
مگر اللہ سے نہیں چھپا سکتے کیونکہ وہ ان کے ساتھ ھے ،
ہمارا لکھا اور دیکھا ہوا سب ہمارے نامہ اعمال میں محفوظ ہو رہا ھے جہاں سے صرف اسے سچی توبہ ہی مٹا سکتی ہے
یہ سب امتحان اس لئے ہیں تاکہ
لیعلم اللہ من یخافه بالغیب
👇
اللہ تعالی جاننا چاہتا ہے کہ کون کون اللہ تعالی سے غائبانہ ڈرتا ہے۔
یہ لکھنے والے ہاتھ اور پڑھنے والی آنکھیں ، سب ایک دن بول بول کر گواہی دیں گے
الْيَوْم نَخْتِم عَلَى أَفْوَاههمْ وَتُكَلِّمنَا أَيْدِيهمْ وَتَشْهَد أَرْجُلهمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
(یسن – 65)
👇
یہ سولہویں صدی کی ایک پینٹنگ ہے جس میں 500 قبل مسیح میں ایک بدعنوان جج کے زندہ ہوتے ہوئے اس کی کھال اتاری جا رہی ہے۔
اس جج کا نام سیسمنس تھا۔ فارس میں بادشاہ کمبیسیس کے وقت ایک بدعنوان شاہی جج تھا۔ معلوم ہوا کہ اس نے عدالت میں رشوت لی اور غیر منصفانہ فیصلہ دیا
👇
اس کے نتیجے میں بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے اس کی بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا جائے اور اسکی زندہ کھال اتارنے کا حکم دیا۔
فیصلہ سنانے سے پہلے بادشاہ نے سیسمنیس سے پوچھا کہ وہ کسے اپنا جانشین نامزد کرنا چاہتا ہے۔ سیسمنس نے اس کے لالچ میں، اپنے بیٹے، Otanes کو منتخب کیا
👇
بادشاہ نے رضامندی ظاہر کی اور جج سیسمنس کی جگہ اس کے بیٹےاوتانیس کو مقرر کیا۔
اس کے بعد اس نے فیصلہ سنایا اور حکم دیا کہ جج سیسمنس کی کھال(جلد) ہٹائی جائے۔
اور اس کی جلد (کھال)کو جج کے بیٹھنے والی کرسی پہ چڑھا دیا گیا۔ جس پر نیا جج عدالت میں بیٹھ کر اسے بدعنوانی کے ممکنہ
👇
خبروں میں چلتے پھرتے سنتے تھے کہ فلاں تہوار "جوش و جذبے" اور فلاں "عقیدت و احترام" سے منایا گیا ۔ کبھی ان الفاظ کی گہرائی پر غور نہیں کیا تھا لیکن ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوتے ہی جب رنگ برنگے جلوس ، زرق برق لباس ، ڈھول پر دھمال اور انڈین گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھنے والوں کی
👇
ویڈیوز دیکھتی ہوں تو جوش و جذبہ تو نظر آتا ہے " عقیدت و احترام " نہیں۔
صرف نعتوں کی ہی بات کر لیتے ہیں ۔ پچھلے چند عشروں میں " نعت خوانی" کے بدلے ہوئے انداز دیکھے ۔ ایک دور تھا جب قاری وحید ظفر قاسمی،الحاج خورشید ، مظفر وارثی ام حبیبہ ، منیبہ شیخ ، فصیح الدین سہروردی جیسے
👇
نعت خواں سماعتوں میں مٹھاس اور محبت اتارتے تھے ، ان کے فارسی ، عربی اور اردو کلام سماں باندھ دیتے تھے ۔ بغیر کسی آلات موسیقی کے یہ نعتیں رقت اور وجد طاری کرتی تھیں۔
پھر منظر بدلا PTV کراچی نے سکول کی طالبات کی آواز میں دف اور باجے کے ساتھ " آئے سرکار مدینہ " اور
👇