اہم سوال یہ نہیں کہ وزیراعلی کیوں نہیں بول رہے، زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ سوات میں عمران خان کے ساڑھے 3 سالہ حکومت میں بدامنی کیوں نہیں پھیلی اور حکومت تبدیل ہوتے ہی کیسے 6 مہینے کے اندر اندر دہشتگرد سوات تک پہنچ گئے ؟؟
زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے وفد نے افغانستان
👇
میں سوات کے مستقبل کا کیا فیصلہ کیا ہے؟
زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ بارڈر کنٹرول تو وفاقی حکومت کی زمہ داری ہے تو دہشتگردوں کو کس معاہدے کے تحت بارڈر کے زریعے سوات آنے دیا گیا ؟؟
زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کیوں کہتے رہے کہ سوات میں امن ہے اور بدامنی
👇
کی خبریں پروپیگنڈہ ہے ؟؟
اہم سوال یہ ہے کہ فوج اور سکیورٹی ایجنسیاں تو وفاق کے اندر آتی ہیں تو زمہ دار صوبائی حکومت کیسے ہوئی؟
اہم سوال یہ ہے کہ جب سے وفاقی حکومت تبدیل ہوئی ہے سابقہ فاٹا اور مالاکنڈ میں بدامنی پھیلنا شروع ہوئی ہے تو زمہ دار صوبائی حکومت کیسے؟؟
👇
اہم سوال یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹٰی اپنی حکومت کے وزیرداخلہ سے سوات کے حالات کے بارے میں پالیسی بیان کیوں نہیں لیتی؟؟
اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی تحریک انصاف کو دہشتگردی کا ٹارگٹ بنا کر عوامی نیشنل پارٹی کو دوبارہ صوبے میں منظم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں؟؟
👇
ان تمام سوالوں کے جوابات عوام جاننا چاہتی ہیں، جن کی زمہ داری ہے، ان سے سوال پوچھا جائے گا۔
ایک خاتون نے ایک خط لکھا جو سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہے
میرے پیارے بھائی
میرے پیارے بیٹے
گھر سے باہر نکلتے ہی آپ کو دو قسم کی خواتین ملیں گی
پہلی قسم
وہ عورت جو عزیز مصر کی بیوی کی طرح بیماری میں مبتلا ہو گئی ہے، اس نے اپنے آپ کو خوبصورت بنایا ہے، خوشبو لگا رکھی ہے
👇
اور میک اپ کیا ہے، اور اس کی زبان حال ہر دیکھنے والے کو کہتی ہے
میں تمہارے لیے تیار ہوں
دوسری قسم
وہ عورت جو پردہ کرتی ہے اور حجاب کرتی ہے،لیکن حالات نے اسے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے باہر جانے پر مجبور کر دیا،اور وہ زبان حال سے گویا حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کی طرح
👇
یہ کہتی ہے
’’جب تک چرواہے چلے نہ جائیں ہم اپنی بکریوں کو پانی نہیں پلائیں گی اور ہمارا باپ بوڑھا ہے۔‘‘
پہلی قسم کی عورت کے ساتھ یوسف علیہ السلام کی طرح برتاؤ کریں، اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور کہو، "خدا کی پناہ"
اور دوسری قسم کی عورت کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام جیسا برتاؤ کرو،
👇
اردو کے پہلے عوامی شاعر تھے نظیرؔ اکبر آبادی۔ ان کی مشہور نظم "آدمی نامہ" ھے جو میٹرک کے نصاب میں بھی شامل رھی ھے
ڈان گروپ کا ایک اخبار "حریت اخبار"ھوا کرتا تھا۔ نظیر اکبر آبادی کی برسی کے موقع پر "آدمی نامہ" چھپنے کو کاتب کو دی گئی
کاتب نے اپنی فنکاری دکھاتے ھوئے آدمی نامہ
👇
کی’’د‘‘ کو ذرا سا سیدھا لکھ دیا، جب نظم پریس میں چھپنے کو پہنچی تو چھاپنے والا سمجھا کہ’’ر‘‘ ھے، اس نے"آرمی نامہ" لکھ کر چھاپ دی۔ اس وقت جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی
"دنیا میں بادشاہ ھے سو ھے وہ بھی آرمی
اور مفلس و گدا ھے سو ھے وہ بھی آرمی
زردار ھے نوا ھے سو ھے وہ بھی آرمی
👇
نعمت جو کھا رھا ھے سو ھے وہ بھی آرمی
ٹکڑے چبا رھا ھے سو ھے وہ بھی آرمی
مسجد بھی آرمی نے بنائی ھے یہاں میاں
بنتے ھیں آرمی ھی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ھیں آرمی ھی قرآن اور نماز یہاں
اور آرمی ھی ان کی چراتے ھیں جوتیاں
جو اُن کو تاڑتا ھے سو ھے وہ بھی آرمی
جالندھر کے خیرالمدارس میں جلسہ ہوا,اور جلسے کے اختتام پر کھانا لگا ، دسترخوان پر امیر شریعت مولانا عطا اللّہ شاہ بخاری رحمتہ اللّہ بھی تھے ، انکی نظر ایک نوجوان عیسائی پر پڑی تو اسکو فرمایا ،
بھائ کھانا کھا لو "
" عیسائی نے جواب دیا "
👇
جی میں تو بھنگی ہوں
' شاہ جی نے درد بھرے لہجے میں فرمایا "
" انسان تو ہو اور بھوک تو لگی ہے "
یہ کہہ کر اٹھے اور اسکے ہاتھ دھلا کر اپنے ساتھ بٹھالیا
وہ بیچارہ تھر تھر کانپتا جاتا تھا ، اور کہتا جاتا تھا " جی میں تو بھنگی ہوں "
شاہ صاحب نے خود لقمہ بناکر اسکے منہ میں ڈالا
👇
اسکاحجاب اور خوف کچھ دور ہوا تو شاہ صاحب نے ایک آلو اس کے منہ میں ڈال دیا ، جب اس نے آدھا آلو کاٹ لیا تو باقی شاہ صاحب نے خود کھا لیا ،اسی طرح اس نے پانی پیا تو شاہ صاحب نے اسکا بچا ہوا پانی خود پی لیا
دن گزر گیا اور وہ عیسائی کھانا کھا کر غائب ہوگیا ،
اس پر رقت طاری تھی,
👇
سلیمان علیہ السلام کےدورمیں اک شکاری نے کبوتر کا شکار کیا جس پر مادہ کبوتر نے انصاف کے لیے حضرت سلمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہو کر شکاری کے خلاف شکایت کی سلمان علیہ السلام نےشکاری کو بلایا اور پوچھا کہ
نر کبوتر کو تم نے کیوں مارا ہے؟
👇
جواب میں شکاری نے کہا
اے اللہ کے پیغمبر علیہ السلام کبوتر حلال ہے،اور ہمیں حلال شکار کی اجازت ہے تب میں نے یہ شکار کیا،اس میں غلط کیا ہے۔
شکاری کی بات سننے کے بعد کبوتر نے سلمان علیہ السلام سے عرض کی،
اے اللہ کے پیغمبرعلیہ السلام مجھے اس پراعتراض نہیں کہ اس نے میرے نر کبوتر
👇
کا شکار کیا، بلکہ اعتراض اس کی دھوکے بازی پر ہے کہ یہ شکاری کے لباس کے بجائےعام لباس میں آیا،اگر یہ شکاری کے لباس میں آتا تو ہم اپنی حفاظت کر سکتے تھے، لہذا اس نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیااس لیے اسے سزا ہونی چاہیے۔
ٹھیک اسی طرح ہمیں بھی اس پیلی پگڑی والے مولوی کےکردار پر کوئی
👇
یہ پوسٹ ان والدین کے لئے ہے جو بچوں کی پڑھائی کو جینےمرنے کا مسلہ بنا لیتےہیں
سنگاپور میں امتحانات سےقبل ایک اسکول کے پرنسپل نے بچوں کے والدین کو خط بھیجا جس کا مضمون کچھ یوں تھا
" محترم والدین!
آپ کے بچوں کے امتحانات جلد ہی شروع ہونے والے ہیں میں جانتا ہوں آپ سب لوگ اس چیز
👇
کو لے کر بہت بے چین ہیں کہ آپ کا بچہ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھائے
لیکن یاد رکھیں یہ بچے جو امتحانات دینے لگے ہیں ان میں (مستقبل کے) آرٹسٹ بھی بیٹھے ہیں جنھیں ریاضی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے
اس میں بڑی بڑی کمپنیوں کے ترجمان بھی ہوں گے جنھیں انگلش ادب اور ہسٹری سمجھنے کی
👇
ضرورت نہیں
ان بچوں میں (مستقبل کے) ادیب بھی بیٹھے ہوں گے جن کے لیے کیمسٹری کے کم مارکس کوئی معنی نہیں رکھتے ان سے ان کے مستقبل پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا
ان بچوں میں ایتھلیٹس بھی ہو سکتے ہیں جن کے فزکس کے مارکس سے زیادہ ان کی فٹنس اہم ہے
لہذا اگر آپ کا بچہ زیادہ مارکس لاتا
👇
لوگ علماء کی بات کیوں نہیں سنتے؟
ایک صاحب نے سوال کیا کہ لوگ علماء کی بات کیوں نہیں سنتے ان کے پیچھے کیوں نہیں جاتے؟
جواب
علماء نے مسلمانوں کو جتنا اسلام سکھایا ہے اتنے میں ان کی بات سنتے ہیں ان کے پیچھے جاتے ہیں جیسے نماز روزہ وضع قطع لباس کھانا پینا حتی کہ حکومت کی مخالفت
👇
کرتے ہوئے علماء کے کہنے پر روزہ رکھتے ہیں اور عید مناتے ہیں مگر علماء نے مسلمانوں کو اسلامی سیاست نہیں سکھائی ہے اس لیے لوگ سیاست میں علماء کو ترجیح نہیں دیتے بلکہ سیاست دانوں کے پیچھے جاتے ہیں۔
علماء نے مسلمانوں کو یہ نہیں بتایا ہے اسلام میں حکمران کس طرح منتخب ہوتا ہے اس کے
👇
لیے شرائط کیا ہیں؟
علماء مسلمانوں کو یہ نہیں بتایا ہے کہ خلافت نماز کی طرح فرض ہے اور اس کے بغیر حدود اللہ کا قیام ممکن نہیں
علماء نے یہ نہیں بتایا ہے کہ مسئلہ وسائل کی کمی کا نہیں بلکہ مسئلہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا ہے جو کہ جمہوریت کی وجہ سے ہے
علماء نے یہ نہیں بتایا ہے
👇