میں آج کے واقعے کو ڈرامہ نہیں کہتا۔ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ میں اے پی ایس کو بھی عمران کی فیس سیونگ نہیں کہتا۔ یہ بھی زیادتی ہے۔
اگر میں ایسا کہوں تو میرے پاس کیا وجہ رہ جائے گی کہ میں سانحہ کارساز کو ڈرامہ نہ کہوں؟ بینظیر کی موت کو ان کی پارٹی کا پلان نہ کہوں؟
بشیر بلور کی موت کو پوائنٹ اسکورنگ نہ کہوں؟ افتخار حسین کے بیٹے کی شہادت کو سیاسی فائدہ نہ تسلیم کروں؟ دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں ایم کیو ایم کے دفاتر پر بم حملوں کو بھی ان کا اپنا ہی کام کیوں نہ کہوں؟ مصطفی کمال کے ملین مارچ پر پولیس کریک ڈاؤن کو بھی ملی بھگت کیوں نہ سمجھوں؟
مجھے صحافیوں پر ہوئے قاتلانہ حملوں کو بھی ان کی اپنی ہی شرارت کہنا پڑے گا۔ یا یہ سب باتیں میں نہ بھی کہوں لیکن کوئی اور کہے تو کیا میں انہیں رد کر سکتا ہوں؟
شاید یہ رد تب ہی ممکن ہو جب میرا معیار سب کے لیے یکساں ہو ! میں سب کو ایک ہی نظر سے دیکھوں۔
تحریک انصاف کو سوچنا چاہیے کہ لوگ ان کی آفت میں ان کے ساتھ کیوں نہیں کھڑے۔ وجہ صرف اتنی ہے کہ آپ نے دوسروں کی مصیبت کو ہمیشہ ڈرامہ کہا ہے۔ آپ نے کسی پر یقین نہیں کیا سو آج آپ کے لیے کسی کو بھی یقین دلانا دشوار ہے۔