ایک ٹرک ڈرائیوراپنے شاگرد کے ساتھ ایک ہوٹل پر رکا کھانا کھایا اور دو چرس کے سگریٹ پئے اور شاگرد کو بولا کہ چل تو بھی کیا یاد کرے گا آج ٹرک تم چلاّو، لیکن ٹرک چلانے سے پہلے ٹائر پانی چیک کر لو۔
شاگرد بہت خوش ہوا کہ آج ٹرک چلاوں گا، اس نے جلدی سے ریڈی ایٹر کا پانی چیک کیا،
👇
ٹائر کی طرف آیا تو دیکھا ٹائر پنکچر تھا، اس نے استاد کو ٹائر کے بارے میں بتایا، استاد نے کہا جلدی سے بڑا جیک لگاو اور ٹائر بدل دو اتنی دیر میں استاد نے دو اور چرس کے سگریٹ پئے، جب ٹائر بدل دئے تو استاد نے شاگرد کو کہا کہ میں اب تھوڑی دیر سونے لگا ہوں تم ٹرک چلانا شروع کر دو
👇
کنڈکٹر کچھ جوش میں اور کچھ چرس کے نشے میں سپیڈ دئے جا رہا تھا، کافی دیر بعد جب استاد کی آنکھ کھلی تو اس نے کنڈکٹر سے پوچھا
ہاں بھائی کنڈکٹر کہاں پہنچے؟
کنڈکٹر بولا۔ استاد جی جگہ کا تو نہیں پتا لیکن میں کافی سپیڈ و سپیڈ جا رہا ہوں
استاد بولا۔ اچھا تم گاڑی سائیڈ پر روکو میں
👇
خود چلاتا ہوں۔
شاگرد نے ایکسلیٹر سے پاوں ہٹایا اور گاڑی روک دی، استاد نیچے اترا تو دیکھا سامنے ایک ہوٹل ہے۔
استاد نے ہوٹل والے سے پوچھا کہ بھائی یہ کونسی جگہ ہے؟
ہوٹل والا حیران و پریشان ان دونوں کو دیکھنے لگا اور بولا جناب آپ تو اسی جگہ پر ہیں جہاں سے آپ نے کھانا کھایا،
👇
ہم تو سمجھے شاید ٹرک میں کوئی خرابی ہے اس لئے ٹرک جیک پر لگا کر آپ ایکسلیٹر دئے جا رہے ہیں۔
یہی حال 75 سالوں سے ہمارے ملک کا ہے، اقتدار کے نشے میں دھت ہو کر یہ ہوس کے پجاری حکمران پاکستان کو ایسے ھی چلا رہے ہیں،
👇
نہ پاکستان آگے جاتا ہے اور نہ ہی ان جیسے خکمرانوں سے چھٹکارا ملتا ہے۔
پرانے زمانے میں اہلِ عرب جب کوئی بستی بساتے تو وہاں ایک طرز اور ایک ہی شکل کے کچے مکان بناتے
مٹی سے بنے گھروں کے اوپر کھجور کے پتوں سے بنی چھت جس کے نیچے ستون کے لیے بھی کھجور کے درخت کا تنا استعمال کیا جاتا
اسی طرح دروازے اور روشن دان بھی
👇
ایک جیسے ہوتے تھے جن کے لیے صحرائی جھاڑیوں سے الگ کی گئی شاخوں کے اوپر کجھور کے پتوں سے چادر بنا کر لگائی جاتی تھی یوں وہ ایک پردہ نما دروازے کا کام دیتا تھا
ہر گھر کے صحن میں ایک دو کجھور کے درخت ہوتے تھے تو یوں ایک جیسے دکھائی دیتے تھے
ایک دفعہ ایسی ہی بستی میں رہنے والے
👇
ایک کسان نے ایک صبح کھیتوں میں جانے سے پہلے اپنی بیوی سے کہا کہ آج شام دوسرے قبیلے کے سردار میرے ہاں مہمان ہیں تو ان کی مہمان نوازی کے لیے
کھجور کا حلوہ، گندم کا ہریس، اور زیتون کے تیل میں بکری کی ران بھون کر تیار رکھنا، وہ بازار سے تمام ضروری اشیاء لے کر بیوی کے حوالے کر کے
👇
ایک بے روزگار شخص حالات سے تنگ تھا۔
ایک درگاہ پر چلا گیا اور درگاہ کی صاف صفائی کرنے لگا،
وہیں لنگر سے کھانا کھا لیتا اور ایک کونے میں سو جاتا تھا،
درگاہ کا متولی روز اس کو دیکھتا، اس کی محنت اور لگن دیکھ کر اس نے اسکو مرید بنا لیا،
کچھ عرصہ گزرا تو اس مرید نے ترقی کی اور
👇
یوں وہ متولی کا خاص الخاص مرید بن گیا
کچھ عرصہ بعد مرید نے پیر صاحب سے کہا کہ کافی عرصہ ہوا گھر سے نکلا ہوا ہوں، ماں باپ کی خبر نہیں، اگر اجازت ہو تو گھر والوں سے مل آؤں،
پیر صاحب نے نہ صرف اجازت دے دی بلکہ اپنا گدھا سواری کیلئے بھی دے دیا
مرید گدھے پر سوار ہو کر روانہ ہوا،
👇
گرمی کا موسم تھا. گدھا گرمی سے گرا اور مر گیا۔
مرید کو بہت دکھ ہوا۔ ایک پیر صاحب کے گدھے کے مرنے کا، دوسرا بقیہ سفر طے نہ ہونے کا
اس نے گدھے کو ایک گڑھا کھود کر دفن کیا تھکن سے چور ہوا تو وہیں سو گیا
آنکھ کھلنے پر کیا دیکھتا ہے، کہ اس گدھے کی قبر کے ساتھ کچھ رقم پڑی ہوئی ہے
👇
خیبر پختون خوا کا ایک نوجوان سرکاری افسر، ماہر زراعت 80 کی دہائ میں اسکالر شپ پر مزید تعلیم کے لئے لبنان گیا جہاں اس نے امریکن یونی ورسٹی بیروت سے پلانٹس جینٹکس میں ماسٹرز کیا- اس کے بعد امریکہ جاکر وہاں سے اسی شعبے میں پی ایچ ڈی کیا اور پاکستان واپس آگیا
واپسی میں اپنے ساتھ
👇
سن فلاور کے کچھ بیج بھی لے آیا
اس کے ساتھ کام کرنے والے ایک فرد نے راقم کو بتایا کہ کسی ملک سے بیج یا قلم لے کر آنا آسان کام نہیں ہوتا، بہرحال اس ماہر زراعت نے تمام تر احتیاطوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح یہ کام کرلیا
اگلے چند سالوں میں اس شخص نے پشاور کے زرعی تحقیقی مرکز میں ایک
👇
ٹیم بنائ جس میں بحیثیت نائب احمد سید کو شامل کیا
یہ جنونیوں کی ٹیم تھی جس نے نہ صبح دیکھی اور نہ شام، نہ ہی چند علاقوں تک محدود رہے
اگلے چند سالوں میں اس ٹیم نے پاکستان کی زرعی تاریخ میں چند زریں ابواب کا اضافہ کیا- ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سن فلاور کے دو ہائبرڈ بیج تیار اور
👇
کاؤنٹر نیریٹو پوری شدت سے لانچ ہو چکا ہے کہ حملہ خان نے خود کروایا۔
اس ڈسپریشن کی وجہ کیا ہے ؟
دو چیزیں واضح ہیں 1- عوام حملہ آور کے ہر چینل بلکہ پی ٹی وی پر بھی چلنے والے بیان کو سچ ماننے کو تیار نہیں یعنی طاقتوروں کی کریڈیبیلیٹی تباہ ہو کر رہ گئی ہے اور اس سے فرسٹریشن
👇
مزید بڑھ رہی ہے 2- کچھ بھی کرنے کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور ہر گزرتے لمحے میں دباؤ بڑھتا جا رہا ہے
یہ کچھ بھی کیا ہو سکتا ہے ؟
تفصیل تو بہت طویل بیان ہو سکتی ہے لیکن ایک جملے میں بیان کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے
"خان سے نجات۔۔۔
خان سے نجات کون حاصل کرنا چاہتا ہے ؟
سب کے سب،
👇
حاجی صاحبان ، عالیہ عظمیٰ، بیوروکریسی، تمام سیاسی جماعتیں اور وہ تمام لوگ جنکی روزی روٹی موجودہ نظام سے وابستہ ہے۔۔اسکے علاوہ امریکی و مغربی ممالک۔خان کی اپنی جماعت کے بھی کچھ لوگ ہو سکتے ہیں۔
عوام اور صرف عوام خان کے ساتھ ہے اور یہ جہاں ایک پرو پاکستانی لیڈر کے لیے
👇
جیسے ہی آپ ماں بنیں گی آپکی امی، ساس،خالہ،پھوپھو، تائی،چاچی اور ہر رشتہ دار خاتون آپکو ایک مشورہ ضرور دیگی اور وہ ہے بچےکا سر کیسے بنایا جائے
ان مشوروں میں بچے کے سر کو آگے پیچھے سے دبانا،بچے کے سر کے نیچے گتا،لکڑی،پلیٹ یا کوئی سخت چیز رکھنا
👇
بچے(جو کہ اب بڑا ہو چکا ہوگا) کا سر ایک بار غور سے دیکھیں۔ اسکا سر پیچھے سے سیدھا ہو گا جیسا اس تصویر میں left میں دکھایا گیا ہے جو کہ بالکل بھی نارمل نہیں ہے۔
سر کا اس طرح سیدھا ہوجانا Flat head syndrome کہلاتا ہے۔ جو کہ پاکستانی ماوں کے مطابق ایکachievement ہے دراصل ایک
👇
abnormal کنڈیشن ہے۔ سر کی ایک سطح کو بالکل سیدھا کر دینا اور ہڈی کی ساخت کو تبدیل کر دینا سراسر غلط ہے۔ flat head syndrome کے بچوں میں
● باریکی کے کام (یعنی fine motor skills)
●زبان کا استعمال( یعنی Language development) میں کمی آسکتی ہے۔