اپنے ملک میں جو لوگ یہ کر سکتے ہیں، سوچیں انہوں نے بنگال میں کیا @ImranKhanPTI 💞
کچھ نہ کیا ہو گا۔ بنگالی ٹھیک روتے تھے یہ شیرجوان ان کی عورطوں کی عزطیں لووٹا کرتے تھے۔
اور یاد رکھو پاکستانیوں اگر وہ اپنے افسر کے ساتھ کھڑے ہیں تو پھر ہم پر ہماری ماؤں کا دودھ ح۔رام ہے جو ہم اپنے مظلوم لیڈر عمران خان کے لیے نہ کھڑے ہوں۔ ہم بھی اپنے لیڈر کے ساتھ ہیں اور اب یہ
جنگ گلی گلی شہر شہر ذہن ذہن میں ہو گی۔ ہم ان کو اس ففتھ اور سکستھ جرنیشن وارفئیر میں ایسی شکست دیں گے کہ ان کی آنکھ اب جہنمم میں ہی کھلے گی۔۔۔۔!!
ایک زمانہ تھا جب صلیبی جنگوں کا عروج تھا اور سلطان صلاح الدین کی مشرق وسطی میں ایک کے بعد ایک ہونے والی فتوحات کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری تھا انگریز کے دل میں سلطان کی دلیری کی وہ تصویر نقش ہو چکی @ImranKhanPTI 💞
تھی کہ وہ خواب میں بھی اس کی شیر جیسی دھاڑ سن کر ڈر کے مارے جاگ اٹھتا تھا
لیکن یہاں سلطان کی جس اعلی ظرفی کی داستان کا ذکر کنے جارہا ہوں اسے پڑھ کے اگر آپ آج کے حالات سے اسے ریلیٹ کریں گے تو شاید آپ کی آنکھیں بھر آئیں
۔ جب چشم زدن نے دیکھا کہ جنگ کا منظر ہے اور میدان کا رزار
لہو لہو ہے اک کہرام مچا ہواہے سلطان کے سپاہیئوں کے پے درپے حملوں سے انگریز فوجوں کے قدم اکھڑنے لگے
اور سلطان خود بھی صف اول میں لڑتا ہوا بجلی کی سی تیزی سے، شیر کی طرح دھاڑتا ہوا پے درپے لاشیں گراتا جا رہا ہے۔
#غازی_عمران_خان
" فکر نہ کرو ، مجھے تب تک کچھ نہیں ہو گا جب تک نیا پاکستان نہیں بن جاتا "
یہ الفاظ تھے پاکستان کے اس عظیم لیڈر کے جب 2013 میں وہ لفٹ سے اونچائی سے نیچے سر کے بل گرا تھا اور شدید چوٹیں آئی تھیں۔مایوسی کے ان لمحات میں بھی اس کا اللہ پہ اس قدر بھروسہ @ImranKhanPTI 💞
تھا کہ اسے یقین تھا کہ مقصد کی کامیابی تک اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرتا رہے گا اور یہ عارضی مشکلات ہیں۔
پچھلے چار پانچ ماہ میں اسے لگاتار سات سے زائد مرتبہ مارنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی وہ معجزاتی طور پہ محفوظ رہا اور رستے خون اور ٹانگوں میں گولیوں کے
باجود ذاتی باری پہ مکمل یقین رکھتے ہوئے مکا لہرا کر پیغام دیا کہ
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ہسپتال پہنچتے ہی اس نے پیغام جاری کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں سیدھا کرنے کےلیے اسے ایک اور زندگی عطا کی ہے۔
#PakArmy
یہ ہے ڈاکٹر شازیہ خالد جو پی پی ایل یعنی پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کی ورکر تھی جنہیں سوئی، بلوچستان میں دو اور تین جنوری دو ہزار پانچ کی رات پاکستان آرمی کے ایک کیپٹن (حماد) نے ریپ کردیا تھا یہ وہاں ایکوموڈیشن میں اکیلی رہتی تھی اور ان کا شوہر لیبیا میں مقیم تھا چونکہ ان
دنوں سوئی گیس کے حوالے سے نواب اکبر بگٹی اور حکومت کے درمیان چپقلش چل رہی تھی سو وہاں فوج کو سوئی کی حفاظت کے لئیے رکھا گیا تھا اور یوں پاکستان کی تاریخ کا یہ عظیم سانحہ رونما ہوا لیکن سانحے سے بڑا سانحہ تب پیش آیا جب ریپ کے بعد شازیہ کو مارا پیٹا گیا اور جب انہیں علاج کے لئیے
ہسپتال لایا گیا تو وہاں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر محمد علی، ڈاکٹر ارشاد، ڈاکٹر صائمہ صدیقی اور نرس سلیم اللہ نے انہیں نشہ آور ادویات سے مسلسل تین دن کے لئیے بیہوش رکھا اور یوں کمرے سے تمام ریکارڈز اور شواہد مٹا دئیے گئے اس دوران شازیہ کے خاندان کو اطلاع کئیے بغیر صرف ان کے لیبیا میں
#اعظم_سواتی_کو_انصاف_دو
جس وقت مریم نواز میڈیا پہ بیٹھ کر کہتی تھی کہ میرے پاس لوگوں کی پرائیویٹ ویڈیو ہیں تب مفتاح اسمائیل ، مصطفیٰ کھوکر جیسے لوگ کہاں تھے ؟ ایموشنل لمحات کو کیپچر کرنا بند کریں ۔ ہم تمہارے ڈرامے جانتے ہیں۔
نواز شریف نے اسی کی دہائی میں ہی متعارف کروا دی تھی جب 1988 میں قوم کے خود ساختہ ڈرامے باز ہیرو جنرل حمید گل نے بینظیر کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد بنایا اور تمام جماعتوں کو اکٹھا کر کے اس کا سربراہ نواز شریف کو بنایا تو اس وقت نواز شریف نے نفاذ شریعت کی تحریک چلائی اور مذہبی
چورن بیچا جبکہ بینیظیر کو اسلام مخالف ثابت کرنے کےلیے اس کو لبرل پینٹ کیا گیا۔ اس کی لندن سے تصویریں ادارے نے فراہم کیں۔ نواز شریف نے ہیلی کاپٹر سے اس کی بیچ پہ پرانی اور فیک تصویریں ہیلی کاپٹر سے بینظیر کے جلسوں میں گرائیں۔ لفافہ گروپ نے اخبارات میں یہ تصویریں لگائیں۔ یہ کھیل
#AzamSwati
یہ آہ و بکا کے منظر ، یہ لٹتی عزتیں ، یہ ظلم و بربریت کے شکار شہری ، یہ بیٹیوں کے سامنے اپنی گنوائی عزت کے بعد سر جھکائے بوڑھے ۔۔۔۔ یہ منظر آج کے نہیں ہیں بلکہ یہ پچہتر سالہ تاریخ کا تسلسل ہے۔ ظالم و جابر طاغوتی قوتوں نے یہ کھیل بار بار کھیلا یے @AzamKhanSwatiPk
عزت و غیرت سے عاری وردی پوش غنڈوں نے باعزت شہریوں کی عزتوں پہ بار بار ہاتھ ڈالا ہے۔ یہ بنگلہ دیش گئے تو وہاں عزتیں تار تار کیں اور جب اس کی خبریں عالمی میڈیا تک پہنچیں تو چیف نے حقارت سے کہا کہ اب ہمارے نوجوان اس ضرورت کو پورا کرنے کےلئے ہزاروں میل دور تھوڑی جائیں گے۔ ریپ کو
انسانی ضرورت قرار دے کر شہریوں کی عزتیں لوٹی گئیں۔ جب اکہتر میں وہ بیلٹ پیپر کے زریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے تو ان کی جیت کو اپنی شکوت سمجھ کر یہ بپھر گئے اور ان کے خلاف محاذ کھولا گیا۔ کہا گیا کہ " جوانو آگے بڑھو اور ان کی نسلیں بدل دو "
آج جب شہریوں کی عزتیں پامال