کل ہم کسی رشتہ دار کے گھر گئے، مین گیٹ کی چابی لے جانا بھول گئے، اطمینان تھا کہ بیٹا گھر پر ہے تو کیا ہوا جو سو رہا ہے، دس بارہ گھنٹے میں اٹھ جائے گا
مگر جناب
وہ صاحب رات کی ڈیوٹی کر کے آئے تھے سو ہزار گھنٹیاں بجائیں، نہ اٹھے، فون بھی بند تھا
سارا محلہ جمع ہو گیا،ہر ممکن
👇
کوشش کی دروازہ کھولنے کی،
کوئی سریا لایا، کوئی ڈنڈا، کوئی ہینگر کہ اوپر سے کسی طرح ہاتھ لاک تک پہنچ جائے
مگر دروازہ نہ کھلا
برابر والوں کی چھت سے کود کر ٹیرس پر گئے
مگر ٹیرس کا دروازہ بھی بند تھا
ایک گھنٹہ ہم دروازے کے باہر کھڑے رہے، سارا محلہ ہمارے ساتھ کوشش کرتا رہا
👇
مگر بے سود
آخر ایک گھنٹے بعد بیٹے کی آنکھ کھلی تو اس نے دروازہ کھولا
سولہ اکتوبر 1934کو ماؤ زے تنگ اور ان کے ساتھیوں نے ایک تاریخی قدم اٹھایا۔ ایک ایسا کام ‘ جس سے دنیا کی انسانی تاریخ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ تقریباً ایک لاکھ افراد جس میں پینتس خواتین بھی شامل تھیں‘پیدل چلنا شروع کیا
جیانگ سی صوبہ سے شروع ہونے والا یہ قافلہ
👇
مکمل طور پر بے سرو سامانی کا شکار تھا
پھٹے پرانے کپڑے اور عرصہ دراز سے نہانے کی عیاشی سے محروم یہ لوگ دنیا کی نئی تاریخ رقم کر رہے تھے۔ سامان ان مرد و خواتین نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ قائدین کا بھی یہی حال تھا۔
کھانے کے لیے بھی کچھ خاص لوازمات نہیں تھے۔ جس دیہی علاقے سے
👇
گزر ہوتا،وہیں سے معمولی کھانے پینے کا سامان لیا جاتا۔ راستہ اتنا دشوار اور طویل تھا کہ اکثر جگہ پر کوئی آبادی نہیں تھی
نتیجہ میں تمام قافلہ مٹی سے آلودہ جو اور اس کا آٹا‘بغیر پانی کےمنہ میں پھانک لیتےتھےپینے کےلیے پانی بھی حد درجہ کم دستیاب تھا اس کے علاوہ چینگ کائی شک
👇
احمد نورانی کی سٹوری ہوش اڑانے والی ہے۔نورانی کےمطابق جنرل باجوہ جب لیفٹینٹ جنرل تھےتو اُنکی اہلیہ ٹیکس پیئر تک نہیں تھیں مگرباجوہ کے آرمی چیف بنتے ہی انکی اہلیہ گلبرگ گرین لاہور،اسلام آباد ،کراچی اورDHA میں کئی پلاٹس،لاہور DHA فیز 4اور فیز 6 میں2 کمرشل پلازوں کی مالک بنی۔
👇
باجوہ کی فیملی نے 2018 میں تیل کا کاروبار بھی شروع کیا۔اسکےعلاوہ لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی 23 اکتوبر 2018 کوجنرل باجوہ کی بہو بننےسےپہلے ہی اچانک ارب پتی بنی اور 2 نومبر 2018 کو یہی خاتون ماہ نورصابر،باجوہ کی بہو بنی۔23 اکتوبر 2018 کو ہی مانور کو DHA گجرانوالہ میں 8
👇
پلاٹس الاٹ کئے گئے۔
جنرل باجوہ نے مانور کے والد اوراپنے بیٹے کے سسر، صابر میٹھو کے ساتھ ایک مشترکہ کاروبار بھی شروع کیا۔
اس دوران صابر میٹھو نے پاکستان سے پیسے بیرون ملک ٹرانسفر کیے اور جائیدادیں بھی خریدیں
احمد نورانی کی رپورٹ کے مطابق اس وقت اندرون اور بیرون ملک باجوہ کے
👇
قطر کو آج سے بارہ سال پہلے یعنی دو ہزار دس میں فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ ان بارہ سالوں میں جدید مراعات پر مشتمل نئے اسٹیڈیمز، ہوٹل، شاپنگ مالز، فین زون اور رہائش گاہوں کی تعمیر و تیاری کی مد میں قطر اب تک تقریبا تین سو بلین ڈالرز خرچ کر چکا ہے۔
👇
کہا جا رہا ہے کہ یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے مہنگا ترین ورلڈ کپ ہے اور اس کی لاگت ماضی کے تمام ورلڈ کپز کی کُل لاگت سے بھی زیادہ ہے
ان دنوں میں دوحہ کا ائیرپورٹ دنیا کا مصروف ترین ائیرپورٹ ہو گا جہاں ہر روز نو سو سے زائد مسافر طیارے اتریں گے اور ایک اعداد و شمار کے مطابق
👇
قریبا بارہ لاکھ لوگ قطر کو وزٹ کریں گے
قطر نے ہر طرح کی ممکن جدت کو بروئے کار لاتے ہوئے آنے والوں کے لیے مقامی ثقافت و روایت کے مطابق آرٹ گیلری، میوزیم، فن زون، قومی اور بین الاقوامی کھانوں کے سٹال، موسیقی، اطفال و عوائل پروگرام غرض ہر ہر طرح کی تفریح ترتیب دے رکھی ہے
غربت کی وجہ سے میں پرائمری سکول نہ جاسکا لیکن جیسے تیسے پڑھ کر مڈل سکول میں داخل ہوگیا۔ اب حالات یہ تھے کہ گھر کے اخراجات کیلئے سکول کی کینٹین میں بھی کام کرتا اور ساتھ میں لوگوں کے جوتے پالش کرکے چند پیسے کماتا اور سکول میں بھی پڑھتا۔ اگر آپ واقف ہیں تو
👇
آپ کو پتہ ہوگا کہ جوتے پالش کرنے والے کے ہاتھ کافی میلے ہوتے ہیں اور خاص کر ناخنوں کے درمیان پالش کی سیاہ رنگت رچ بس جاتی ہے۔ اب چونکہ مجبوری اور غربت تھی اس لیئے جو بھی کرلیں، ناخن صاف ہی نہیں ہوتے تھے۔
خیر، سکول میں پہلا دن تھا اور پہلا درس ریاضی کا تھا۔ کیا رعب داب والا
👇
استاد تھا۔ آتے ہی بولا کہ اپنی نشست پر کھڑے ہوکر اپنے ناخن دکھائیں
اب چونکہ میں باقی بچوں سے کافی بڑا تھا تو کلاس کے آخر میں میری نشست تھی
انہوں نے کلاس کے آخر سے ہی دیکھنا شروع کیا
میرے ہاتھ اور ناخن دیکھتے ہی بولے "بیوقوف، یہ کیا حال ہے؟"
یہ واقعہ میں عمر بھر نہیں بھول سکتا
👇
پیدائش عیسی علیہ السلام سے چار صدی پیچھے ایک دن یونان کی گلیوں میں خواتین اچانک احتجاج کیلئے نکل آئیں. اس دور میں جب معاشرے میں خواتین کا کردار خاندان کی خدمت بچے پالنا اور صرف امور خانہ داری تھا یہ احتجاج ایک انوکھا کام تھا. اس کے پیچھے اگناڈس کا ایک قصہ ہے ,
👇
یونان میں علم طب صرف مرد کا پیشہ تھا. خواتین کیلئے یہ علم ممنوع تھا. اگناڈس نام کی لڑکی لیکن اس دور کی ڈاکٹر بننا چاہتی تھی. کیونکہ زچگی میں مرد ڈاکٹروں سے فطری شرم کی وجہ سے اکثریت خواتین یہ تکلیف خود گزار دیتی لیکن ڈاکٹر کی خدمات نہ لیتی. بہت سی خواتین اس لئے زچگی میں زندگی
👇
کی جنگ ہار جاتیں اگناڈس یہ بدلنا چاہتی تھی
اس نے مردانہ کپڑے پہنے بال مردانہ بنا لئے اور اسکندریہ کی علم طب کی درسگاہ میں بطور مرد داخلہ لے لیا. تحصیل علم کے بعد واپس یونان میں آکر مطب کھولا. خواتین میں سینہ بہ سینہ بات پھیلی اور حاملہ خواتین سب اگناڈس کی کلینک جانے لگیں
👇