احمد نورانی کی سٹوری ہوش اڑانے والی ہے۔نورانی کےمطابق جنرل باجوہ جب لیفٹینٹ جنرل تھےتو اُنکی اہلیہ ٹیکس پیئر تک نہیں تھیں مگرباجوہ کے آرمی چیف بنتے ہی انکی اہلیہ گلبرگ گرین لاہور،اسلام آباد ،کراچی اورDHA میں کئی پلاٹس،لاہور DHA فیز 4اور فیز 6 میں2 کمرشل پلازوں کی مالک بنی۔
👇
باجوہ کی فیملی نے 2018 میں تیل کا کاروبار بھی شروع کیا۔اسکےعلاوہ لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی 23 اکتوبر 2018 کوجنرل باجوہ کی بہو بننےسےپہلے ہی اچانک ارب پتی بنی اور 2 نومبر 2018 کو یہی خاتون ماہ نورصابر،باجوہ کی بہو بنی۔23 اکتوبر 2018 کو ہی مانور کو DHA گجرانوالہ میں 8
👇
پلاٹس الاٹ کئے گئے۔
جنرل باجوہ نے مانور کے والد اوراپنے بیٹے کے سسر، صابر میٹھو کے ساتھ ایک مشترکہ کاروبار بھی شروع کیا۔
اس دوران صابر میٹھو نے پاکستان سے پیسے بیرون ملک ٹرانسفر کیے اور جائیدادیں بھی خریدیں
احمد نورانی کی رپورٹ کے مطابق اس وقت اندرون اور بیرون ملک باجوہ کے
👇
اثاثوں کی ملکیت 12.7ارب سےزیادہ ہے۔
اکتوبر 2018 تک صفر اثاثوں کی مالک مانور کے اثاثے جنرل باجوہ کی بہو بننے سے ایک ہفتہ قبل 1 بلین(1271 ملین) پر جا پہنچے۔ماہنور لاہور میں 212 کنال 12 مرلے زرعی زمین کی بھی مالک ہے جسکی مارکیٹ ویليو 340 ملین ہے
اسکےعلاوہ DHA لاہور فیز 7 سکیٹر
👇
C میں مانور4،آٹھ مرلے کے اور3 ،چار مرلے کے 490 ملین مالیت کے کمرشل پلاٹوں کی بھی مالک ہے، اسلام آباد میں ایک 70 ملین کے گرینڈ حیات اپارٹمنٹ ،DHA گجرانوالا میں 1کنال کے8 پلاٹس جنکی مارکیٹ ویلیو 72 ملین ہے،ایک کمپنی میں15000شیئرز کی بھی مالک ہے ۔ ٹیکس پیٹرولیم کمپنی جو پاکستان
👇
میں ایک اوور سیز کمپنی کےطور پر درج ہے،جسکےہیڈ کوارٹر دوبئی میں ہیں،ماہ نور صابر 2019 میں اُسکی منیجر بھی بنی 14 اکتوبر 2018 میں ٹیکس پیٹرولیم کو پاکستان میں رجسٹرڈ کیا گیا اور اسی کمپنی کو 16 جنوری 2019 کو دبئی میں بھی رجسٹرڈ کیا گیا۔
ثبوتوں کے مطابق مانور کے والد صابر میٹھو
👇
اور اسکا بھائی ناصر حمید بھی اس کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں۔
ٹیکس پیٹرولیم کا کاروبار پورے پاکستان میں ہے اور اسکو باجوہ کی بہو چلاتی ہے۔FIA ریکارڈ کے مطابق
صابر مٹھو اور حمید ناصر نے بہت کم دبئی کا سفر کیا،جبکہ باجوہ کا بیٹا سعد اور بہو ماہ نور دبئی میں ہی رہتے ہیں۔اب ایک نظر
👇
جنرل باجوہ کی اہلیہ عائشہ امجد کے اثاثوں پر جو انھوں نے اپنے شوہر کے آرمی چیف ہونے کے دوران بنائے۔
1:دس کنال کا ایک پلاٹ گلبرگ گرین۔B-9A اسلام آباد میں 150 ملین کے پلاٹ کی مالک 2:دس کنال کا دوسرا پلاٹ،پلاٹ نمبر71 B9-A گلبرگ گرین اسلام آباد کی مالک ہیں جسکی قیمت 150ملین ہے
👇
3:ڈی ایچ اے کراچی
میں187 ملین کےفارم ہاؤس کی مالک بنی،جسکی قیمت ایڈوانس ادا کی گئی۔
4: 650ملین مالیت کےکمرشل پلازہ فیز4 DHAلاہور کی مالک۔
5: ڈی ایچ اے لاہور فیز6میں 389 ملین مالیت کے کمرشل پلازہ کی مالک بنی۔
6: ڈی ایچ اےلاہورفیز9 میں 70 ملین کے4مرلےکی کمرشل پلاٹ کی مالک بنی
👇
7: اسلام آباد میں 88 ملین کا اپارٹمنٹ خریدا۔
8: ڈی ایچ اے لاہور میں فیز5 میں 125 ملین مالیت کا خریدا۔
9:ڈی ایچ اےاسلام آبادفیز2میں ایک پلاٹ ہے جسکی قیمت95ملین ہے۔
10:پی اے ایف ہاؤسنگ سکیم کراچی میں 90 ملین کا پلاٹ۔
اسکے علاؤہ 160 ملین سے زیادہ کیش،زیورات،بانڈز،اور غیر ملکی
👇
کرنسی بھی شامل ہے۔
احمد نورانی نے 3 بار DGISPR کاموقف جاننے کی کوشش کی مگر DGISPR نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ ہی صابر مٹھو نے کوئی جواب دیا۔
احمد نورانی کا مزید یہ کہنا ہے کہ اگر باجوہ یا صابر میٹھو ان سےکوئی بات کرنا چاہیں ان پوائنٹس پر تو انکی ویب سائٹ فیکٹ فوکس باجوہ کو
👇
پلیٹ فارم مہیا کرے گی مگر اس سےپہلے ہی پاکستان میں احمد نورانی کی ویب سائٹ کوبلاک کردیا گیا۔اسکا مطلب احمد نورانی کی سٹوری سچ ہے؟
سیاستدانوں کو ننگا کرو،ویڈیوز بناؤ،اور خود ملک لوٹو۔
کیونکہ تم محب وطن ہو۔
یہ دونوں اور انکے بچے امریکی نیشنل ہیں۔
بھائی طارق باجوہ اور بھابھی اسما باجوہ بچوں سمیت برطانوی نیشنل ہیں
مزید کردار
پھر سابقہ ڈی جی نیب فنانشل کرائمز طلعت گھمن ھیں
انکے دو بھائ شوکت اور شجاعت باجوہ صاحب کے بہنوئ ھیں
ان گھمن بھائیوں میں تین بھائی ریٹائیرڈفوجی افسر ہیں
👇
قمر جاوید باجوہ ان کا فرسٹ کزن ہے
ان میں کرنل (ر)نعیم گھمن ہیں جو باجوہ کے بیچ میٹ اور کلاس فیلو تھے اب فرنٹ مین ہیں
مزید آگے جائیں تو نعیم گھُمن کا بہنوئ صابر مٹھوُ یا حاجی سیٹھ صابر حمید
باجوہ کے بیٹے کی شادی مٹھُو کی بیٹی سے
علیم خان اورخواجہ سعد رفیق کا بِزنس پارٹنر ہے
👇
اگر ایک دین پر چلنے والی خاتون یہ کہے کہ میں نامحرم سے ان باکس میں بات نہیں کرتی---
تو اسے یہ طعنہ دے دیا جاتا ہے کہ اگر تم ایسا سوچتی ہو تو سوشل میڈیا یوز کیوں کرتی ہو؟
پہلی بات سوشل میڈیا کا اچھا یا برا استعمال ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے
دوسری بات 👇
دین پر عمل کرنے والی خاتون کو کیا سمجھ رکھا ہے آپ نے؟؟؟
کہ کیا وہ جنگلوں سے آئی ہوئی کوئی مخلوق ہے
اگر اللہ کے حکم پر عمل کرتی ہے تو بس اب جنگل میں جا کہ اپنی ایک دنیا بسا لے اس لڑکی کوئی حق نہیں کہ یہ دنیا میں گھومے یا لوگوں سے رابطے میں رہے
Seriously....????
اللہ کے حکم
👇
پر عمل کرنے والی زندگی کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرتی ہے مگر اللہ سبحان وتعالی کی بتائی ہوئی حدود کے اندر رہ کر
اسے اچھائی اور برائی کا فرق پتہ ہوتا ہے
ان ایپس کے اچھے اور برے استعمال کا پتہ ہوتا ہے
آپ حق نہیں رکھتے کہ اللہ کے حکم پر چلنے والی لڑکی کو بڑے آرام سے اُٹھ کر یہ
👇
بیوہ خاتون تھی معاونت کرنی چاہی کہنے لگی بالکل ضرورت نہیں ۔کہا بچوں کے لئے رکھ لو کہنے لگی میں ہوں نا۔ان کے لئے سب کچھ کروں گی۔ کچھ تھا اس جملے میں کہ کانپ گئی
"میں ہوں نا"
کا جملہ اس وقت معاشرے میں کثرت سے سنائی دینے لگا ہے ۔ایک سہیلی کو اس کی
👇
حساسیت کی طرف توجہ دلائی کہنے لگی یہ جملہ بھی ڈراموں کی دین ہے۔بیٹی کو ،بہن کو، بچوں کو پریشانی میں مبتلا دیکھ کر کہا جاتا ہے
میں ہوں نا
پرانے محلے کا پڑوسی بیگم کو کہہ کر گھر سے نکلا۔
تیار رہنا شاپنگ پر جائیں گے اور راشن بھی لیتے آئیں گے
چالیس منٹ بعد وہ چار کندھوں پر آۓ گا
👇
کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔
میرے لئے کیا مشکل ہے ایک اشارے سے سب کو اندر کروا دوں دھونس جماتا چچا کے گھر سے نکلا۔
واپس آیا ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ کے سبب انگلی سے اشارہ بھی نہ کر سکتا تھا۔
کاش یہ سب کہتے ہوئے ڈر جاتا
اس کا باپ آئی سی یو کے سامنے کھڑا بتاتے ہوئے رو پڑا۔
سورج فضا میں ایک مقررہ راستہ پر پچھلے پانچ ارب سال سے چھ سو میل فی سیکنڈ کی رفتار سے مسلسل بھاگا چلاجا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا خاندان، نو سیارے، ستائیس چاند اور لاکھوں میٹرائٹ کا قافلہ اسی رفتار سے چلاجا رہا ہے۔کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان میں سے کوئی تھک کر پیچھے رہ جائے
👇
یا غلطی سے ادھر اُدھر ہو جائے بلکہ سب اپنی اپنی راہ پر اپنے اپنے پروگرام کے مطابق نہایت تابعداری سے چلے جا رہے ہیں۔ اب بھی اگر کوئی کہے کہ’’ چلتے ہیں لیکن چلانے والا کوئی نہیں‘‘ ،’’ ڈیزائن ہے لیکن ڈیزائنر کوئی نہیں‘‘،’’ قانون ہے لیکن قانون کو نافذ کرنے والا کوئی نہیں‘‘
👇
’’ کنٹرول ہے لیکن کنٹرولرکوئی نہیں "اور بس یہ سب ایک حادثہ ہے‘‘،تو اسے آپ کیا کہیں گے؟چاند تین لاکھ ستر ہزار میل دورسے زمین پرموجود سمندروں کے اربوں کھربوں ٹن پانیوں کو ہر روز دو دفعہ مدوجزر سے ہلاتا رہتا ہے تاکہ ان میں بسنے والی مخلوق کے لئے ہوا سے مناسب مقدار میں آکسیجن کا
👇
سولہ اکتوبر 1934کو ماؤ زے تنگ اور ان کے ساتھیوں نے ایک تاریخی قدم اٹھایا۔ ایک ایسا کام ‘ جس سے دنیا کی انسانی تاریخ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ تقریباً ایک لاکھ افراد جس میں پینتس خواتین بھی شامل تھیں‘پیدل چلنا شروع کیا
جیانگ سی صوبہ سے شروع ہونے والا یہ قافلہ
👇
مکمل طور پر بے سرو سامانی کا شکار تھا
پھٹے پرانے کپڑے اور عرصہ دراز سے نہانے کی عیاشی سے محروم یہ لوگ دنیا کی نئی تاریخ رقم کر رہے تھے۔ سامان ان مرد و خواتین نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ قائدین کا بھی یہی حال تھا۔
کھانے کے لیے بھی کچھ خاص لوازمات نہیں تھے۔ جس دیہی علاقے سے
👇
گزر ہوتا،وہیں سے معمولی کھانے پینے کا سامان لیا جاتا۔ راستہ اتنا دشوار اور طویل تھا کہ اکثر جگہ پر کوئی آبادی نہیں تھی
نتیجہ میں تمام قافلہ مٹی سے آلودہ جو اور اس کا آٹا‘بغیر پانی کےمنہ میں پھانک لیتےتھےپینے کےلیے پانی بھی حد درجہ کم دستیاب تھا اس کے علاوہ چینگ کائی شک
👇
قطر کو آج سے بارہ سال پہلے یعنی دو ہزار دس میں فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ ان بارہ سالوں میں جدید مراعات پر مشتمل نئے اسٹیڈیمز، ہوٹل، شاپنگ مالز، فین زون اور رہائش گاہوں کی تعمیر و تیاری کی مد میں قطر اب تک تقریبا تین سو بلین ڈالرز خرچ کر چکا ہے۔
👇
کہا جا رہا ہے کہ یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے مہنگا ترین ورلڈ کپ ہے اور اس کی لاگت ماضی کے تمام ورلڈ کپز کی کُل لاگت سے بھی زیادہ ہے
ان دنوں میں دوحہ کا ائیرپورٹ دنیا کا مصروف ترین ائیرپورٹ ہو گا جہاں ہر روز نو سو سے زائد مسافر طیارے اتریں گے اور ایک اعداد و شمار کے مطابق
👇
قریبا بارہ لاکھ لوگ قطر کو وزٹ کریں گے
قطر نے ہر طرح کی ممکن جدت کو بروئے کار لاتے ہوئے آنے والوں کے لیے مقامی ثقافت و روایت کے مطابق آرٹ گیلری، میوزیم، فن زون، قومی اور بین الاقوامی کھانوں کے سٹال، موسیقی، اطفال و عوائل پروگرام غرض ہر ہر طرح کی تفریح ترتیب دے رکھی ہے