*مشرقی پاکستان الگ ہونے کے اندوہناک حقاٸق*
پاکستان ٹوٹنے کے اصل محرکات کے سلسلے میں ایک ایسے شخص کی باٸیوگرافی حاضر خدمت ہے جو پاکستان کی تاریخ کا عیاش ترین حکمران تھا جس کی راتیں اور دن شراب اور شباب میں گزرتے تھے جسکی نحوست سے ہی پاکستان کا مشرقی حصہ الگ ہو کر علیحدہ
(1/27)
(2/27)
ملک بنگلہ دیش بنا تھا۔۔
دوستو۔۔! برصغیر کی تاریخ حریص لالچی ماٸع پرستوں سے بھری پڑی ہے۔ ایک طرف انگریز کے خلاف برصغیر کے آزادی پسند برسرپیکار تھے تو دوسری طرف انہی برصغیر کے باشندوں میں انگریز کے تلوے چاٹنے والے غدار بھی موجود تھے۔انگریز اپنے انہی پٹھوٶں کو بڑے بڑے عہدے
(3/27)
دیتا اور انہی میں سے بعض کو اعلیٰ کارکردگی پر خان بہادر کا لقب اور میڈل دیتا۔
اسی طرح کا ایک خان بہادر آغا سعادت علی خان بھی تھا جو انگریز کی انڈین پولیس میں ایک اعلیٰ عہدیدار تھا۔
قزلباش قوم سے تعلق رکھنے والے اسکے آباٶاجداد دو صدی پہلے افغانستان کے راستے برصغیر آۓ اور
(4/27)
پشاور کو اپنا مسکن بنایا۔
انگریز کے اس خان بہادر ، سعادت علی خان نے نوکری کے اواٸل میں پنجاب کے شہر چکوال میں سکونت اختیار کی۔
1917 میں اسکے گھر چھٹے نمبر پر بیٹا پیدا ہوا۔ اس بچے نے بتدریج عمر کے ساتھ انگریز کے زیراثر تعلیم مکمل کی۔ جوان ہوا اور 1938 میں انگریز کے
(5/27)
زیرکمان برصغیر کی فوج میں کمیشن حاصل کرکے دوسری عالمی جنگ میں انگریز کیلیے متعدد محازوں پر خدمات سرانجام دیں
پاکستان بننے کے بعد اسے 1962ء میں مشرقی پاکستان کے گیریژن آفیسر کمانڈنگ مقرر کیا گیا۔ ستمبر 1966ء میں جنرل محمد موسیٰ خان کے ریٹائر ہونے پر افواج پاکستان کا
(6/27)
کمانڈر انچیف مقرر ہوا۔ اور یوں وہ پاکستان کی تاریخ میں جنرل یحییٰ کے نام سے رقم ہوا۔
اپنے ابتدائی دور میں تو یہ جنرل یحییٰ بڑا فرمانبردار رہا لیکن جب صدر جنرل ایوب خان کا زوال شروع ہوا تو موصوف نے پر پرزے نکالنا شروع کیے۔
ہوا کچھ ایسے تھا کہ 1965ء کی جنگ کے بعد طلبہ
(7/27)
نے معاہدۂ تاشقند کے خلاف تحریک چلادی جو کافی شدت اختیار کر گئی۔۔ جو رفتہ رفتہ ایوب خان کے خلاف ایک طاقت کی سی شکل اختیار کر گئی تھی۔
جسے بعد ازاں جب بزور طاقت دبایا گیا تو عام لوگوں کے دِلوں میں یہ تحریک شعلے کی طرح جل اُٹھی تھی۔
ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو جو کہ
(8/27)
وزیر خارجہ تھا اسے بھی وزارت سے ہٹا کر اپنے پاٶں پہ کلہاڑی ماری۔
قلمدان چھن جانے کے بعد بھٹو نے عوام میں موجود ایوب مخالف جذبات کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوۓ پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی۔
1966ء میں مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعت عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے شیخ مجیب الرحمن
(9/27)
نے 6 نکات پر مشتمل مطالبات پیش کر دیے۔ ان نکات کو مغربی پاکستان کی سیاسی اور عوامی دونوں سطحوں پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور علیحدگی پسندی کا مترادف قرار دے کر شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کرلیا گیا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغربی پاکستان میں ایوب خان کے خلاف تحریک زور
(10/27)
بھی پکڑتی گئی اور امن عامہ کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔
نومبر 1968ء میں مخالف جماعتوں کے متحدہ محاذ نے ملک میں بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی جس نے خون ریز ہنگاموں کی شکل اختیار کرلی۔ مارچ 1969ء تک حکومت پر ایوب خان کی گرفت بہت کمزور ہو چکی تھی۔
یہی وقت تھا
(11/27)
جب 23 مارچ 1969ء کو جنرل یحیٰی خان نے ایوب خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی تیاریوں کو حتمی شکل دی اور کور کمانڈروں کو ضروری ہدایات دیں۔
25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے قوم سے خطاب میں اقتدار سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا جس کے بعد یحییٰ خان نے باقاعدہ مارشل لا نافذ کرنے کا
(12/27)
اعلان کر دیا اور اگلے سال عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔
30 جون 1970ء کو سرحد اور بلوچستان کی صوبائی حیثیت بحال کر دی۔ سابق ریاست بہاول پور کو پنجاب میں اور کراچی کو سندھ میں شامل کر دیا گیا۔ اور سابق سرحدی ریاستوں سوات، دیر اور چترال کو ملا کر مالاکنڈ ایجنسی قائم
(13/27)
کی گئی۔
دوستو۔۔! یہاں ایک اہم بات ذکر کرتا چلوں کہ جنرل یحییٰ خان وہسکی کا بہت بڑا شوقین تھا وہ اس دوران اپنی منفرد پہچان ایک بڑے شرابی کے طور پر کروا چکا تھا۔ شراب کے ساتھ ساتھ موصوف عورتوں کا بھی خوب رسیا تھا۔ اس کے جن عورتوں سے تعلقات تھے ان میں آئی جی پولیس کی بیگم،
(14/27)
بیگم شمیم این حسین، بیگم جوناگڑھ، گلوکارہ نورجہاں، اقلیم اختر رانی عرف جنرل رانی، کراچی کے تاجر منصور ہیرجی کی بیوی، ایک جونیئر پولیس افسر کی بیوی نازلی بیگم، میجر جنرل (ر) لطیف خان کی سابقہ بیوی، کراچی کی ایک رکھیل زینب اور اسی کی ہم نام خضرحیات ٹوانہ کی سابقہ بیگم،
(15/27)
انورہ بیگم، ڈھاکہ سے ایک انڈسٹری کی مالکن للّی خان اور لیلیٰ مزمل اور اداکاراؤں میں سے شبنم، شگفتہ، نغمہ، ترانہ اور بے شمار دوسروں کے نام شامل تھے۔
ان کے علاوہ کٸی آرمی کے افسر اور جرنیل اپنی بیگمات اور دیگر رشتہ دار خواتین کے ہمراہ ایوانِ صدر سدھارتے اور واپسی پر
(16/27)
خواتین انکے ہمراہ نہیں ہوتی تھیں۔
یحییٰ خان نے 7 ستمبر، 1970ء کو قومی اسمبلی اور 17 دسمبر کو صوبائی اسمبلیوں کے شفاف ترین انتخابات کروا کر ملکی و عالمی میڈیا کو حیران کردیا۔جس پر پہلی بار پاکستانی خوش ہوۓ اور جنرل یحییٰ کے اتنے بڑے عیبوں کو دیکھنے کے باوجود اسکی تعریفوں
(17/27)
میں جُت گٸےکہ شاٸد جنرل یحییٰ سنہری تاریخ رقم کرےگا۔۔
7 دسمبر 1970 کے دن انتخابات ہوۓ۔
ملک کے تقریباً پانچ کروڑ ستر لاکھ ووٹروں میں سے ایک بہت بڑی تعداد نےحب الوطنی کے جذبے سےسرشار ہوکر پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا۔
اس پرجوش الیکشن میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ قومی اسمبلی
(18/27)
کی تین سو تیرہ نشستوں میں سے 167 نشستیں حاصل کرکےمیدان مار کر پاکستان کی واحد سب سے بڑی جماعت بن گئی جسے حکومت بنانے کا بڑا مینڈیٹ حاصل ہوگیا تھا۔
لیکن مغربی پاکستان میں سب ششدر رہ گئےتھے کہ یہ کیا ہوگیا؟
عوامی لیگ کے مدمقابل ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی تھی
(19/27)
جو قومی اسمبلی کی 80 نشستیں ہی حاصل کر پائی تھی۔
یہ منظر دیکھ کر صدر یحییٰ خان نے اپنے حواریوں کو ملا کر نیا کھیل شروع کردیا۔۔عوامی لیگ کو حق رکھنے کےباوجودحکومت نہیں بنانے دی گئی، جس کا نتیجہ پاکستان کے مشرقی حصے میں احتجاج کی صورت میں نکلا، یہ احتجاج بڑھتے بڑھتے
(20/27)
خانہ جنگی میں تبدیل ہوگیا۔جسکا بھرپور فاٸدہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اٹھاتے ہوۓ مکتی باہنی بن دی اور مشرقی پاکستان میں فوج اتار دی۔
16 دسمبر، 1971ء کو مشرقی پاکستان پر بھارتی افواج کے قبضے اور مغربی پاکستان کے محاذ پر پاکستانی افواج کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنا پورے
(21/27)
ملک میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔
20 دسمبر، 1971ء کو جنرل یحییٰ نےاقتدار پیپلزپارٹی کے چٸیرمین ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا۔
8 جنوری، 1972ء کو یحییٰ خان کو عوامی غیظ و غضب سے بچانے کے لیے اسے نظر بند کر دیا گیا۔
جولائی 1977ء میں ملک میں مارشل لا نافذ
(22/27)
کرکے جنرل ضیاالحق نے اسے رہا کر دیا۔
”اب کچھ اہم باتیں“
یحییٰ خان پہلا فوجی جنرل بنا جس نے اپنے سابقہ باس ایوب خان کی حکومت پر قبضہ کیا تھا۔ اورجس نے ملک گیر مارشل لاء بھی لگایا تھا۔
اس نے کچھ اچھے کام بھی کئے تھے جن میں سے ون یونٹ توڑنا ، صوبے بحال کرنا ، آزادانہ اور
(23/27)
منصفانہ انتخابات منعقد کرانا شامل ہیں لیکن انتقال اقتدار میں وہ بڑا ہی بددیانت اور جابر ثابت ہوا تھا۔ یحییٰ ایک ایسے آئین کی تشکیل پر بضد تھا جس میں طاقت کا منبع صدر یا آرمی چیف رہے۔۔۔
اسلیے وہ اکثریتی پارٹی لیڈر شیخ مجیب الرحمان کو یہ حق دینے پر کسی طور بھی تیار نہیں
(24/27)
تھا۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ جنرل یحییٰ نے ملک تڑوا لیا لیکن اقتدار سے دستبردار ہونے کو ہرگز تیار نہیں ہوا۔
اگر سقوط ڈھاکہ نہ ہوتا تو وہ کبھی بھی سویلین کو حکومت نہ دیتا جو اس کے اس پریس ریلیز سے ظاہر تھا جو اس نے 20 دسمبر 1971ء سے نئے آئین کی صورت میں ملک پر مسلط کرنا تھا
(25/27)
یاد رکھیں ۔۔! جنرل یحییٰ خان پاکستان کا پانچواں آرمی چیف ، پاکستان ہی نہیں بلکہ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا بڑا ولن ثابت ہوا کہ جس کےدور میں پاکستانی فوج کو تاریخ کی شرمناک ترین فوجی شکست ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن اور مغربی پاکستان سے بھارت پر حملہ کرنا
(جاری ہے)
(26/27)
اس کے فوجی کیرئیر کے تباہ کن فیصلے ثابت ہوئے تھے جن میں پاکستان کا پہلا وائس آرمی چیف جنرل حمید بھی برابر کا شریک تھا جسے فورسٹار جنرل بنایا گیا تھا۔
دس اگست 1980 کو جنرل یحییٰ خان دنیا سے رخصت ہوا۔
اس کی موت سب طاقتور حکمرانوں کیلیے ایک بڑا سبق ہونا چاہیے تھا مگر
(27/27)
ہمارے ناعاقبت اندیش اداروں کے سربراہان اور حکمران شعور کے اس لیول سے بہت نیچے ہیں۔ #چاچاافلاطون بقلم خود
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
پاکستانیوں کے قتل، اقدام قتل، زنا کاری اور بہت سےجراٸم میں ملوث مفرور مجرم ”ہتک عزت کے دعوے دار“کا باٸیوڈیٹا حاضرخدمت ہے ایک ایسے مجرم کا جو لندن میں نواش ریف کیلیے بہت سی”خدمات“ سرانجام دیتا رہا جس کے اعتراف میں نواش ریف نےاسے مسلم لیگ ن برطانیہ کا صدر بنایا۔
آج بات کرتے
(1/11)
(2/11)
ہیں نواش ریف کے خاص الخاص دست راست کی جسکا نام ناصر بٹ ہے۔
ایک بار مریم نواز نے پریس کانفرنس کرتے ہوۓ ارشد ملک جج کی ویڈیو میڈیا کے سامنے پیش کی تھی جس میں ارشد ملک کے ساتھ ایک آدمی موجود ہوتا ہے ، وہ آدمی یہی ناصر بٹ تھا۔۔
ناصر بٹ کا پورا نام ناصر محمود بٹ ہے جو ن لیگ
(3/11)
کا پرانا کارکن ، مسلم لیگ ن برطانیہ کا صدر اور نواش ریف کا خاص دست راست ہے۔۔
راولپنڈی اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں ناصر بٹ پر مختلف سنگین جراٸم کی دفعات کے ساتھ ساتھ قتل کے 5 مقدمات بھی درج ہیں۔
جس کی وجہ سے سزا سے بچنے کیلئے وہ لندن فرار ہوا تھا۔۔
ناصر بٹ پر قائم
رسواۓ زمانہ دجالی جیوش اردو چینل جیو کے جھوٹے پروپیگنڈے کے جال میں پھنس کر 45% دماغ والے بڑھ بڑھ کر میرے پچھلے آرٹیکل پر زیادہ تر ایک ہی سوال دہراۓ جا رہے ہیں کہ ہمیں عمر فاروق ظہور سے کیا لینا دینا ہمیں تو یہ بتاٶ کہ اس آدمی کو عمران خان نے گھڑی کیوں بیچی؟؟
ان 45 % (1)
(2) دماغ والے جہلا کو یہ لاٸن پیڈ ففتھیوں نے رٹاٸی ہے۔
ان موٹی عقل کے کھوتا خوروں کو بتانا چاہتا ہوں کہ توشہ خانہ کے ریکارڈ کے مطابق گھڑی کا کوٸی معاملہ ہے ہی نہیں۔ عمران خان کے دور میں نہ ہی کوٸی گھڑی چوری ہوٸی اور نہ ہی کوٸی توشہ خانہ میں گھڑی کا کوٸی فراڈ سامنے آیا۔ اگر ایسا
(3) ہوتا تو وہ سارے سرکاری افسران جو توشہ خانہ کی نگرانی پر مامور ہوتے ہیں اب تک اس ن لیکی باجواٸی حکومت میں جیل میں ہوتے۔ جس گھڑی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اس گھڑی کی سرکاری ریٹ کے مطابق قیمت ادا کی گٸی تھی۔ جس سے توشہ خانہ سے خریدنے والے کی مرضی ہے کہ وہ اسے
”چور کا بھائی گٹھ کُترا“
پی ڈی ایم کے لٹیروں کی طرف سے ہاٸر کردہ عالمی چور شیخ عمر فاروق ظہور کا باٸیو ڈیٹا ملاحظہ کریں۔
سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے عمر فاروق ظہور کے ساتھ ساتھ اسکا بھائی عثمان ظہور اور ان کا بہنوئی شیخ سلیم منی لانڈرنگ سمیت کئی جرائم میں ملوث ہیں جن کے
(1/6)
2/6)
مقدمات پاکستان ، دبئی اور ناروے میں چلتے رہےہیں۔
عمر فاروق ظہور اور شیخ سلیم نے ناروے اور سوئٹزرلینڈ میں فراڈ کرکے کروڑوں روپے غیر قانونی طور پر پاکستان بھجوائے اور اسی سلسلہ میں دونوں حکومت پاکستان کو مطلوب تھے۔
انہوں نے ایک گروہ ایسا بھی بنایا جسمیں شامل لوگ امیر گھرانوں
3/6)
میں شادیاں کرتے اور پھر کچھ عرصہ بعد بیویوں کو طلاق دے دیتے ، جبکہ ان کا زیور اور جہیز کا قیمتی سامان ناروے میں فروخت کر دیتے۔ ناروے میں انہوں نے اس کام کو باقاعدہ ایک کاروبار کی شکل دی ہوئی ہے۔
پاکستان میں عمر فاروق پر منی لانڈرنگ کے علاوہ انسانی اسمگلنگ کے مقدمات بھی
کُچھ دن پہلے فضلو نامی ابوجہل نے تمسخر اڑاتے ہوۓ دعوٰی کیا تھا کہ ”عمران خان نے جان بوجھ کر گولی لگنے کا ڈرامہ کیا ہے جعلی خون کی بوتلیں کنٹینر میں پہنچاٸی گٸی تھیں ، عمران خان تو انڈیا کے سلمان خان اور عامر خان سے بھی بڑا اداکار ثابت ہوا ہے“۔
فضلو ابوجہل کس قدر گھٹیا اور
1/4)
2/4)
کمینہ صفت ہے ، پاکستان کے باشعور مسلمانوں کو اسکا بخوبی اندازہ بہت پہلے سے ہے۔
عمران خان کا دور حکومت آنے پر اس ملعون نے یہ دعوٰی کرتے ہوۓ دھرنا دے دیا تھا کہ اسراٸیلی وزیراعظم عمران خان کو مبارک باد دینے پاکستان خفیہ دورے پہ آیا ہوا ہے۔ بعد میں ایک چینل پر کہتا ہے کہ
3/4)
یہ سیاست ہوتی ہے۔
مجھےحیرت اور دُکھ اس بات سے ہے کہ اپنے آپ کو نبی ص کا امتی کہنے والا ایک طبقہ اس ابوجہل کی باتوں کو قرآن سمجھ کر فالو کررہا ہے کہ فضلو بالکل درست کہہ رہا ہے۔
حالانکہ سچاٸی یہ ہے کہ فضلو نامی یہ ابوجہل دنیا کا ایک ایسا نمونہ ہےجسکو اس کےحلقے اور اسکےصوبے کی
ہر باشعور پاکستانی ضرور پڑھے۔۔۔
آج نواز شریف وزیراعظم پاکستان شُوباز کی موجودگی میں لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوۓ پاک آرمی کو ڈھکے چھپے لفظوں میں دھمکیاں دیتا دکھاٸی دیا تھا۔
اسکے بعد بابرہ شریف کے ہونہار سپوتر کامران شاہد نے بھی آج ہی ارشد شہید پر تشدد والے معاملے پر
(1/4)
(2/4)
دھواں دار پروگرام کر دیا۔
حالانکہ پوسٹمارٹم رپورٹ تو کافی دِنوں کی موجود تھی جسکو امپورٹڈ حکومت خود پبلک ہونے سےمحفوظ رکھے ہوۓ تھی تو کیا کامران شاہد کا ضمیر اچانک جاگ گیا تھا؟؟ جس سے وہ ایک دم اتنا نیک اور درد دل رکھنے والا بن گیا کہ فوراً اس پر پروگرام کرڈالا۔ مزے کی بات
(3/4)
نہ کسی نے پروگرام کو بند کیا اور نہ ہی ابھی تک چینل مالکان یا پروڈیوسر کی کھنچاٸی کی خبر آٸی۔۔
دوستو۔۔! اس قسم کے سارے ہتھکنڈے پری پلان ہوتے ہیں
یاد رکھیں ۔۔ ارشدشریف کے قتل پر نوازشریف اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی کیلیے پاک آرمی کو بلیک میل کر رہا ہے۔
اینکر کامران شاہد
ہرباشعور پاکستانی ہرقسم کی سیاسی وابستگی و فرقہ واریت سےبالاتر ہوکر خالص پاکستانی بن کر میرا یہ اہم تھریڈ پڑھے۔۔
عمران خان مدینہ کی طرز پر پاکستان کو فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنے کاخواب رکھتا ہے۔لیکن ریاست مدینہ قاٸم ہونے کے بعد مدینہ کو فلاحی ریاست بنانے والے آقا دوجہاں ص(1/19)
(2/19)
کے خاندان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیے گٸے تھے۔ نواسہ رسول ص امام حسین رض کو یزید کی بیعت نہ کرنے پر ( یعنی یزید کو حکمران نہ ماننے پر ) ” ریاست کے خلاف جانے“ کا الزام لگا کر اور ریاست کی رٹ قاٸم کرنے کے نام پر بچوں سمیت شہید کردیا گیا تھا۔
یاد رکھیں۔۔۔! ان کی قربانی
(3/19)
سچے مسلمانوں کیلیے روشنی کا مینار اور راہ ہدایت ہے۔ جبکہ یزید ظلم اور لعنتیں کمانےکا صیغہ بن کر رہ گیا ہے۔
مروان بن حکم کو نبی اکرم ص نے ناراض ہو کر باپ سمیت مدینہ سے باہر بھیجا تھا۔مگر آپ ص کے انتقال کے بعد خلیفہ سوٸم حضرت عثمان غنی رض کے دور میں وہ اپنے باپ حَکم سمیت