#یوم_نجات_29_نومبر #یوم_دفع #کانادجال_پٹواریوں_کاباپ #باجوہ_غدار
یہ عائشہ امجد یعنی جنرل باجوہ کی بیوی اور جنرل امجد کی بیٹی کے ڈیکلئیرڈ اثاثے ہیں جو کہ چونتیس کروڑ انتیس لاکھ ستاون ہزار چار سو اٹھائیس رویپہ رائج الوقت ہے جس پر کل ٹییکس چوہتر لاکھ باسٹھ ہزار ایک
سو نو روپے ادا کیا گیا، اب سوال یہ نہیں کہ اس پر ٹیکس ادا کیا گیا ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ محترمہ عائشہ کونسا دھندہ یا کاروبار کرتی ہے جس پر وہ اتنے پیسوں کی مالکہ بن گئی ہے حالانکہ ان کے شوہر کی تنخواہ ذیادہ سے ذیادہ ڈھائی لاکھ روپے تک ہوسکتی ہے پھر اتنے پیسے کہاں سے آئے؟
اس پر تحقیقات کرنے یا انکوائری کمیشن بنانے کی بجائے پہلے تو ایف بی آر کے درجنوں ملازمین کو نکالا گیا یعنی ان کے بچوں کا نان نفقہ بند کیا گیا کہ آپ لوگ خدائے ارض و سما کے جانشین کی کرپشن کو تحفظ دینے میں ناکام ہوئے، پھر ادارے کا ایک تین اسٹار جنرل یہ بتانے کے لئیے عوام کے ٹیکس
سے بنائے گئے ادارے کے توسط سے سامنے آیا کہ جنرل باجوہ کے اثاثہ جات کے متعلق پوچھنے والے تم ہوتے کون ہو اور بغیر تحقیات کے ان الزامات کو جھوٹا قرار دیا گیا یعنی ڈھٹائی، بیشرمی اور بیغیرتی کی کوئی حد ہوتی یے جو ناپاک آرمی کے جرنیلوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#یوم_نجات_29_نومبر
آج تک جرنیلوں نے شریفوں اور زرداریوں سے ہی پنگے لیے ہیں ۔ ملک کے مقبول ترین لیڈر بھٹو کو پھانسی کے تختے پہ چڑھا دیا جبکہ بینظیر کو جلسہ عام میں گولیاں مار دی گئیں لیکن جیالوں کی غیرت نہ جاگی ۔ نواز شریف کو ٹھڈے مار کر جہاز میں بٹھایا گیا لیکن @ImranKhanPTI 💞
پٹواری بریانی کی دیگوں کے پیچھے بھاگتے رہے۔ پہلی دفعہ انھوں نے انصافیوں سے پنگا لیا جو ملک کا سب سے باشعور طبقہ ہے اور اس کی اکثریت نوجوانوں پہ مشتمل ہے جو پورے معاشرے پہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ انصافیوں نے بغیر کسی اگر مگر یا مصلحت پسندی کا شکار ہونے کے ، ان کو دن میں تارے دکھانے
شروع کر دیے۔ ظلم و ستم کے وہ بازار گرم ہوئے کہ روح تک کانپ گئی لیکن انھوں نے خوف کے بتوں کو توڑ ڈالا۔ کئی سوشل میڈیا کے برگر بچے سمجھے جانے والے نوجوانوں کو زدو کوب کیا گیا لیکن ان سے یہ لڑکے ہی نہ سنبھالے جا سکے جو رہا ہوتے ہی اپنے کام پہ لگ گئے۔ انھوں نے باجوہ کی طرح گمنامی کو
#وہ_کون_فرعون_تھا
"کبھی نہ بھولو کہ مسلح افواج عوام کی نوکر ہیں۔ آپ پالیسی نہیں بناتے۔ یہ ہمارا، سولینز، کاکام ہے۔ان معاملات پر ہم فیصلہ ساز ہیں اور آپ ان فرائض کوسرانجام دینےکےپابند ہیں جو آپ کےذمہ لگیں"
یہ میرےنہیں قائداعظم محمدعلی جناح کی آرمی سٹاف کالج کوئٹہ میں 14
جون1948 کی تقریر کےالفاظ ہیں
قائد اعظم نے جونیئر فوجی افسر کو غصے میں کہا کہ مت بھولیں کہ فوج عوام کی ملازم ہے. قومی پالیسی بنانا سول عوامی نمائندوں کا کام ہے پالیسی ہم بنائیں گے آپ فالو کروگے۔ فوج کا کام بیرونی خطرات سے حفاظت ہے فوج کو سیاسی کرکے یہ مقصد ختم نہیں کرنا
مگر اس کے بعد قائد اعظم کی وفات کہ بعد ملک پر ایک ڈکٹیٹر بیٹھا تھا اور قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح کو غدار کہہ رھا تھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے
لیکن معاملہ یہ ہے کہ یہ غیر مرئی حکومت جسے ہیلری کلنٹن ڈیپ اسٹیٹ کی مثال میں استعمال کرتی ہے
وہ بلکل تسلسل سے ہٹ کر ہر آنے والے
بحیثیت ایک پاکستانی، میرے لیے اس ملک کی شان، عزت اور وقار صرف عمران خان ہے
اس حوالے سے نہ مجھے فوج سے کوئی خاص لگاؤ رہا، نہ شریفوں سے، نہ زرداریوں سے
میں اس نتیجے پر کیونکر پہنچا؟
کیا یہ محض ایک جذباتی لگاؤ ہے؟
ہرگز نہیں @ImranKhanPTI @OfficialDGISPR
میری اس سوچ کے پیچھے کئی برسوں پر محیط ایک پوری ہسٹری ہے جو آپ کے ساتھ شئیر کرنا چاہوں گا
بحیثیت ایک پاکستانی، میں بچپن سے ہی قومی سطح پر رونما ہونے والے ایسے متعدد واقعات دیکھتا ہوا آرہا ہوں، جنھوں نے مجھے میری قومی شناخت پر ہمیشہ شرمسار رہنے پر مجبور کیا
99 میں کارگل کا
واقعہ ہوا۔ پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت کا وزیراعظم بھاگا بھاگا امریکہ گیا اور ہماری تاریخ کے اوراق ایک اور سرنڈر سے داغ دار ہوئے
نہ فوج کام آئی، نہ ایٹم بم کچھ کرسکا، نہ ایف سولہ کام آئے اور نہ ہی سیاستدان
#یوم_انقلاب_26_نومبر
قوموں کی زندگیوں میں کچھ لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں ۔ یہ لمحات اگلی کئی صدیوں تک قوموں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ قوموں کو یہ مراحل بطور آزمائش عطا کیے جاتے ہیں اور وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرتے ہیں۔
26 نومبر 2022 کا دن بھی مملکت پاکستان @ImranKhanPTI 💞
کے باسیوں کےلیے ایسا ہی ایک دن ہے۔ پچہتر سال سے مافیا اور اشرافیہ نے مل کر اس ملک و قوم کو دیمک کی طرح چاٹا ہے اور اس کی بنیادیں کھوکھلی کر کے بائیس کروڑ لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح اپنے اشاروں پہ گھمایا ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کےلیے نہ صرف ان کی عزت ، غیرت اور سلامتی کا سودا کیا
جاتا رہا بلکہ ان کی ترقی میں بھی رکاوٹ بن کر انھیں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پہ مجبور کیا گیا۔ جس وقت پڑوسی ملک میں میگا ڈیمز ، اسپیشل اکنامک زونز اور آئی ٹی زونز بن رہے تھے ، تب یہاں جیہادی لیٹریچر بانٹ کر امریکہ کی لڑائی کےلیے قربانی کے بکرے تیار کیے جا رہے تھے۔ قوم کے بچوں کا
آرمی چیف کی تعیناتی کو لے کر پاکستان میں میڈیا میں ایک ہاہاکار مچی ہوتی ہے کہ جیسے کوئی سرکاری ملازم نہیں بلکہ اگلا بادشاہ چنا جا رہا ہو۔ یہ ہائپ خود میڈیا پہ بنوائی جاتی ہے تاکہ 22 ٹکے ایک سرکاری ملازم کو کوئی انمول مخلوق ظاہر کیا جائے ۔ رعایا بے تاب
ہو کہ اگلا بادشاہ سلامت کون آئے گا۔ حالانکہ تعیناتی جہاں ہونی ہوتی ہے وہاں ہو چکی ہوتی ہے۔ اس بار بھی تین چار ماہ قبل نام اوپر سے فائنل ہو کر آ چکا ہے اور آگے بھی اسی کی سمری جانی ہوتی ہے لیکن جان بوجھ کر ایسا تاثر پیدا کیا گیا جیسے اس حوالے سے حکومت اور اسٹبلشمنٹ میں اختلافات
ہیں ۔ اختلافات ۔۔۔۔۔ ہنس لیجیے۔ دو سیٹوں پہ کھڑی ایک کٹھ پتلی سرکار جس کو وہ جب چاہیں ایک اشارے پہ گھر بھیج دیں ، جس ڈاکو کا چاہیں کیس کھول دیں۔ سمری ادھر سے آ نہیں رہی ، ادھر پہنچ نہیں رہی ، ادھر جا نہیں رہی ۔۔۔۔۔۔ یہ سب ڈرامے بازیاں صرف اور صرف بادشاہ سلامت کی امیج بلڈنگ
#ArmyChief #ISPR
تقریر لکھنے والے کو غلط فہمی ہوئی یا خوشامد مقصود ہو گی لیکن چیف صاحب نے بھی ہوبہو یاد کر لی۔
تقریر کے دوران صاحب بہادر مشورے دیتے نظر آئے کہ ایک پارٹی ملک کو نہیں سنبھال سکتی بلکہ سب سٹیک ہولڈر کو مل کر چلنا ہو گا ۔
بندہ لا لوے جوتی تے پا لوے بوٹ تے موٹی
گال کڈ کے نس جاوے۔
مطلب تم ہوتے کون ہو یہ مشورے دینے والے۔ بائیس کروڑ عوام جس کو منتخب کریں وہ فیصلے کرے گا ۔ تم چوکیدار ہو ۔ اپنی ڈیوٹی کرو ۔ شریف اور زرداری تمہاری پھوپی کے بیٹے ہیں جو ان کو شامل کرنا ضروری ہے۔ ایک پارٹی نہیں سنبھال سکتی تو سب نام نہاد سٹیک ہولڈرز نے مل
کر کتنا سنبھالا ؟ ایویں ماچا بننے کی کوشش کرتے ہوئے دو ٹکے کے سرکاری ملازم خود کو ملک کا مالک سمجھ لیتے ہیں۔
یاد رکھیں یہ ملک کسی کے باپ کی ملکیت نہیں ہے اور نہ کسی کی ماں اسے جہیز میں لائی تھی ۔ یہ بائیس کروڑ کا ملک ہے اور اس کے فیصلے بھی بائیس کروڑ لوگ ہی کریں گے۔ کسی کو