مغلیہ تاریخ میں شہنشاہ جہانگیر کے دربار کے باہرلٹکی ایک زنجیر کا تذکرہ ملتا ہے جسے زنجیر عدل کا نام دیا گیا۔ کوئی فریادی اگر بادشاہ سے داد رسی کا طلبگار ہوتا تو وہ دربار کے باہر لٹکتی زنجیر کھینچ دیتا، جس سے منسلک گھنٹی کی آواز پورے دربار میں گونجتی، بادشاہ کو اطلاع ہوجاتی کہ
👇
کوئی فریادی انصاف کا طلبگار اس کے دروازے پرہے، اسے فوری طور پر بادشاہ کے حضور پیش کیا جاتا اور فریادی کی داد رسی کی صورت میں انصاف کا بول بالا ہوتا۔
کہانیاں ہی سہی مگر کتنی دلفریب سی لگتی ہے یہ بات کہ بس زنجیر ہلاؤ اور انصاف حاصل کرو
یہاں تو سقراط سے لے کر منصور تک
ارشد شریف
👇
سے لے کر اعظم سواتی تک انصاف مانگنے، سچ بولنے پر سوائے زہر، سولی، گولی اور جبر کے کچھ حاصل نہیں ہوتا
زرا سوچیں،خود پر رکھ کر سوچیں
ایک باپ، ایک شوہر،اپنے لیے کیا طلب کر رہا تھا
بس یہی تو کہہ رہا تھا ناں کہ میرے ملک کی ترقی کی سانسیں نہ گھوٹو
اسے آگے بڑھنے دو
خودمختار ہونےدو
👇
اتنا ہراساں کیا کہ وہ ملک چھوڑ کر چلا گیا
اس پر بھی بس نہیں کیا
مار ہی ڈالا؟؟
اب بھی صبر نہیں آ رہا
اس کی کردار کشی کی مہم شروع کردی
یاد رکھو
اس کے ہاتھ میں اب جس شہنشاہ کی زنجیر ہے وہ انصاف کرتا ہے
اور اس کا انصاف برحق ہے
پھر اعظم سواتی
کیا کہہ رہا ہے وہ؟؟
یہی ناں کہ
👇
اب یہ گندی وڈیوز کا دھندہ بند کرو
اپنی مرضی کے فیصلے لینے کے لیے جھوٹی سچی ریکارڈنگز کا سلسلہ بند کرو
اتنے مقدمے تو کلبھوشن یادیو یا احسان اللہ احسان پر درج نہیں کئے جتنے اس پچھتر سالہ سینیٹر پر درج کر دئے
ایک کے بعد ایک گرفتاری
اب سخت سردی میں اسے کچلاک بھیج دیا
👇
وہاں ننگا کرو گے؟؟
وہاں مارو گے؟؟
سن لو
ننگے تم ہو چکے ہو
قوم کے سامنے
حقیقی بادشاہ سب جانتا ہے
اس کی زنجیر ہلانے کی ضرورت نہیں پڑتی
اللہ کی لاٹھی بے آواز بھی ہے اور بے رحم بھی
انتہائی عجیب و غریب اور عبرت ناک واقعہ جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ وہ دونوں ،جس جگہ پر گناہ کرنے لگے تھے وہ روئے زمین کا سب سے زیادہ مقدس مقام تھا
جیسے ہی انہوں نے گناہ کیا، اسی وقت ان کے جسم پتھر ھونے لگے.ان کی روحیں قبض کر لی گئیں اور
👇
گوشت پوست کے جسم پتھر کے بنتے چلے گئے
اس وقت ان کے اریب قریب کوئی بھی نہیں تھا. اس لیے جو کچھ ان پر گزری اس کے بارے میں خود انہی کے سوا کسی کو پتہ نہیں چلا تھا
یہ تاریخ کا انتہائی عجیب و غریب اور خوفناک ترین واقعہ تھا۔ دو زندہ انسان ، جن میں سے ایک مرد تھا اور دوسری عورت تھی
👇
عذاب الٰہی کے تحت پتھر کے بن گئے تھے
کچھ دیر گزری تو ادھر سے کسی کا گزر ہوا
اس نے ان کو دیکھا اور پہچان لیا
یہ بھی معلوم ہوگیا کہ انہوں نے اس مقدس و متبرک ترین مقام پر کیسا گھناؤنا کام کیا تھا جس کی فوری طور پر پکڑ ہوگئی تھی
لوگوں کا مارے غصے اور دکھ کے انتہائی برا حال ہوگیا
حضرت عمر فاروق بڑے دلیر اور جری آدمی مسجد میں جمعہ پڑھانے کے لیے داخل ہوئے تو جناب ابو ایوب انصاری مسجد کے دروازے پہ کھڑے کہنے لگے کہ
"عمر ..
جلدی آیا کرو ہم کوئی تیرے نوکر نہیں ہیں جو تیرا انتظار کریں وقت پہ آیا کرو بڑی دیر سے کھڑے ہیں ، کیوں دیر سے آئے ہو؟
بڑے جلالی تھے
👇
سیدنا عمر لیکن وہ جلالی اس وقت تھے جب کوئی ظلم کرتا ، لیکن کسی کی ذات کے لیے جلالی نہیں تھے ، ابو ایوب نے کہا کہ وقت پہ آیا کر کوئی ملازم نہیں تیرے ۔ سیدنا عمر ممبر پر چڑھے اور فرمانے لگے کہ
اللہ ابو ایوب انصاری کا بھلا کرے جب تک اس طرح کے لوگ موجود ہیں کوئی بادشاہ بگڑے گا
👇
نہیں ، اللہ اسکا بھلا کرے اس نے میری راہنمائی کی
اور پھر عمر رو پڑے اور فرمانے لگے
مسلمانو مجھے معاف کرنا میری غلطی نہیں ھے میرے پاس کرتا ایک ہی ھے ،اور عبداللہ کی ماں نے اسے دھو کر سوکھنے کے لیے ڈال دیا تھا تو وہ زرا خشک ہونے میں دیر ہو گئی بھلے تم آ کے دیکھ لو
👇
سیٹھ باقر کواپنی دولت پر بڑا فخر تھا
اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بہت مغرور تھے وہ فطرتاََ اچھے آدمی تھے اور لوگوں سے ہمیشہ اچھے طریقے سے پیش آتے تھے
ان کی مل میں بناہوا کپڑا دنیا بھر میں سپلائی ہوتا تھا
مل کے ملازمین کے ساتھ بھی ان کاسلوک اچھاتھا
اپنے ملازمین کی بہت سی غلطیوں کو
👇
وہ اکثر نظرانداز کرجاتے تھے
ملازمین کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنے کی کوشش کرتے اور تنخواہ بھی اچھی دیتےتھے شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے ملازمین نے بہت کم ریٹائرمنٹ پہلے اس مل کو چھوڑا
چنددنوں پہلے ہی مالی نے اپنی دو بیٹیوں کی شادی کے لیے پیسے مانگے
انھوں نے نا صرف اسے قرضہ فراہم کیا
👇
بلکہ شادی کی دعوت بھی مِل کے پرائیویٹ لان میں کرائی
ان کی مِل کے ایک ملازم ،جسے ابھی کام کرتے ہوئے چار پانچ دن ہی ہوئے تھے، سڑک پر ایک حادثہ پیش آگیا تھا، جس کی وجہ سے وہ دو مہینے کے لیے کام کے قابل نہیں رہا
سیٹھ باقر نے اس کا پورا علاج کروایا، بلکہ جب تک وہ دوبارہ کام کے قابل
👇
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دُنیا میں ظہورسے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع خمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورے کو نکلا، بارہ ہزار عالم ،حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی
👇
شان و شوکت دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔
بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے تحقیق کے بعد بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں،
👇
اس کی اور اس کے خادموں کی تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر
👇
مولاناشمس الحق افغانیؒ سے ایک قاد یانی جج نے پوچھا:
"نبوت کیا چیز ہے؟"
مولانا شمس الحق افغانیؒ فرمانے لگے:
"نبوت اعلٰی منصب ہے، اللہ جل شانہ جِسے چاہے دے دیتاہے۔"
قاد یانی بولا:
"جب اتنا اچھا منصب ہے تو اِسے عام کرنا چاہئے۔"
مولانا شمس الحق افغانیؒ نے 100 روپے کا نوٹ نکال کر
👇
فرمایا:
"یہ نوٹ کیساہے؟؟"
اُسی زمانے میں سو روپے کا نوٹ، بڑا نوٹ تھا۔
قاد یانی بولا:
"یہ تو اعلٰی چیز ہے۔"
مولانا شمس الحق افغانیؒ نے فرمایا:
"جب اتنی اعلی چیز ہے تو اِسے عام کرنا چاہئے۔ ایک مُہر میں اپنی طرف سے بناؤنگا اور جعلی نوٹ تیار کر کے عام کرتا رہونگا۔"
قاد یانی جج
👇
بولا:
"یہ کام اگر آپ نے کیا تو آپ مجرم ہونگے اور سزا کے مستحق ہونگے۔ اِس کام کی اتھارٹی صرف حکومت کے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں۔۔"
مولاناشمس الحق افغانیؒ نے فرمایا:
ٹھیک ہے
اب یہ سمجھو کہ نبوت اگرچہ اعلٰی منصب ہے، مگر اسکی اتھارٹی صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ جسکو وہ چاہے نبی
👇
لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں میں "اےحمید" اور "ابن انشا" کےساتھ پیش آنےوالا ایک واقعہ۔
میں(اے حمید)اور ابن انشا لاہور کی سڑکوں پر مٹر گوشت کرتے ہوئے تصور کرلیتے جیسے ہم قدیم بغداد کے بازاروں اور محلوں میں چہل قدمی کررہے ہیں۔ اندروں لاہور کی کسی نیم تاریک گلی سے گزرتے ہوئے انشا
👇
رک جاتا اور کہتا
"یا شیخ! خلیفہ ہارون الرشید انھی گلیوں میں لوگوں کا حال معلوم کرنے کیلئے بھیس بدل کر پھرا کرتا تھا۔"
اندرون لاہور میں کئی گلیاں یک دم بند ہو جاتی ہیں جنھیں عرف عام میں "بندگلی" کہا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ میں اور انشا اسی طرح مٹرگشت کرتے ایک بند گلی کے اخیر میں
👇
پہنچ گئے جو کسی گھر کے صحن پر ختم ہوتی تھی۔ وہاں ایک عورت روٹیاں پکا رہی تھی جبکہ اسکے ساتھ ایک شخص آرام کرسی پر نیم دراز حقہ پینے میں مشغول تھا۔ ہمیں وہاں دیکھ کے اس نے سپاٹ لہجے میں کہا "کیوں میاں یہاں کیا کررہے ہو؟" انشا لاجواب ہوگیا تو میں بے اختیار بول اٹھا "ہم منورصاحب
👇