ایک بوڑھی عورت مسجد کے سامنے بھیک مانگتی تھی
ایک شخص نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ کا کوئی بیٹا کمانے کے قابل نہیں ہے؟
تو اس بوڑھی عورت نے کہاکہ ھے
تو پھر آپ یہاں کیوں بھیک مانگ رہی ہیں؟
بوڑھی عورت نے کہا کہ میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے
میرا بیٹا نوکری کے لئے بیرون ملک گیا ہے
👇
جاتے ہوئے اخراجات کے لئے مجھے کچھ رقم دے کر گیا تھا ،وہ خرچ ہوگئی ہے ،
اسی وجہ سے میں بھیک مانگ رہی ہوں
اس شخص نے پوچھا
کیا آپ کا بیٹا آپ کو کچھ نہیں بھیجتا؟
بوڑھی عورت نے کہا
میرا بیٹا ہر ماہ رنگا رنگ کاغذ بھیجتا ہے جسے میں گھر میں دیوار پر چپکا کر رکھتی ہوں
وہ شخص اس کے
👇
گھر گیا اور دیکھا کہ دیوار پر بینک کے 60 ڈرافٹ چسپاں کردیئے گئے ہیں۔
ہر ڈرافٹ 50،000 روپے کا تھا۔
تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے ، وہ عورت نہیں جانتی تھی کہ اس کے پاس کتنی دولت ہے۔
اس شخص نے اسے ڈرافٹ کی اہمیت سمجھا دی تو وہ عورت بہت خوش بھی ہوئی اور حیران بھی ہوئی اور
👇
اس تصویر میں نظر آنے والی وہ دنیا ہے جو آپ کے جسم میں موجود کھربوں خلیوں میں سے ایک خلیے کے اندر کی دنیا ہے
ایک خلئے کے اندر ایک سیکنڈ میں ہزاروں لاکھوں کیمیائی تعامل ہو رہے ہوتے ہیں
ایک خلیہ عام آنکھ سے نظر نہیں آتا۔ اس کا سائز
👇
اتنا کم ہوتا ہے۔ اتنے کم سائز کے خلئے کے اندر ہمار ڈی این اے بھی موجود ہوتا ہے۔ ڈی این اے کا سائز ایک میٹر کے دو کھربوویں حصے جتنا ہوتا ہے۔ جس میں تین ارب بیس پئیر ہوتے ہیں۔ اگر ہم ڈی این اے کو ایک خلئے سے باہر نکال کر اس کو ان فولڈ کریں تو اسکی لمبائی دو میٹر ہو سکتی ہے
👇
جبکہ ہمارے جسم میں موجود سیلز یا خلئیوں کی مکمل تعداد کھربوں میں ہے۔ اگر ان میں موجود ڈی این اے کو ہم ان فولڈ کریں تو اس دھاگے کی لمبائی پورے نظام شمسی سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے
اسکے علاوہ اسی خلئے میں مائٹو کانڈریا نامی ایک سٹرکچر ہوتا ہے۔ اس کا کام ہمارے خلئیوں کو انرجی پیدا
👇
ارجنٹائن کا ایک شہری "انڈوں کا کارٹن" خریدنے گیا اور بیچنے والے نے قیمت کے بارے میں پوچھا تو اسے معلوم ہوا کہ قیمت معمول سے زیادہ ہے، تو اس نے بیچنے والے سے وجہ پوچھی، اس نے کہا:
تقسیم کاروں نے قیمت بڑھا دی۔
شہری نے خاموشی سے "انڈے کا کارٹن" واپس جگہ پر رکھ دیا اور کہا
کہا
انڈوں کی کوئی ضرورت نہیں، وہ انڈوں کے بغیر رہ سکتے ہیں
اور یہ کام تمام شہریوں نے بغیر کسی مہم اور ہڑتال کے کیا
لوگوں نے قبول نہیں کیا کہ کمپنیاں انہیں بلیک میل کر رہی ہیں
آپ کے خیال میں نتائج کیا تھے؟
ایک ہفتے بعد،کمپنی کے ملازمین انڈے سٹوروں کے حوالے کرنے آئے، لیکن مالکان
👇
نے انڈے کے نئے کارٹن اتارنے سے انکار کر دیا کیونکہ کسی نے پرانے انڈے کے کارٹن نہیں خریدے
کمپنیوں نے لوگوں کی ضد پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ یہ احتجاج چند دنوں میں ختم ہو جائے گا اور لوگ انڈوں کی معمول کی خریداری پر واپس آ جائیں گے
لیکن لوگ ضد پر تھے، انہوں نے انڈوں کا بائیکاٹ
👇
صبح صبح بیکری میں داخل ہوتے ہوئے "ابیشے" کی نظر فٹ پاتھ پر بیٹھے کم زور اور عمر رسیدہ شخص پر پڑی تو اسے بہت ترس آیا ۔ وہ اپنے والد کے ہمراہ بیکری سے ڈبل روٹی اور انڈے خریدنے آیا ہوا تھا، ابیشے نے اپنے ابو سے کہا پاپا وہ دیکھیں بے چارے بوڑھے بابا جی جو باہر بیٹھے
👇
ہوئے ہیں
کتنے کم زور اور بھوکے ہیں
اٌن کے کھانے کے لیے بھی کچھ خریدلیں
اُس بوڑھے کو دیکھ کر جہاں ابیشے کو اُس پر ترس آیا،وہاں یہ خیال بھی آیا کہ اگر ہم نے اس کی مدد نہ کی تو خدا ناراض ہوجائے گا تمام سوداسلف خریدنے کے بعدابیشے کے والد نے دکاندار کو ایک شیِر مال بھی دینے کو کہا
👇
ابیشے کو شِیر مال تھماتے ہوئے اُس کے پاپا بولے ”لوبیٹا اب اٌن بابا جی کو آپ اپنے ہاتھ سے دے دو" ابیشے نے بڑی خوشی اور جوش کے ساتھ وہ شِیرمال باہر فٹ پاتھ پر بیٹھے اُس لاغر سے بوڑھے کو دیا، نوسالہ ابیشے نے اُسے بڑی محبت کے ساتھ شیِر مال پکڑایا
اُسی دوران ساتھ والے کھوکھے سے
👇
تجزیہ
پہلی بیوی اور پہلی گاڑی عموماً تجربہ حاصل کرنے کے کام آتی ھیں ، پہلی گاڑی مزدا 1979 بھی ہو تو پجارو 2016 لگتی ہے۔اسٹئرنگ دونوں ھاتھوں سے پکڑا ہوتا ہے اور نظر سامنے سڑک پر ہوتی ہے ، پھر جوں جوں تجربے کار ہوتا ہے تو توجہ ڈرائیونگ سے ہٹ کر ساتھ سے گزرنے والی گاڑیوں کی طرف
👇
ہوجاتی ہے، اسٹیئرنگ بھی ایک ہاتھ کے تابع ہو جاتا ہے، ڈینٹ سارے پہلی گاڑی کو پڑتے ہیں جب ہمیں بیوی رکھنے کا سلیقہ آتا ہے تو سوچتے ہیں یہ بھی کوئی رکھنے کی چیز ہے؟
جب تک سمجھ لگتی ہے تین چار بچے پیدا ہو جاتے ہیں اور چخ چخ میں عمر کے کئی سال گزر جاتے ہیں ،بیوی ایزی ہو جاتی ہے
👇
جبکہ یہی وقت آنکھیں کھولنے کا ہوتا ہے ، وہ شوہر کو گھر کی مرغی سمجھتی ہے جبکہ وہ محلے کا مرغا ہوتا ہے۔عین جس وقت عورت بچوں کی فکر میں غرق ہوتی ہے ، اپنے آپ سے بھی غافل ہو جاتی ہے اسی دوران شوھر پر دوسری شادی کا دورہ پڑتا ہے
یہ دورہ 40 سے 50 سال کی عمر کے دوران پاگل پن کی حد تک
👇
ایک دفعہ مجنوں ایک جگہ پر بیٹھا لیلیٰ لیلیٰ کر رہا تھا۔ لیلیٰ نے اپنے خادم کو دُودھ دے کر بھیجا کہ مجنوں کو پہنچا آؤ۔ ایک شخص نے دیکھا کہ مجنوں کے لیے دُودھ جا رہا ہے، تو راستے میں بناوٹی مجنوں بن کر بیٹھ گیا۔ خادم نے مجنوں سمجھ کر اسی کو دُودھ دے دیا اور اس نے پی لیا۔
👇
خادم جب واپس پہنچا، تو لیلیٰ نے پوچھا: کیا ہوا؟ اس نے کہا مجنوں کو دے دیا اور اس نے پی لیا۔ دوسری دفعہ پھر بھیجا، پھر وہی بناوٹی مجنوں پی گیا۔ تیسرے دِن بھی وہی پی گیا۔ لیلیٰ نے سوچا کہ امتحان لینا چاہیے۔ چنانچہ خادم کو چُھری اور گلاس دے کر بھیجا اور کہا کہ
جاؤ، مجنوں سے کہنا کہ لیلیٰ بیمار ہے اور حکیم نے کہا ہے کہ مجنوں کا خون پئے گی تو صحت یاب ہو گی، لہٰذا لیلیٰ کو خون کی ضرورت ہے۔ اب خادم نے اس سے جا کر کہا۔ اس نے کہا کہ بھائی! میں تو دُودھ پینے والا مجنوں ہوں، خون دینے والا مجنوں نہیں
👇