استاد دامن کا ایک چاہنے والا اُن کے لیے دیسی گھی میں پکے دو پراٹھے لے کر آیا۔ استاد دامن نے پراٹھے ایک طرف رکھے اور اُٹھہ کر ایک بڑا سا پیالہ لیا جس میں چینی ڈالی۔ ایک پراٹھے کو توڑا اور پیالے میں ڈھیر ساری چُوری بنا لی۔ پھر اُٹھے اور کمرے کے چاروں کونوں میں وہ چُوری زمین پر
👇
ڈال دی اور واپس آ کر مہمان کو کہا کہ لو ایک پراٹھا مل کر کھائیں۔
مہمان پریشانی سے زمین پر گری چُوری پر نظریں مرکوز کیے تھا کہ اچانک بہت سے بڑے بڑے چوہے کونوں کھدروں سے نکلے اور تیزی سے چوری کھانے لگے۔ مہمان نے حیران ہو کر پوچھا کہ استادِ محترم یہ کیا؟
ہنس کر جواب دیا
👇
چُوری ہے اور چوہے کھا رہے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔ میرے کمرے کے چاروں طرف دیکھو۔ میری ساری عمر کی کمائی۔ میرا خزانہ میری کتابیں تمہیں ہر طرف نظر آئیں گی۔ چوہے خوش ذائقہ چوری کے عادی ہیں۔ ان کو اب کتابوں کے کاغذوں کا بے مزہ ذائقہ اچھا نہیں لگتا۔ اس لیے چوہوں کو چوری
👇
کھلانے کا فائدہ یہ ہے کہ میری کتابیں محفوظ ہیں۔میرا خزانہ محفوظ ہے۔ تم بھی اگر اپنے کسی بھی خزانے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو یاد رکھو اردگرد چوہوں کا خیال رہو۔ انہیں چوری ڈالتے رہو۔ سدا سکھی رہو گے۔
پھر کچھہ دیر خاموشی کے بعد استاد نے مہمان سے مخاطب ہو کر کہا ۔
👇
زندگی بھر ایک بات یاد رکھنا ، رب العزت زندگی میں جب بھی کبھی تمہیں کچھہ دے۔ اُس میں سے کچھہ حصہ اپنے اردگرد موجود چوہوں کو ضرور بانٹ دیا کرو ۔ کیونکہ چوہوں کی ہر اُس چیز پرنظر ہوتی ہے جو تمہارے پاس آتی ہے
👇
ہم نے اپنی حفاظت کے لیے چوہے پالے تھے انہیں ملک کی بہترین زمینیں، ٹیکس کا ایک بڑا حصہ کھانے کے لیے دیا، کہ ہمارا خزانہ، ہمارا ملک محفوظ رہے، لیکن - - - - - -
پھر بھی آپریشن رجیم چینج ہوا
#وہ_کون_تھا
جس کی بھوک چُوری سے نہیں، چوری سے ہی مٹتی ہے
ایک استاد کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کیلئے چھٹی پر جانا پڑا تو ایک نئے استاد کو اس کے بدلے ذمہ داری سونپ دی گئی
نئے استاد نے سبق کی تشریح کر چکنے کے بعد، ایک طالبعلم سے سوال پوچھا
اس طالب کے ارد گرد بیٹھے دوسرے سارے طلباء ہنس پڑے۔ استاد کو اس بلا سبب ہنسی پر بہت حیرت ہوئی، مگر اس
👇
نے ایک بات ضرور محسوس کر لی کہ کوئی نا کوئی وجہ ضرور ہوگی
طلباء کی نظروں، حرکات اور رویئے کا پیچھا کرتے آخرکار استاد نے یہ نکتہ پا لیا کہ یہ والا طالب ان کی نظروں میں نکما، احمق، پاگل اور غبی ہے، ہنسی انہیں اس بات پر آئی تھی کہ استاد نے سوال بھی پوچھا تو کسی پاگل سے ہی پوچھا
👇
جیسے ہی چھٹی ہوئی، سارے طلباء باہر جانے لگے تو استاد نے کسی طرح موقع پا کر اس طالب کو علیحگی میں روک لیا۔ اسے کاغذ پر ایک شعر لکھ کر دیتے ہوئے کہا، کل اسے ایسے یاد کر کے آنا جیسے تجھے اپنا نام یاد ہے، اور یہ بات کسی اور کو پتہ بھی نا چلنے پائے۔
دوسرے دن استاد نے کلاس میں جا کر
👇
ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہائش کے لئے ایک بڑا افسر آیا ، جو تازہ تازہ ریٹائر ہوا تھا
یہ بوڑھا بڑا ریٹائرڈ افسر حیران اور پریشان ہر شام سوسائٹی پارک میں گھومتا ، دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اور کسی سے بات نہیں کرتا تھا
ایک دن وہ شام کے وقت ایک بزرگ کے پاس
👇
باتیں کرنے کے لئے بیٹھ گیا اور پھر اس کے ساتھ تقریبا" روزانہ بیٹھنے لگا۔ اس کی گفتگو کا ہمیشہ ایک ہی موضوع رہتا تھا۔ "میں اتنا بڑا افسر تھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ پوچھ سکتا ہے ، یہاں میں مجبوری وغیرہ میں آیا ہوں۔"
اور وہ بزرگ اس کی باتیں سکون سے سنتے تھے
👇
ایک دن جب "ریٹائرڈ" افسر نے دوسرے ساتھی کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کی تو اس بزرگ نے بڑی انکساری کے ساتھ اسے جواب دے کر دانشمندی کی بات بتائی
اس نے وضاحت کی
"ریٹائرمنٹ کے بعد ہم سب فیوز بلب کی طرح ہو جاتے ہیں اس کی اب کوئی اہمیت نہیں رہتی کہ یہ بلب کتنی وولٹیج کا تھا
👇
"اگر کوئی امام بخاری کو دیکھنا چاہے تو اس لڑکے کو دیکھ لے"!
امام بخاری بچپن میں 70 ہزار احادیث کے حافظ تھے۔ ذیل کا یہ لڑکا بخاری مسلم ابو داؤد نسائی ترمذی ابن ماجہ سمیت 18 کتابوں میں حافظ بھی ہے۔
حدیث کی طرح ربیع کا نام، جس نے حدیث کو صحیح کہا، جس نے ضعیف کہا، حدیث
#1
میں کتاب کے کتنے حصے ہیں، حتیٰ کہ اس کے پاس حدیث کے نمبر بھی ہیں۔ وہ کتاب کے شروع سے آخر تک مسلسل کون سی حدیث کے بعد کون سی حدیث پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تو سمجھ میں آیا کہ قرآن حفظ کرنے سے زیادہ حدیث کو حفظ کرنا مشکل ہے۔ بنگلہ دیش میں ہزاروں قرآن حافظ ہونے کے باوجود
#2
حدیث کا ایک بھی حافظ نہیں۔
لیکن سرزمین عرب میں ایسے سینکڑوں حافظ ہیں۔ الحمدللہ۔
ان کو دیکھ کر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کیا ہے۔
ہمارے پچھلے امام کس طرح کی یادداشت رکھتے تھے! سبحان اللہ!!
#3
لیڈرز کی دس بڑی خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی اس کی کریڈیبلٹی ہوتی ہے
لوگ اسکے ایک لفظ پر نہ صرف یقین کرتے ہیں بلکہ اس پر ایمان کی حد تک اعتماد بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے‘ اٹھو‘ تو لوگ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو جاتے ہیں‘وہ کہتا ہے چل پڑو تو لوگ اسی وقت گھر بار‘ کاروبار اور زمین جائیداد
👇
چھوڑ کر چل پڑتے ہیں اور وہ کہتا ہے بیٹھ جاﺅ تو لوگ سانس روک کر
زمین پر جم کر بیٹھ جاتے ہیں۔ عوام کے دل میں لیڈر کا یقین اور اس کریڈیبلٹی کتنی بڑی چیز ہوتی ہے اس کا فیصلہ آپ قائداعظم محمد علی جناح کے اس واقعے سے لگا لیجئے۔
پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم گورنر جنرل تھے۔ انڈیا
👇
سے روزانہ ہزاروں کٹے پھٹے لوگ پاکستان پہنچتے تھے‘ ٹرینوں کی ٹرینیں نعشوں اور
زخمیوں سے بھری ہوتی تھیں‘ لوگ ریڑھوں پر‘ گڈوں پر اور پیدل بھی پاکستان پہنچ رہے تھے‘ یہ لوگ کیمپوں میں پڑے تھے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا‘ ان متاثرین میں ایک بڑی تعداد سرکاری ملازمین کی بھی تھی
👇
عربی ادب سے پاکستانی عوام اور اسٹیبلشمنٹ کی پچھتر سالہ داستان
ایک دفعہ ایک چالاک اور دھوکے باز شخص نے ایک گدھا چوری کیا اور اسے فروخت کرنے کے لیے قریبی بازار لے گیا
بازار جانے سے پہلے اس نے گدھے کے منہ میں اشرفیاں ٹھونس کر کپڑے سے اچھی طرح بند کر دیا
بازار کی پُر ہجوم جگہ
👇
پر کھڑے ہوکر اس نے گدھے کے منہ سے کپڑا ہٹا دیا، جیسے ہی کپڑا ہٹا گدھے کے منہ سے اشرفیاں نکل کر زمین پر گرنے لگیں۔ سکّوں کی جھنکار سن کر لوگ متوجہ ہوگئے، اور حیران ہوکر پوچھنے لگے کہ گدھے کے منہ سے سکّے وہ بھی سونے کے! یہ کیا ماجرا ہے؟
دھوکے باز کہنے لگا، بھائیو یہ ایک عجیب و
👇
غریب گدھا ہے اور میں اس سے بہت تنگ ہوں، میں جب بھی پریشان یا اداس ہوتا ہوں تو دن میں ایک بار اس کے منہ سے سونے کی اشرفیاں گرنے لگتیں ہیں۔ اب تو میرے گھر میں اشرفیاں رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچی، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اسے کوئی ضرورت مند اور جانوروں سے پیار کرنے والا تاجر خرید
👇
پروفیسر صاحب اور ان کی بیگم بچوں کی شادیاں کرلینے اور بیٹوں کو علیحدہ گھروں میں سیٹ کرلینے کے بعد کافی بور زندگی گذار رہے تھے
زندگی کے معمولات میں تبدیلی لانے کے لیے پروفیسر صاحب کی بیگم نے کہیں پکنک پر جانے کا پروگرام بنایا تو طے یہ پایا کہ مہینے بھر کا ٹوور رکھتےہیں مری
👇
جاتے ہیں
چونکہ پروفیسر صاحب کی بیگم کبھی کراچی سے باہر نہیں گئی تھیں، تو مری کے سفر کے پیشِ نظر انہوں نے پیکنگ میں بہت زیادہ وقت لگا دیا
کراچی کینٹ اسٹیشن پر پہنچ کر جب پروفیسر صاحب کار سے اترے تو سامان والی گاڑی کو اپنے پیچھے رکتے دیکھا- بیگم صاحبہ بہت متحرک تھیں
قلیوں سے
👇
سامان اتروا کر ویٹنگ لاؤنج میں رکھوانے تک انہوں نے پروفیسر صاحب کی ناگواری کو محسوس تو کیا مگر جھگڑے کا پروگرام محض اس وجہ سے منسوخ کرلیا کہ باقی لوگ بھی موجود ہیں- تماشہ بن جاۓ گا مگر یکایک پروفیسر صاحب نے پوچھ لیا
"فریج بھی ساتھ ہی لے آئی ہو کہ نہیں؟"
اور اشتعال کی شدید لہر
👇