لالچ ایک ذہنی کیفیت ہوتی ہے۔ اس کا انسان کی مالی حالت سے قطعی کوئی تعلق نہیں.
لالچ ترجیحات کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس چیز کا فیصلہ کہ مجھے سب سے پیاری چیز پیسے کا حصول ہے، چاہے جیسے بھی آئے ۔ پھر کسی انسان اور رشتے کا تقدس اور احترام نہیں رہتا ، کسی کی مجبوری اور بےبسی آپ کے دل میں
رحم نہیں ڈال سکتی۔ کوئی بھی ذریعہ آمدن غلط نہیں رہتا۔
انسان باؤلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ کیونکہ وہ شخص خود ہر وقت دوسروں کے خلاف منصوبہ بندی میں لگا ہوتا ہے ، تو اس کو یقین ہو جاتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اسی طرح ہی اس کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور اسی کی طرح ہی بے حد لالچی ہیں۔
کیا ہم نے ایسے واقعات سن نہیں رکھے کہ ایک شخص نے اپنے باپ کو جائیداد کی لالچ میں مار دیا۔ بھائی یا بھتیجے کے حصے کو ہڑپ کر گیا۔ کتنی ہی جوان زندگیاں زمینوں کے تنازعوں میں دفن ہوچکیں۔ کتنے ہی خون کے رشتے خون کی ندیاں بہا چکے۔ کبھی سوچا، یہ ظالم لوگ کہاں سے آجاتے اور
ایسے ہر واقعے کو سن کر ہم کیا کہتے ہیں
" ہم ایسا بلکل نہیں کریں گے"
لیکن یہ تو گھر گھر کی کہانی ہے۔ اور آپ نے بھی ایسا ہی کرنا ہے یا شاید کربھی چکے ہوں گے اور کچھ غلط محسوس بھی نہیں ہوا ہوگا۔ جی ایسا ہی ہے۔
کیونکہ لالچ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے شروع ہوتی ہے۔ جب آپ کسی سے صرف اس لئے تعلق رکھتے ہیں کہ اس سے مالی فائدہ ہوگا۔ صرف اس بندے کو اہمیت دیتے ہیں جو آپ کو نفع دیتا ہو۔ جو رشتہ یا انسان آپ کا محتاج ہو، اس کو آپ یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جب آپ کی نظر انسان کو، رشتے کو،
تعلق کو نہیں دیکھتی ، صرف اس سے مالی فائدے یا نقصان کو دیکھتی ہے۔ یہ شروعات ہوتی ہے۔ یہ ترجیحات کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ شخص سب کچھ کر گزرتا ہے اور کچھ غلط محسوس تک بھی نہیں ہوتا۔ ایسا انسان زندہ تو ہوتا ہے پر اندر سے کب کا فوت ہوچکا ہوتا ہے۔
انسانوں کی بستی میں جینے کا طریقہ بہت آسان ہے لیکن پتہ نہیں انسان کیوں بھٹک جاتا ہے۔ جو آپ کا حصہ ہے ، وہ آپ کا حق ہے۔ اسے چھین کر بھی لینا پڑے تو کر گزریں لیکن جو کسی دوسرے کا حق اور حصہ ہے، اسکو بھی حاصل کر لینے کی خواہش ہی کیوں کرے کوئی۔
یہاں سے ہی انسان کی لالچ اور بربادی کا آغاز ہوتا ہے۔اور اس لالچ کا پیٹ کبھی نہیں بھر سکتا۔