بہت اچھی تحریر ہے
شوہر کے حقوق سے انکار بھی نہیں، اور شوہر کے والدین سے حسنِ سلوک واقعی مستحسن عمل ہے
مگر ایک سوال
یہ جو کہتے ہیں کہ بیوی اپنے فرائض سے زیادہ کام نہیں کرتی تو شوہر دوسری شادی کرے اور اس سے اپنے والدین کی خدمت کروائے تو کیا گارنٹی ہے کہ دوسری بیوی بے دام کی
👇
اور یہی لوگ کہتے ہیں کہ شوہر کی آمدنی میں گزارا کرنا عورت پر فرض ہے، وہ تنگی، ترشی میں اپنے شوہر کا ساتھ دے،
وہ خواتین کو یہ مشورہ کیوں نہیں دیتے کہ جو شوہر تمہیں آسائشات نہیں مہیا کر سکتا، تمہیں حق ہے کہ اسے چھوڑ کر کسی امیر آدمی سے شادی کر لو
دوسری شادی کا
👇
حق اگر مرد کے پاس ہے تو خلع کا حق عورت کے پاس بھی تو ہے
اس کے لیے کنڈیشنز کیوں لگاتے ہیں کہ
شوہر ظالم ہو تو ہی خلع لے سکتے ہیں
شوہر دل کو نہ بھائے تب بھی خلع کا حق ہے عورت کے پاس
حیرت انگیز طور پر یہی مولانا جو بیوی کو اسلام کے طے شدہ فرائض سے بڑھ کر کام نہ کرنے پر شوہر کو
👇
دوسری شادی کا مشورہ دیتے ہیں وہی شوہر کی کم آمدنی، کم صورتی، کج روی حتی کہ بے راہ روی پر بھی عورت کو صبر کا مشورہ دیتے ہیں
فیصل آباد میں اکثر ایسے ہی جواب سننےکو ملتے ہیں
ایک آدمی نے گنڈیری والے سے پوچھاکہ
" گنڈیریاں کی پا لائیاں ای"
وہ کہتا 60 روپئے کلو
آدمی حیران ہو کے کیوں قیمے آلیاں نے
ایک فیصل آبادی نے بھوانہ بازار سے گزرتے ہوئے دکان والوں سے پوچھا
"ہور فیر شیخ صاب بیٹھے او"
وہ آگےسے کہتے
👇
"نئیں پُت فٹ بال کھیل رئے آں، تُو وی آجا"
ایک فیصل آبادی رکشہ والے کی گدھا گاڑی والے سے ٹکر ہوگئی۔ وہ بہت غصے میں نیچے اتر کے کہتا
" اپنی اَکھاں دے سیل پوا"
اور گدھے کی طرف اشارہ کر کے کہتا
"تے ایس پیو نوں وی عینکاں لوا"
ایک دفعہ میرے دوست نے رکشے والے سے پوچھا
👇
" پاجی ریگل روڈ دے کِنے پیسے"
وہ کہتا ساڑھے تین سو۔ دوست نے ہاتھ کے اشارے سے کہا
"لے آ تے ریگل روڈ اے"
رکشہ والا کہتا
"پاجی ہاتھ تھلے کرلو کِدرے(ریگل روڈ نال )لگ نا جائے"
ایک لاہوری نے فیصل آبادی سے پوچھا
" سر یہاں سے اچھا کھانا کہاں سے ملتا ھے"
فیصل آبادی
👇
"پرسوں نا میری خالہ آئیں اور شام کو پاس بٹھا کر میرے ہاتھ میں انگوٹھی ڈال دی میری امی نے شکرادا کیا"
"کل تائی اماں ہمارے گھر آئیں اور میرےسر پہ دوپٹہ ڈالا امی ابا اتنےفکر مند تھے کہ وہ اتنی دیر کیوں کر رہی ہیں؟"
👇
“پھوپھی نے ہاتھ پہ پیسے رکھے اور ساتھ میں مٹھائی کا ٹوکرا۔امی کے وظیفے کام آ ہی گئے”
“آج کل روزانہ ماسی آتی ہے ہمارے گھر ، ہاتھ میں ڈھیروں تصویریں لے کر، امی کا تو پریشانی سے برا حال ہے”
“ ہاں میری امی نے بھی کل ہی دو ماسیوں کو میری تصویریں دی ہیں”
منہ لال، چمکتی آنکھیں ،
👇
فخریہ لہجہ، اپنی قدروقیمت جتانے والا انداز، سہلیوں کی واہ واہ، تصویروں پہ سب کے جھکے سر، ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ جاتی البم، انگوٹھی کی زیارت کرنے کی تمنا، دولہا کا نام لے کر چھیڑنے کی کوشش
یہ مناظر ہم میں سے بہت سوں کے لیے اجنبی نہیں ہوں گے۔ ایسا ہی ہوا کرتا تھا، اب بھی ہوتا
👇
میں ایک نئے کرایہ کے مکان میں نئی نئی شفٹ ہوئی تو کسی سے سلام دعا نہ تھی میں ویسے بھی سوشل نہیں ہوں
چند دن گزرے تو ایک دن دروازے پر دستک ہوئی
میں نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک بڑی پیاری سی لڑکی ،جو اپنے ہار سنگھار سے نئی نئی شادی شدہ لگ رہی تھی، نظر آئی، ہاتھ میں
👇
ٹرے تھی جس پر کپڑا ڈھکا ہوا تھا۔ میں نے اندر آنے کی دعوت تھی تو باتیں کرتی ہوئی اندر آگئی
کہنے لگی ہم آپ کے محلہ دار ہیں۔ وہ کونے والا گھر ہمارا ہے۔ میری ابھی کچھ دن پہلے شادی ہوئی ہے۔ پھر جلدی جلدی اپنے سب گھر والوں کے متعلق بتانے لگی ۔ بولنے کی شوقین لگتی تھی یا نئی نئی
👇
شادی کا خمار تھا۔۔خیر جو بھی تھا وہ نان اسٹاپ کئی منٹ بولتی رہی اور میں سنتی رہی ۔پھر میرے ہاتھ میں ٹرے دیکر بولی کہ آج ہمارے گھر محفل میلاد تھی ۔ آپ بھی درود شریف پڑھ دیجئیے گا اور یہ میں آپکے لیے لائی ہوں ۔ واپس بھجوا دیجیئے گا۔ میں نے خوشی خوشی ٹرے پکڑ لی
اسکے جانے کے بعد
👇
مجھے امریکہ میں ایک جگہ پر بتایا گیا کہ یہاں ایک خاتون ہے جو پہلے یہودی مذہب سے تعلق رکھتی تھی اور اب مسلمان ہو چکی ہے وہ بڑی پکی مسلمان ہے اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بہت خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھتی ہے۔ جب وہ نماز پڑھتی ہے تو اس میں ڈوب ہی
👇
جاتی ہے ۔ وہ اہتمام سے وضو کرتی ہے
پھر وہ اپنے خاص کپڑے پہنتی ہے جو اس نے نماز کیلئے بناۓ ہوۓ ہیں، پھر وہ اس قدر خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھتی ہے حتی کہ مسلمان عورتیں اسکو دیکھ کر شرماجاتی ہیں اور صیح معنوں میں دیندار بنے کی کوشش کرتی ہیں
مجھے بتایا گیا کہ وہ کچھ مسائل پوچھنا
👇
چاہتی ہے ۔ میں نے کہا بہت اچھا! چنانچہ وہ پردے کےپیچھے بیٹھ کر انگلش میں گفتگو کرنے لگی ۔ وہ مسائل پوچھتی رہی ۔اس نے تقریبا دو گھنٹے اسلام سے متعلق بڑے اچھے اچھے سوال کئے ۔ واقعی اس کے دل میں علم حاصل کرنے کی طلب تھی
گفتگو کے دوران میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کونسا لمحہ تھا جب آپ
👇
قدیم نوادرات جمع کرنے کی شوقین ایک خاتون نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی دکان کے کاؤنٹر پر بلی کو جس پیالے میں دودھ پلا رہا ہے۔ اس چینی کے قدیم پیالے کی قیمت تیس ہزار ڈالر سے کم نہیں۔ خاتون نے سوچا کہ شاید یہ شخص اس پیالے کی قیمت سے ناواقف ہے
اس خاتون نے اپنے طور پر بے حد چالاکی سے
👇
کام لیتے ہوئے کہا۔ جناب کیا آپ یہ بلی فروخت کرنا پسند کریں گے؟ تو اس شخص نے کہا۔ یہ میری پالتو بلی ہے، پھر بھی آپ کو یہ اتنی ہی پسند ہے تو پچاس ڈالر میں خرید لیجیے۔
خاتون نے فوراً پچاس ڈالر نکال کر اس شخص کو دیے اور بلی خرید لی، لیکن جاتے جاتے اس دکان دار سے کہا۔ میرا خیال ہے
👇
کہ اب یہ پیالہ آپ کے کسی کام کا نہیں رہا۔ برائے کرم اسے بھی مجھے دے دیجیے۔ میں اس پیالے میں بلی کو دودھ پلایا کروں گی۔
دکان دار نے کہا۔ خاتون! میں آپ کو یہ پیالہ نہیں دے سکتا، کیونکہ اس پیالے کو دکھا کر اب تک 300 بلیاں فروخت کرچکا ہوں
رات کا آخری پہر تھا، سردی تھی کہ ھڈیوں کے اندر تک گھسی جارھی تھی۔ بارش بھی اتنی تیز تھی جیسے آج اگلی پچھلی کسر نکال کر رھے گی، میں اپنی کار میں دوسرے شہر کے ایک کاروباری دورے سے واپس کا آرھا تھا اور کار کا ھیٹر چلنے کے باوجود میں سردی محسوس کر رھا تھا، دل میں ایک ھی خواہش تھی
👇
که بس جلد از جلد گھر پہنچ کر بستر میں گھس کر سو جاؤں۔ مجھے اس وقت لمبل اور بستر بھی سب سے بڑی نعمت لگ رھے تھے، سڑکیں بالکل سنسان تھیں حتی کہ کوئی جانور بھی نظر نہیں آرھا تھا
لوگ اس سرد موسم میں اپنے گرم بستروں میں دبکے ھوئے تھے ، جیسے ھی میں نے کار
اپنی گلی میں موڑی مجھے کار
👇
کی روشنی میں بھیگتی بارش میں ایک سایہ نظر آیا، اس نے بارش سے بچنے کے لیے سر پر پلاسٹک کے تھیلے جیسا کچھ اوڑھا ھوا تھا اور وہ گلی میں کھڑے پانی سے بچتا بچاتا آھستہ آھستہ چل رھا تھا،مجھے شدید حیرانی ہوئی کہ اس موسم میں بھی کوئی شخص اس وقت باھر نکل سکتا ھے
اور مجھے اُس پر ترس آیا
👇