جس پتھر کی تصویر آپ دیکھ رہے ہیں اس کو پنجابی میں "چانواں" اردو میں "جھانواں" اور شاید انگلش میں Scrubber کہتے ہیں۔
یہ پتھر پاؤں کی میل اتارنے کیلیے استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں فارغ اور بےوقوف شخص کو بھی جھانواں بولا جاتا ہے۔
جھانواں بہت ہی کم قیمت چیز ہے۔ پچاس یا سو روپے 1/6
میں اچھا خاصا بڑا جھانواں مل جاتا ہے۔
جھانواں کھردرا پتھر ہے۔ یہ تراش خراش یعنی grooming کے عمل سے نہیں گزرا۔ اگر اس کی گرومنگ ہوئی ہوتی تو یہ 50 روپے کا نہ بکتا۔ یہ لوگوں کے پاؤں کی میل اتارنے کیلیے استعمال نہ ہوتا۔ اور اس کا مقام واش روم نہ ہوتا۔
2/6
جو لوگ grooming کے عمل سے نہیں گزرتے اور وقت کے ساتھ اپنے آپ کو polish نہیں کرتے وہ بھی جھانوے کی طرح بہت سستے بکتے ہیں۔ معاشرے میں انکی کوئی قدر نہیں ہوتی۔
ایسے لوگ جلسے اور جلوسوں میں سیاست دانوں کی کرپشن اور نااہلی کی میل اتارنے کیلیے استعمال ہوتے ہیں۔
3/6
ایسے لوگ "کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے" اور "آج بھی بھٹو زندہ ہے" اور "تبدیلی آئی ہے"اور کبھی شیر شیر کے نعرے مروانے کیلیے استعمال ہوتے ہیں۔ جلسے میں جب زیادہ جھانوے آتے ہیں تو جلسہ زیادہ کامیاب ہوتا ہے اور جب کم جھانوے آتے ہیں تو کم کامیاب ہوتا ہے۔
4/6
انٹرنیٹ عام ہوگیا ہے تو جھانوے ترقی کرکے digital جھانوے بن گئے ہیں۔ سارا دن ڈیجیٹل جھانوے انٹرنیٹ پر بیٹھ کر بدعنوان اور نا اہل سیاست دانوں کو اور تفرقہ بازی کی دکانیں چلانے والوں کا دفاع کرتے ہیں۔
5/6
وقت بہت قیمتی چیز ہے, اللہ تعالی قرآن میں وقت کی قسم کھاتا ہے, جس نے وقت کو برباد کیا وہ برباد ہوگا
اپنے آپ کو groom کریں ہر لمحے اپنے ہنر کو پالش کریں۔ نئے ہنر سیکھیں۔ انٹرنیٹ کا مثبت استعمال کریں۔ 6/6 منقول #اپنی_زبان_اردو #اپنی_محفل
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
ملا نصیرالدین صاحب کے پاس ایک لڑکا آیا اور ان سے پوچھا:
ملا صاحب میرے والد کی آج جمعہ کے مبارک دن وفات ہوئی ہے۔ اگلے جہان میں اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟
ملا صاحب نے پوچھا: کیا آپ کے والد صاحب نماز روزے کے پابند تھے؟
لڑکے نے کہا: نا وہ نماز پڑھتے تھے,
1/5
نا روزے رکھتے تھے, مگر خوش قسمتی سے جمعہ کے دن فوت ہوئے ہیں.
ملا نے دریافت کیا: عیاشی تو نہیں کرتے تھے؟
لڑکے نے بتایا: عام طور پر تو نہیں, مگر جس روز رشوت کی رقم زیادہ مل جاتی، اُس روز جوا بھی کھیل لیتے، عیاشی بھی کرلیتے۔ اس کے باوجود انھیں جمعہ کے مقدس دن وفات پانے کا شرف
2/5
حاصل ہوا ہے.
ملا : کچھ صدقہ خیرات بھی کرتے تھے؟
لڑکا: جی نہیں، فقیروں کو بُری طرح پھٹکارکر بھگا دیتے تھے کہ شرم نہیں آتی مانگتے ہوئے؟ مگر الحمدللہ فوت جمعہ کے دن ہوئے.
ملا: عزیزوں، رشتے داروں اور محلے والوں سے اُن کا سلوک کیسا تھا؟
یہ سوال سن کر لڑکا جھلا گیا
کہنے لگا:
3/5
جتنا کیمرہ مینوں نے شادیوں پر دلہا دلہن کو ذلیل کر رکھا ہے شاید ہی حکومت نے کبھی عوام کو کیا ہو. آجکل اسٹیج کی سیڑھیوں پر جو منورنجن ہوتا ہے اس کے تو کیا ہی کہنے، دلہا بیچارہ ہاتھ پکڑے جھک کے کھڑا ہوتا ہے اور دلہنیا کا ایک پاوں اسٹیج پر دوسرا نچلی
1/7
سیڑھی پر ہوتا ہے فلمانے کے چکر میں دلہن کا پاوں وہیں پہ بھاری ہوجاتا ہے اور دلہے کا دماغ.
پہلے پہل دلہن اسٹیج پہ آتی تھی تو دلہا استقبال کرتا تھا، پھر ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھانے کی رسم شروع ہوئی، اب دلہا چل کر اسٹیج کے کنارے دلہن کو آدھا گھنٹہ سیڑھیوں پہ کھڑا رکھتا ہے
2/7
کیمرہ مین بندر اور بندریا سمجھ کے ڈگڈگی پہ نچاتا رہتا ہے۔
برائیًڈل روم میں لانگ جمپ کے علاوہ یہ دلہن سے سارے اسٹیپ کرواتا ہے پانچ طرح سے مسکرائیں! اب اوپر دیکھیں، دیوار سے لپٹ جائیں، سانس بند کر کے گول چکر کاٹیں، جوتا ہاتھ میں پکڑ کر منہ کے قریب کریں،
3/7
کہتے ہیں کانگو کی آزادی کے بعد فرانس نے کانگو میں اپنا سفیر تعینات کیا.
ایک دن فرانسیسی سفیر شکار کی تلاش میں کانگو کے جنگلات میں نکل گیا جنگل میں چلتے چلتے فرانسیسی سفیر کو دور سے کچھ لوگ نظر آئے, وہ سمجھا شاید میرے استقبال کے لئے یوں کھڑے ہیں
1/5
قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک آدم خور قبیلہ ہے. سفیر کو پکڑ کر انہوں نے ذبح کیا اسکی کڑاہی بنائی اور جنگل میں منگل کر دیا.
فرانس اس واقعے پر سخت برہم ہوا اور کانگو سے مطالبہ کیا کہ سفیر کے ورثاء کو کئی ملین ڈالر خون بہا ادا کرے،
کانگو کی حکومت سر پکڑ کر بیٹھ گئی
2/5
خزانہ خالی تھا، ملک میں غربت و قحط سالی تھی، بہرحال کانگو کی حکومت نے فرانس کو ایک خط لکھا جس کی عبارت درج ذیل تھی.
"کانگو کی حکومت محترم سفیر کے ساتھ پیش آئے واقعے پر سخت نادم ہے، چونکہ ہمارا ملک خون بہا ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے لہذا غور و فکر کے بعد ہم آپ کے سامنے
3/5
انڈے سے بہتر تھا اذان پر مرتا:
ایک شخص نے ایک مرغا پالا تھا۔ ایک بار اس نے مرغا ذبح کرنا چاہا۔ مالک نے مرغے کو ذبح کرنے کا کوئی بہانا سوچا اور مرغے سے کہا کہ کل سے تم نے آذان نہیں دینی ورنہ ذبح کردوں گا۔ مرغے نے کہا ٹھیک ہے آقا جو آپ کی مرضی! صبح جونہی مرغے کی آذان کا وقت
1/5
ہوا تو مالک نے دیکھا کہ مرغے نے آذان تو نہیں دی لیکن حسبِ عادت اپنے پروں کو زور زور سے پھڑپھڑایا۔ مالک نے اگلا فرمان جاری کیا کہ کل سے تم نے پر بھی نہیں مارنے ورنہ ذبح کردوں گا۔ اگلے دن صبح آذان کے وقت مرغے نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پر تو نہیں ہلائے لیکن عادت سے مجبوری کے تحت
2/5
گردن کو لمبا کرکے اوپر اٹھایا۔ مالک نے اگلا حکم دیا کہ کل سے گردن بھی نہیں ہلنی چاہیے، اگلے دن آذان کے وقت مرغا بلکل مرغی بن کر خاموش بیٹھا رہا۔ مالک نے سوچا یہ تو بات نہیں بنی۔ اب کے بار مالک نے بھی ایک ایسی بات سوچی جو واقعی مرغے بے چارے کی بس کی بات نہیں تھی۔
3/5
غیبی مدد نہ اسپین کے وقت آئی, نہ خلافت عثمانیہ کو بچانے آئی, نہ اسرائیل کا قیام روکنے کے لئے آئی, نہ بابری مسجد کے وقت آئی, نہ عراق اور شام کے وقت آئی, نہ میانمار کے وقت آئی, نہ گجرات کے وقت آئی، نہ کشمیر کے لئے آئی۔
پھر بھی گھروں اور مسجدوں میں بیٹھ کر غیبی مدد کی صدا؟
1/5
غیبی مدد جنگ بدر میں آئی۔ جب 1000 کے مقابلے میں 313 میدانِ جنگ میں اُترے۔
غیبی مدد جنگ خندق میں آئی جب اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پّیٹ پر 2 پتھر باندھے اور خود خندق کھودی اور میدانِ جنگ میں اُترے۔
2/5
دنیا کا قیمتی لباس پہن کر, مال و زر جمع کر کے, لگژری ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھ کر, جُھک جُھک کر لوگوں کے ہاتھ چومنے کی خواہش لے کر, لوگوں کی واہ واہ کی ہنکار کی خواہشات لئے مسجدوں کے ممبروں پر بیٹھ کر بددعائیں کر کے غیبی مدد کے منتظر؟
3/5
بادشاہ نے ایک درویش سے کہا, "مانگو کیا مانگتے ہو؟" درویش نے اپنا کشکول آگے بڑھا دیا اور عاجزی سے بولا حضور! "صرف میرا کشکول بھردیں". بادشاہ نے فوراً اپنے گلے سے ہار اتارے, انگوٹھیاں اتاریں, جیب سے سونے چاندی کی اشرفیاں نکالیں اور درویش کے کشکول میں ڈالدیں, لیکن کشکول بڑا تھا
1/4
اور مال ومتاع کم لھذا بادشاہ نے فوراً خزانے کے منتظم کو بلایا,نےظم ہیرے جواہرات کی بوری لیکر حاضر ہؤا, بادشاہ نے پوری بوری اُلٹ دی لیکن جوں جوں جواہرات کشکول میں گرتے گئے کشکول بڑا ہوتا چلا گیا یہاں تک کے جواہرات غائب ہوگئے. بادشاہ کو بیعزّتی کا احساس ہؤا تو اس نے خزانوں کے
2/4
منہ کھول دیئے, لیکن کشکول بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا. خزانے کے بعد وزراء اور درباریوں کی تجوریوں کی باری آئی لیکن کشکول نہ بھر سکا. ایک ایک کرکے سارے شہر کا مال ومتاع ڈال دیا گیا لیکن کشکول خالی کا خالی ہی رہا. آخر بادشاہ ہار گیا اور درویش جیت گیا. درویش نے بادشاہ کے
3/4