Saira Wasim, a gifted artist from Pakistan, now based in the United States, has continued to depict the state of her homeland (and its position in the world) through a candid and allegorical lens for the past decade and a half. She has, rather remarkably, taken up (1/13)
taboo themes such as the naked hypocrisy of Pakistan’s leaders, the mullahs, and ‘honour’ killings of women.
Wasim graduated from the National College of Arts in 1999 and not surprisingly found international recognition soon enough. In 2003, her works were featured in (2/13)
a show at the #Whitney#Museum of American Art. In the same year, she undertook a residency at the #Vermont#Studio Center. Since then the US has been her home.
Wasim’s artistic expression is also influenced by her personal story. An Ahmadi by faith, she has (3/13)
experienced persecution and knows the intricacies of marginalization, and the hysteria for a puritanical patriotism. Her monumental work ‘Patriotism’ set the trend of making art a powerful mode of resistance. This was before she migrated to the US. The miniature (4/13)
challenged the construction of religious nationalism by depicting a motely crew of Mullahs – of almost all creeds and varieties – waging jihad, and a group of armed young men following their creed.
Wasim therefore is in exile, a marginalized citizen of Pakistan and of (5/13)
course a woman who has come a long way. She had to challenge family conventions to become an artist. These layers of exclusion and struggle are evident from her choice of themes and ability to unpack exploitative coatings of contemporary politics and society.
Throughout (6/13)
her work,Wasim has employed allegorical references, almost like a traditional Persian and Urdu poet. But she told me that her familiarity with Western art gave her the thought to fuse ideas. Her meticulo
Wasim plays on the theme of identity as an American, Pakistani (7/13)
and Muslim. This painting is a reinterpretation of the sixteenth-century Mughal painting, ‘Nasrat-e-Jang’ (victorious in War). The figure ‘Khan Dawan’ participated in and led major battles of his time to protect his country but spent much his life in spreading peace and (8/13)
shunning wars. The painting hints at American-Muslims’ patriotism and is also a humble plea to the ‘social injustice’, as Wasim told me.
For me
Wasim’s art transmutes into a powerful form of resistance to the mainstream ideology recycled by Pakistan’s power elites. The (9/13)
key question is, could she have done all of this while in Pakistan? It is true that many artists are doing that in Pakistan too. Imran Qureshi for instance has been producing brilliant critiques of society and its cultural symbols and Rashid Rana has taken his (10/13)
commentary to the global level by directly confronting globalization and its uneasy relationship with Pakistan.
Yet a #blasphemy case against an #art magazine, its editors and writers and of course its painters, hangs in the air. Artistic freedoms in #Pakistan are (11/13)
curtailed but also perennially resisted. Not unlike its history and genesis, Pakistan’s future remains open to interpretation. One thing is clear: the creative spirit of Pakistanis, at home and abroad, is not giving up. Not anytime soon.
Being Pakistani
Raza Rumi
(12/13)
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
میں نے رائیونڈ کے چار اجتماعات میں شرکت کی ہے، 2004 سے 2008 تک، اس زمانے میں پورے پاکستان کا ایک ہی اجتماع ہوتا تھا دو دو صوبے الگ نہیں ہوئے تھے. چار سال کے دوران میں نے کیا دیکھا، آپ بھی دیکھیے.
تبلیغی جماعت لوگوں کو اسلام کی طرف بلا تو رہی ہے لیکن خود تبلیغی جماعت (1/11)
کے پاس بھی اسلام نہیں ہے.
اجتماع کے تیسرے روز آپ کو ہر طرف افراتفری اور لوٹ کھسوٹ نظر آئے گی، پنڈال نسوار اور پان کی پیک سے بھرا ہو گا، آس پاس کے کھیتوں کو اگلے چھے مہینے کی کھاد مل چکی ہو گی، ہر طرف بدبو اور تعفن دھول اور مٹی، ایسے میں ہر کوئی گاڑی میں پہلے سوار ہو کر (2/11)
زیادہ سے زیادہ جگہ گھیرنا چاہتا ہے، لائن بنانے کا اور اپنی باری کا انتظار کرنے کا تصور ہی نہیں ہے، بس کی گنجائش سے زیادہ لوگ چھت پر چڑھ جاتے ہیں.
موٹر وے پاکستان کی بہترین سڑک ہے لیکن اس روز موٹروے پولیس بھی کچھ نہیں کر سکتی، یہ اوور لوڈ بسیں موٹروے کا ٹریفک نظام درہم (3/11)
تبلیغی مذہبی قیادت ان میں سے کسی مسئلے پر زیادہ تفصیل سے اظہار خیال نہیں کرتی ۔ تبلیغی اجتماعات میں مسائل کا ذکر ایک اجمالی انداز سے اس طرح آتا ہے (1/20)
کہ معاشرہ کی حالت اچھی نہیں اور دعا کی جاتی ہے کہ اللہ ہمارے عوام کی تکلیفیں دور کرے اور مسلمانوں کو دنیا میں سرفراز فرمائے ۔
تاہم عملی طور پر صرف ایک مسئلے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے لئے جیش اور لشکر تشکیل دیئے جاتے ہیں: یعنی تبلیغ دین اور دینی عقائد کی اصلاح ۔ (2/20)
اس کام کے لئے ملک بھر میں اور ساری دنیا میں سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے ان جماعتوں کے مخلص پیروکار سرکاری و غیر سرکاری دفاتر سے چھٹیاں لے کر، اپنے کام کاج ، خاندانی مسائل سے بے نیاز ہو کر دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کے دائرے میں لانے کے لئے نکلتے ہیں۔
علماء نے اسلامی ریاست کو جمہوری شکل دینے کے لئے اس بات کی کوشش کی کہ جدید اصطلاحات کا استعمال کیا جائے، مثلاً پارلیمینٹ یا اسمبلی کو شوری کہا گیا، امیر آج کل کا صدر بن گیا ارباب حل و عقد مشیر ہو گئے اور اجماع کو عوامی رائے کا نام دے دیا گیا یہ سب اس لئے کیا گیا تا کہ (1/15)
یہ ثابت کیا جائے کہ ان کی نظروں میں جو اسلامی ریاست کا خاکہ ہے اس کا جدید سیاسی روایات سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ آج کل کی جدید قومی ریاست میں ایک قوم کی تشکیل زبان تاریخ اور جغرافیائی حدود میں رہنے پر ہوتی ہے، اور اس میں ہر شہری کو برابر کے حقوق ملتے ہیں، اور یہ اس کا حق (2/15)
ہوتا ہے کہ وہ ریاست اور معاشرہ کے امور میں مکمل طور پر حصہ لے۔ اس کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی تعصب نہیں برتا جاتا۔ اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے جسٹس منیر نے علماء سے اس سوال کو پوچھا کہ وہ اسلامی ریاست میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ اور ان کا سیاسی و (3/15)
آج 22 اکتوبر ہے، جب قبائلیوں کو استعمال کر کے کشمیر پر یلغار کے ذریعے کشمیر کی تقسیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔۔
میرا دادا بھی اس جیہاد نامی یلغار کا حصہ تھا بلکہ پانچ سو نوجوانوں کی سربراہی کر رہا تھا جو وہ پاکستان و افغانستان کے قبائل سے اکٹھے کر کے ساتھ لایا تھا۔۔
دادا (1/12)
جی کو کشمیر سے لوٹ مار کے علاوہ پاکستانی فوج کی طرف سے بھی مراعات ملی تھیں جن میں سیالکوٹ میں کچھ سو کنال زمین اور پاکستانی ڈومیسائل یعنی پاکستانی شہریت شامل تھے۔۔
جب کشمیر کے جیہاد کا اعلان ہوا تو میرا دادا اس وقت ضلع اٹک کے حسن ابدال شہر میں موجود تھا اور علماء، فوج (2/12)
اور حکومت کی طرف سے اعلانات اور پروپیگنڈہ سن کر پاکستانی اور افغان قبائل کی جانب نکل کھڑا ہوا، وہاں سے نوجوان اکٹھے کر کے پنڈی گیا اور وہاں سے پاکستانی فوج سے اسلحہ، بندوقیں وغیرہ، وصول کیں اور کشمیر کو نکل پڑے۔۔
دادا جی بتاتے تھے کہ ان کا جتھا اگلی صفوں میں تھا اور وہ (3/12)
ہم نے دولے شاہ کے چوہوں کی جو نسل تیار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، اور جس طرح بنیاد پرستی کی پنیری ہر سطح پر لگائی، اب اُس کی خالص ترین پیداواروں اور ثمرات سے سامنا ہے۔ آج سے بیس سال پہلے تک پھر بھی کچھ توازن تھا، اب تو سارا عمرانی
1/6
ڈھانچہ ہی عمرانی بن گیا ہے۔
ایک mob سائیکالوجی بہت گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے کہ جو ہم سے مختلف ہے وہ غلط ہے، اور اُسے ہر طرح کی سزا دینا ہمارا فرض ہے۔ چونکہ ساری دنیا ہم سے مختلف ہے، لہٰذا اُسے ’’راہِ راست‘‘ پر لانا
2/6
ہمارا کام ہے۔ ہمیں غصہ آتا ہے کہ ہم جیسے نیک اور پاک اور سچے لوگ پیدا ہو چکے ہیں اور لوگوں کو اُس کی خبر تک نہیں! زیادہ تر لوگ اپنے اپنے آئین اور قانون لیے بیٹھے ہیں، جس پر وہ بات کرنے کو صرف تبھی تیار ہوتے ہیں جب اُنھیں درست مان لیا گیا ہے۔
اگر کوئی اختلافی یا تھوڑا بدلا
3/6
لیاقت بلوچ کے نام خط بیٹے کی کینیڈا سے پی ایچ ڈی پر مبارکباد
بلوچ صاحب سلام
گذشتہ روز آپ نے اپنے بیٹے احمد جبران بلوچ کے بارے میں خوشی کے مارے تین ٹویٹ کئے۔ آپ کے ٹویٹ سے معلوم ہوا کہ آپ کے صاحبزادی احمد جبران بلوچ صاحب نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے پی ایچ ڈی کر لی ہے۔
1/12
ڈاکٹر صاحب کو بہت زیادہ مبارک ہو۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ کو بھی بہت مبارک ہو۔ مغرب کی ایک اچھی جامعہ سے پی ایچ ڈی کرنا ایک اعزاز کی بات ہے گو یہ اعزاز پاکستان کے صرف مراعات یافتہ افراد ہی حاصل کر سکتے ہیں اور محنت کش طبقے کے لوگ تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے)۔
آپ کے بیٹے بارے
2/12
معلوم ہوا تو قاضی حسین احمد بھی یاد آئے۔ ان کے صاحبزادے نے امریکہ سے عین اس وقت ڈگری لی جب جہاد کشمیر عروج پر تھا۔ لاہور میں جگہ جگہ جماعت اسلامی کے سٹال لگے ہوئے تھے جہاں نوجوانوں کو سری نگر شہادت کے لئے روانہ کرنے کا کام کیا جاتا تھا۔