ایک دن ایک حکمران اپنے محل کی طرف لوٹ رہا تھا جب اس نے محل کے باہر ایک سیب فروش کو آواز لگاتے ہوئے دیکھا
"سیب خریدیں! سیب!"
ایک دیہاتی آدمی اپنے گدھے پر سیب لادے بازار جا رہا ہے۔حکمران نے محل جا کر سیب کی خواہش کی اور اپنے وزیر سے کہا
“خزانے سے 5 سونے کے سکے لے لو اور میرے
👇
لیے ایک سیب لاؤ“
وزیر نے خزانے سے 5 سونے کے سکے نکالے اور اپنے معاون سے کہا
“یہ 4 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں“
معاون وزیر نے محل کے منتظم کو بلایا اور کہا
“سونے کے یہ 3 سکے لیں اور ایک سیب لائیں“
محل کےمنتظم نے محل کے چوکیداری منتظم کو بلایا اور کہا
“یہ 2 سونے کے سکے لیں
👇
اور ایک سیب لائیں“
چوکیداری کے منتظم نے گیٹ سپاہی کو بلایا اور کہا
“یہ 1 سونے کا سکہ لے لو اور ایک سیب لاؤ“
سپاہی سیب والے کے پیچھے گیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کہا
“دیہاتی انسان! تم اتنا شور کیوں کر رہے ہو؟ تمہیں نہیں پتا کہ یہ مملکت کے بادشاہ کا محل ہے اور تم نے دل دہلا دینے
👇
والی آوازوں سے بادشاہ کی نیند میں خلل ڈالا ہے. اب مجھے حکم ہوا ہے کہ تجھ کو قید کر دوں“
سیب فروش محل کے سپاہیوں کے قدموں میں گر گیا اور کہا
“میں نے غلطی کی ہے جناب !
اس گدھے کا بوجھ میری محنت کے ایک سال کا نتیجہ ہے، یہ لے لو، لیکن مجھے قید کرنے سے معاف رکھو“
سپاہی نے سارے سیب
👇
لیے اور آدھے اپنے پاس رکھے اور باقی اپنے منتظم کو دے دیئے
اور اس نے اس میں سے آدھے رکھے اور آدھے اوپر کے منتظم کو دے دیئے اور کہا,
کہ یہ 1 سونے کے سکے والے سیب ہیں
افسر نے ان سیبوں کا آدھا حصہ محل کےمنتظم کو دیا، اس نے کہا,
کہ ان سیبوں کی قیمت 2 سونے کے سکے ہیں
محل کے منتظم
👇
نے آدھےسیب اپنے لیے رکھے اور آدھے وزیر کو دیے اور کہا
کہ ان سیبوں کی قیمت 3 سونے کے سکے ہیں
وزیر نے آدھے سیب اٹھائے اور وزیر اعلی کے پاس گیا اور کہا
کہ ان سیبوں کی قیمت 4 سونے کے سکے ہیں
وزیر نے آدھے سیب اپنے لیے رکھے اور اس طرح صرف پانچ سیب لے کر حکمران کے پاس گیا اور کہا
👇
کہ یہ 5 سیب ہیں جن کی مالیت 5 سونے کے سکے ہیں
حاکم نے اپنے آپ سوچا کہ اس کے دور حکومت میں لوگ واقعی امیر اور خوشحال ہیں، کسان نے پانچ سیب پانچ سونے کے سکوں کے عوض فروخت کیے۔ ہر سونے کے سکے کے لیے ایک سیب
میرے ملک کے لوگ ایک سونے کے سکے کے عوض ایک سیب خریدتے ہیں۔ یعنی وہ امیر
👇
ہیں۔اس لیے بہتر ہے کہ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے اور محل کے خزانے کو بھر دیا جائے
اور پھر یوں عوام میں غربت بڑھتی بڑھتی بڑھتی بڑھتی بڑھتی ہی چلی گئی
فارسی ادب سے ماخوذ
ظلم اور ناانصافی بچے دیتے ہیں
خوف کے بت کو توڑے بغیر ظلم سے نجات ممکن نہیں
کہتے ہیں قاہرہ سے اسوان جانے والی گاڑی میں سوار اس عمر رسیدہ شخص کی عمر کم از کم ساٹھ تو ہوگی اور اوپر سے اس کی وضع قطع اور لباس، ہر زاویے سے دیہاتی مگر جہاندیدہ اور سمجھدار بندہ لگتا تھا۔
ایک اسٹیشن پر گاڑی رکی تو ایک نوجوان جوڑا
👇
سوار ہوا جو اس بوڑھے کے سامنے والی نشست پر آن بیٹھا۔ صاف لگتا تھا کہ نوبیاہتا ہیں، مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ لڑکی نے ایسا لباس زیب تن کیا ہوا تھا جس سے اس کا جسم دعوت نظارہ بنا ہوا تھا
مصر میں ایسا لباس پہننا کوئی اچھوتا کام نہیں، اور نا ہی کوئی ایسا لباس پہنے کسی لڑکی کو
👇
شُہدے پن سے دیکھتا یا تاڑتا ہے
مگر دوسرے مسافروں کے ساتھ ساتھ لڑکی کے خاوند کی حیرت دید کے قابل تھی کہ اس بوڑھے نے لڑکی کو دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کر دیا تھا
چہرے سے اتنا پروقار اور محترم نظر آنے والے شخص کی حرکتیں اتنی اوچھی، بوڑھے کی نظریں تھیں کہ کبھی لڑکی کے شانوں پر
👇
عائشہ بی بی، میں دو بیٹیوں کی ماں ہوں اور میں اس بات کا اہتمام کرتی ہوں کہ میری جوان بیٹی سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر شئیر نہ کرے، اگر کرے تو کم از کم ایسی تصویر ہو جس میں پاؤٹ نہ بنایا ہو دوپٹہ درست طور پر لیا گیا ہو
کیوں کہ ہمارے گھرانے میں لڑکیوں کو خزانہ تصور کیا جاتا ہے 👇
جس تک ہر ایرے غیرے، نتھو خیرے کی رسائی نہ ہو
اور جوان بچیوں کی تصاویر پر، نامحرم لوگوں کے رال ٹپکاتے کمنٹس برے تصور کئے جاتے ہیں
تازہ گوشت کھلا چھوڑا جائے تو پھر مکھیاں بیٹھتی ہی ہیں اور مکھیاں تو گند پر ہی بیٹھتی ہیں
اور پھر ایسی تصاویر شئیر کرکے یہ یہ سوچنا کہ کوئی برا کمنٹ
👇
بھی نہ کرے
حماقت ہے
پھر یہ کہنا کہ اپنے اکاؤنٹ سے کچرا صاف کیا ہے
کچرا تو خود جمع کیا جاتا ہے اس طرح
خیر واقعی غلطی ہو گئی
ہر لڑکی نہ تو ناقابل رسائی ہوتی ہے نہ خزانہ
اس لیے اب کوئی کمنٹ نہیں ہوگا ایسی تصاویر پر
جیسے عثمان ڈار نے غریدہ فاروقی سے کہا تھا نا کہ
👇
جو بات ہے
مگر صرف حافظ نعیم ہی واحد وجہ نہیں ہیں ،جماعت اسلامی کافی فلاحی کام کرتی ہے کراچی میں، الخدمت کے ہسپتالوں میں غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے، وہاں میڈیکل ٹیسٹ رعایتی نرخوں پر ہوتے ہیں، ان کے میڈیکل اسٹور سے دوا رعایت پر ملتی ہے، اس کے علاوہ ان کا فنڈ اکٹھا کرنے کا نظام 👇
بہت مربوط ہے، جو لوگ اعانت کے نام پر چندہ دیتے ہیں وہ ہر ماہ دیتے ہیں
جس سے وہ فری اسکل ڈویلپمنٹ پروگرام کرواتے ہیں
اور یہ گپ نہیں ہے
حقیقت ہے
ایک اور سب سے اہم بات
ان کے دینی حلقے ہوتے ہیں
سارا سال قرآن کی تدریس کا پروگرام ہوتا ہے ہفتہ وار
خواتین کا الگ اور مردوں کا الگ
👇
وہاں سیاسی گفتگو نہیں ہوتی عام طور پر
بس قرآن کی فہم کے لیے ہوتا ہے پروگرام
درس دینے والی خواتین اور حضرات باقاعدہ عالم بھی ہوتے ہیں اور درپردہ سیاسی ورکر بھی
ان کا اخلاق اتنا عمدہ ہوتا ہے کہ وہ دل موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
الیکشن کے دنوں میں وہ جماعت اسلامی کو ووٹ دینے پر
👇
زینب کی یاد میں
یہ موضوع ممنوعہ ہے مگر بہت اہم بھی
عینی اور گدھ
سخت سردی کا موسم ہے ، ہڈیوں کو کاٹتی سردی . اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنے سرد پڑتے جسم کو گرم کیسے کرے
کمرے میں جلتا گیس کا ہیٹر بند تھا .لحاف میں اپنے پیر سکیڑتے ہوئے اس نے زیرلب گیس والوں کو کوسا
👇
شام پیٹ بھر کھانا تو کھایا تھا لیکن رات گئے بھوک دوبارہ آنتوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہی تھی. کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے سگریٹ کو جلتے لائٹر کے شعلے کے قریب کیا لمحہ بھر میں سگریٹ کا پرلا کنارا سرخ دکھنے لگا
طویل کڑوے کش کے ساتھ سگریٹ کی سلگتی آنکھ چمکتی اور پھر بجھنے لگتی
👇
سرد تاریک کمرے میں سرخ اکلوتی آنکھ اور اس سے اٹھتا گاڑھا سفید دھواں پراسرار سا لگ رہا تھا . باہر گلی میں ایک خارش زدہ کتے کی زخمی چیخ سنائی دی جسے اس نے اونچی آواز میں جھڑک کر چپ کروا دیا . رات دوستوں کے ساتھ دیکھی فلم کے مناظر ذہن میں گھومنے لگے گویا سرخ دہکتے شعلے میں زندگی
👇
ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے مسجد کی طرف جارہے تھے۔دھوپ بہت تیز تھی ۔راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے آپ سے دریافت کیا
‘‘حضرت آپ اس وقت یہاں کیسے ؟“
فرمانے لگے
‘‘مجھے اس وقت بہت زیادہ بھوک لگی ہوئی ہے‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
👇
فرمایا
‘‘بخدا! میں بھی اسی بھوک کی وجہ سے نکل آیا ہوں ‘‘
دونوں یہ باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے
آپ نے دریافت فرمایا
‘‘آ پ دونوں اس وقت یہاں کیسے کھڑے ہو؟‘‘
دونوں نے بیک زباں عرض کی
‘‘یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھوک بہت زیادہ
👇
لگی ہوئی ہے “
نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا
‘‘اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ،میں بھی بھوک کی وجہ سے گھر سے نکلا ہوں“
پھر آپ نے فرمایا
“میرے ساتھ آؤ‘‘
اور آپ علیہ السلام ان دونوں کو اپنے ہمراہ لے کر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر روانہ ہو گئے
👇
ایک شہنشاہ جب دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تو اس کا گزر ایک ایسی بستی سے ہوا جو دنیا کے ہنگاموں سے دور اور بڑی پرسکون تھی۔ یہاں کے باشندوں نے جنگ کا نام تک نہ سنا تھا اور وہ فاتح اور مفتوح کے معنی سے ناآشنا تھے‘ بستی کے باشندے شہنشاہ اعظم کو مہمان کی طرح ساتھ لے کر اپنے
👇
سردار کی جھونپڑی میں پہنچے۔ سردار نے اس کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور پھلوں سے شہنشاہ کی تواضع کی
کچھ دیر میں دو قبائلی فریق مدعی اور مدعا الیہ کی حیثیت سے اندر داخل ہوئے۔ سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی دیتی تھی
مدعی نے کہا
”میں نے اس شخص سے زمین کا ایک ٹکڑا
👇
خریدا تھا۔ ہل چلانے کے دوران اس میں سے خزانہ برآمد ہوا میں نے یہ خزانہ اس شخص کو دینا چاہا لیکن یہ نہیں لیتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے کیوں کہ میں نے اس سے صرف زمین خریدی تھی۔ اور اسے صرف زمین کی قیمت ادا کی تھی، خزانے کی نہیں“