مسلمانوں کے مذھبی افکار کی تاریخ میں "احمدیوں" نے جو کار ہائے نمایاں انجام دیا وہ یہ ہے کہ ہندوستان کی موجودہ غلامی کے لیے وحی کی سند مہیا کی جائے
سر ڈاکٹر محمد اقبال
"احمدیت اور اسلام"
انگریزی ایڈیشن صفحہ 127
مرزا غلام احمد قادیانی کے دعووں کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ برطانوی سامراج کے خلاف مسلح جہاد کو حرام قرار دیا جائے چنانچہ اس نے اعلان کیا کہ "جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔
حضرت موسیٰ کے وقت اس قدر شدت تھی کہ
ایمان لانا بھی قتل سے نہیں بچا سکتا تھا اور شیر خوار بچے بھی قتل کیے جاتے تھے پھر ہمارے نبی ص کے وقت میں بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا حرام کیا گیا اور پھر بعض قوموں کے لیے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذے سے نجات پانا قبول کیا گیا اور
مسیح موعود ( مرزا قادیانی) کے وقت جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا
اربعین نمبر 4 ص 16 حاشیہ مصنفہ مرزا قادیانی
اس نقطے کو ذہن میں رکھیے کہ اسی جہاد کو منسوخ کیا جا رہا ہے جو بحکم خداوندی رسول اللہ ص کے زمانے میں رائج تھا جس کا حکم قرآن مجید میں مسلسل چلا آ رہا ہے
مرزا قادیانی اسی قرآنی حکم کو منسوخ قرار دے رہا ہے
(ریفرنس کے لیے سورۃ 2 آیت 216، سورۃ 8 آیت 65 اور سورۃ 47 آیت 20 دیکھیں)
اب اس کی تشریح میں مرزا قادیانی لکھتا ہے :-
آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا خدا کے حکم سے بند کر دیا گیا اب اس کے بعد
جو شخص کافر پہ تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریم کی نافرمانی کرتا جس نے آج سے 1300 سال پہلے فرما دیا کہ مسیح موعود کے آنے پہ تمام تلوار کے جہاد منسوخ ہو جائیں گے سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں ہماری طرف سے
امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا
اربعین 4 ص 47 از مرزا قادیانی
قرآن مجید کی اوپر دی گئی واضح آیات کے نہ صرف انکار بلکہ انہیں سرے سے منسوخ ھی کر دینے بعد بھی مرزا غلام احمد قادیانی کے کافر ہونے میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے
جہاد کو حرام قرار دینے کے بعد غدار ابن غدار مرزا غلام احمد قادیانی کا اگلا ہدف یہ تھا کہ برطانوی سامراج کی اطاعت کو فرض قرار دیا جاتا چنانچہ مرزا لکھتا ہے :-
"جو کچھ میں نے رد جہاد اور اطاعت حکومت برطانیہ کے سلسلے میں لکھا ہے اگر اسے یکجا کر دیا جائے تو
اس سے پچاس الماریاں بھر جائیں"
بحوالہ تریاق القلوب صفحہ 15
غدار ابن غدار مرزا غلام احمد قادیانی نے 10 دسمبر 1894 کو ایک اشتہار شائع کیا جسکا عنوان تھا :-
" لائق توجہ گورنمنٹ جو جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند اور جناب گورنر جنرل ہند اور لیفٹینینٹ گورنر پنجاب اور دیگر معزز حکام
کے ملاحظہ کے لیے شائع کیا گیا"
درج بالا اشتہار میں مرزا نے لکھا:-
" میں نے برابر 16 برس سے اپنے پر حق واجب ٹھہرا لیا کہ اپنی قوم کو اس گورنمنٹ کی خیر خواھی کی طرف بلاؤں اور انکو سچی اطاعت کی ترغیب دوں چنانچہ میں نے
اس مقصد کے انجام کے لیے اپنی ہر تالیف میں یہ لکھنا شروع کیا کہ
اس گورنمنٹ کے ساتھ کسی طرح مسلمانوں کو جہاد درست نہیں۔
دوسری جگہ غدار ابن غدار مرزا قادیانی لکھتا ہے :-
میں نے خدا تعالیٰ سے یہ عہد کیا ہے کہ کوئی مبسوط کتاب بغیر اس کے تالیف نہیں کروں گا جس میں احسانات قیصرہ کا ذکر نہ ہو۔
بحوالہ نور الحق حصہ اول صفحہ 28
اب بھی اس مرزا قادیانی کے غدار اور کافر ہونے میں کوئی شک ہے کہ ایک طرف محمد علی جناح آزادی پاکستان کے لیے دن رات مصروف تو دوسری طرف مرزا قادیانی بدبخت اپنی ھی قوم سے غداری کرتے ہوئے برطانوی سامراج کی غلامی کی ترغیب دے رہا تھا۔
غدار ابن غدار مرزا غلام احمد قادیانی سورۃ 4 آیت 59 کا حوالہ دے کر لکھتا ہے کہ "اولی الامر سے مراد جسمانی طور پہ بادشاہ اور روحانی طور پہ امام الزماں ہے اس لیے میری نصیحت اپنی جماعت کو یہی ہے کہ
وہ انگریزوں کی بادشاہت کو اپنے "اولی الامر" میں داخل کریں اور دل کی سچائی سے انکے مطیع رہیں۔
بحوالہ ضرورت الامام صفحہ 23
یعنی قرآن نے سورۃ 4 آیت 59 میں خدا اور رسول یعنی مرکزی قرآنی اتھارٹی اور اسکے مقررہ افسران ماتحت کی اطاعت کو فرض قرار دیا تھا لیکن
غدار ابن غدار مرزا غلام احمد قادیانی اس آیت جلیلہ کا حوالہ دے کر کفار کی اطاعت کو فرض قرار دے رہا ہے۔
یا للعجب
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اگر ہم پاکستان کے جمود، اخلاقی و عملی تنزل کے اسباب دریافت کرنا چاہیں تو جو وجہ سب سے نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جاہل، متعصب اور فرقہ پرست مولویوں، پیروں، فقیروں اور صوفیوں نے اس سلطنت کی قوت کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ صرف لاہور میں مختلف فرقوں کی اتنی مساجد و مدارس ہیں کہ
شمار ممکن نہیں۔ ہر دس قدم پہ فرقہ پرستوں کی مسجد، مدرسہ، دارالعلوم، مزار، پیر خانہ، گنج بخش، جھولے لعل، داتا، میاں میر نظر آئے گا، جنکے گرد معتقدین کا ہجوم قدم بوسی و ماتھا ٹیکنے کے لیے حلقہ بنائے رہتے ہیں۔
ہر شریف آدمی، تاجر، سیاستدان کوئی نہ کوئی مسجد مدرسہ بناتا یا انکے اخراجات میں حصہ ڈال کر جنت میں بنے بنائے محل کی بکنگ کرواتے اور اپنے کھاتوں سے گناہ ختم کرواتے نظر آئیں گے۔
ان مذہبی بہروپیوں کا عوام اذہان پہ بہت گہرا تسلط ہے۔ یہ یا انکے چیلے چانٹے اور
درج ذیل آیات مبارکہ کی روشنی میں آذان سے لے کر سلام پھیرنے تک پانچوں نمازوں کی تفصیل، عیدین، نماز جنازہ، ختنہ، چھ کلمے، مروجہ حج، عمرہ، زکوٰۃ و صدقات اور اپنے اپنے فرقوں کے عقائد و تعلیمات قرآن سے ثابت کریں کیونکہ جو قرآن میں نہیں وہ اسلام نہیں بلکہ کفر ہے
اَلْحَـمْدُ لِلّـٰهِ الَّـذِىٓ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّـهٝ عِوَجًا ۜ (18/1)
تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر الکتاب یعنی قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّـٰهِ ۖ (6/57)
اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلے گا
سخت گرمی میں روزہ نامی بھوک ہڑتال کرنے کے باوجود مسلمانوں کے رویوں میں مثبت تبدیلی کیوں نہیں آتی ؟
اس بات کا جواب جاننے کے لیے ہمیں قرآن سے رجوع کرنا پڑے گا کہ آخر کیا غلط ہو رہا ہے جس کی وجہ سے الصیام جسے ہمارے ہاں روزہ بنا دیا گیا ہے وہ اللہ کے دعویٰ کے برخلاف وہ مثبت نتائج
پیدا کیوں نہیں کر رہا جو الصیام کا خاصہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے البقرہ آیت 183 میں الصیام فرض کرنے کے بعد فرمایا "لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ" اور الصیام فرض کرنے سے پہلے تقوی شعار انسانوں یعنی متقین کی تعریف البقرہ آیت 177 میں بیان فرما دی تاکہ
کسی کا ابہام نہ رھے اور اگر الصیام مطلوبہ نتائج پیدا کرنے میں ناکام رھے تو ارباب اختیار اس کا جائزہ لے کر اس میں ضروری ترامیم کر سکیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ البقرہ آیت 177 میں اللہ تعالیٰ نے متقین کے کیا اوصاف بیان فرمائے ہیں
اور محمد ایک پیغام رساں (رَسُوْلٌ) کے سوا کچھ نہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی پیغام رساں آئے اگر اسے موت آ جائے یا قتل کر دیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا خود اپنا ھی نقصان کرے گا لیکن جو اسی
روش پہ قائم رھے گا تو اسے اس کی کوششوں کا بھرپور صلہ ملے گا
درج بالا آیت مبارکہ سے واضح ہے کہ جو قرآن کی روشنی میں نبی کریم نے جو سسٹم Establish کیا تھا وہ آپ کی ذات اور حیات تک محدود نہیں تھا بلکہ اسے نبی کریم کی وفات کے بعد بھی جاری و ساری رہنا تھا۔