قبل از اسلام کا زکر ہے
بہت پرانا نہیں
بس اسلام سے کچھ دہائیوں قبل کا
مکے میں ایک گھر ہے
تم جانتے ہو کہ وہ گھر ہمیشہ سے عزت والا گھر ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ سے نسبت ہے
اور نسبتیں یونہی مقام بلند کر دیا کرتی ہیں
ادھر عرب سے کچھ پرے
👇
یمن میں صنعا کے مقام پر ابرہہ نامی عیسائی بادشاہ نے ایک گرجہ تعمیر کیا کہ وہ عبادت کا مرکز و محور بن جائے مگر انسان کی خواہش کی اللہ کی مرضی کے سامنے کیا حقیقت
کعبہ بدستور عبادت کا مرکز رہا
بتوں کے نام پر ہی سہی مگر جو گھر اللہ کے نام پر تعمیر ہوا تھا اس کی حرمت برقرار رہی
👇
ابرہہ کو بڑا طیش آیا
اس نے ارادہ کیا کہ نعوذبالّلہ کعبۃ اللہ کو مسمار کردے کہ اس کی بنائی ہوئی عمارت بن جائے عبادت کا مرکز
سو چلا ایک بڑی فوج لے کر کعبہ کو مسمار کرنے
ہیبت کے لیے ہاتھیوں کی فوج ہمراہ تھی
مگر ایک تدبیر تم کرتے ہو اور ایک تدبیر اللہ کرتا ہے اور اللہ کی تدبیر ہر
👇
تدبیر پر بھاری ہے
جب ابرہ کا لشکر شان و شوکت کے ساتھ مکہ کے قریب پہنچا تو مکہ کے لوگ پہاڑوں پر پناہ گزیں ہوئے کہ اس لشکر کا مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی
کعبہ کے متولی عبدالمطلب کا ایک اونٹ کھو گیا تھا وہ اپنا اونٹ ڈھونڈتے پھر رہے تھے
لوگوں نے ان سے کہا کہ کعبہ کو منہدم
👇
کرنے فوج آیا ہی چاہتی ہے اور آپ کو اپنے اونٹ کی فکر ہے، تو عبدالمطلب نے کہا کہ کعبہ تو گھر ہے خدا کا اس کی فکر خدا کے ذمہ ہے
اونٹ میرا ہے تو اسے تو مجھے ہی ڈھونڈنا ہے
خیر ابرہہ کا لشکر آیا کعبے پر چڑھائی کرنے
جس کے دفاع کے لئے کوئی نہیں تھا
مگر کوئی ہے جو سب سے طاقتور ہے
👇
جس کے ایک "کن" کی محتاج یہ ساری خدائی ہے
اس نے ہاتھیوں کے مقابلے میں انتہائی چھوٹے چھوٹے پرندوں کی فوج بھیجی جن کی چونچوں میں کنکر تھے
ان کنکریوں نے قوی الجثہ ہاتھیوں کو ایسا کر دیا جیسے کھایا ہوا بھُس
قرآن میں اس قصے کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں سے کیا برتاؤ کیا
اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُـمْ فِىْ تَضْلِيْلٍ (2)
کیا اس نے ان کی تدبیر کو بے کار نہیں بنا دیا تھا
وَاَرْسَلَ عَلَيْـهِـمْ طَيْـرًا اَبَابِيْلَ (3)
👇
اور اس نے ان پر غول کے غول پرندے بھیجے۔
تَـرْمِيْهِـمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ (4)
جہاں پر پتھر کنکر کی قسم کے پھینکتے تھے
فَجَعَلَـهُـمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ(5)
پھر انہیں کھائےہوئے بھس کی طرح کر ڈالا
صدیاں گزریں،کعبہ شرک کے مرکز سے پھر سے توحید کا مرکز بنا
اسلام آیا
👇
اجالے لایا
کعبہ آج تک عبادت کا مرکز ہے
صنعا کا معبد اور بادشاہ نشان عبرت
اور بے شک اللہ بڑی شان والا ہے
آج سے پون صدی پیشتر، کفر کے گڑھ ہندوستان سے اللہ کے نام پر ایک ملک حاصل کیا گیا، نام رکھا اس کا پاکستان
بمعنی پاک لوگوں کی سر زمین
جہاں سارے حاجی، نمازی،حافظ اپنے ذاتی
👇
مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے بس اس ملک کو تباہ کرنے پر تلے ہیں
جس کے پاس اختیار آتا ہے وہ خود کو خدا سمجھ لیتا ہے اور یہاں بسنے والے لوگوں کو کیڑے مکوڑے
اور ہم واقعی کیڑے مکوڑے ہی ہیں، ابابیلوں کے منتظر کیڑے مکوڑے
👇
ہم بائیس کروڑ خود "ابابیلیں" ہیں مگر ہم ادراک نہیں رکھتے
ہم سب ایک ایک کنکر لے کر یکجہتی کے ساتھ نکل پڑیں تو ہر فرعون، ہر ابرہہ، ہر ہاتھی یوں ہوجائے گا جیسے
پھر مکہ شریف کی طرف منہ کرکے آگے بڑھانا چاہاوہیں بیٹھ گیا ، انہوں نے پھر اسے مارنا شروع کیا دیکھا کہ ایک گھٹا ٹوپ پرندوں کا جھرمٹ بادل کی طرح سمندر کے کنارے کی طرف سے امڈ ا چلا آرہا ہے ابھی پوری طرح دیکھ بھی نہیں پائے تھے کہ وہ جانور سر پر آگئے چاروں طرف سے سارے لشکر کو گھیر
👇
لیا اور ان میں ہر ایک کی چونچ میں ایک مسر یا ماش کے دانے برابر کنکری تھی ، اور دونوں پنجوں میں دو دو کنکریاں تھیں یہ ان پر پھینکنے لگے جس پر یہ کنکری آن پڑی وہ وہیں ہلاک ہو گیا ، اب تو اس لشکر میں بھاگڑ پڑ گئی ہر ایک نفیل نفیل کرنے لگا کیونکہ اسے ان لوگوں نے اپنا راہبر اور
👇
راستے بتانے والاسمجھ رکھا تھا نفیل تو ہاتھی کو کہہ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور دیگر اہل مکہ ان لوگوں کی یہ درگت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور نفیل وہیں کھڑا یہ اشعار پڑھ رہا تھا ۔ این المفر والا لہ الطالب والاشرم المغلوب لیس الغالب اب جائے پناہ کہاں ہے ؟جبکہ اللہ خود تاک میں لگ
👇
ایک بحری جہاز پر ایک ڈریکولا انسانی روپ میں سوار تھا
رات ہوتے ہی وہ جہاز پر سوار کسی انسان کا خون پیتا اور یوں اپنی پیاس بجھاتا
ایک روز یہ بحری جہاز بیچ سمندر میں کسی چٹان سے ٹکراگیا
لوگ فوراً لائف بوٹس کی طرف بھاگے
یہ ڈریکولا بھی ایک آدمی کی مدد سے ایک لائف بوٹ پر سوار ہو گیا
👇
قسمت کی خرابی کہ اس کی لائف بوٹ پر صرف ایک ہی شخص تھا اور یہ ہی وہ شخص تھا جس نے اسے بچایا اور بوٹ یا کشتی میں آنے میں مدد کی
رات ہوئی توڈریکولا کو انسانی خون پینے کی پیاس ہوئی
ڈریکولا نے خود کو کہا کہ یہ بےشرمی ہو گی جو میں اپنے محسن کا خون پیوں
اس نیک بندے نے ہی تو مجھے
👇
ڈوبنے سے بچایا ہے، میں کس طرح احسان فراموشی کروں؟
ایک دن ۔۔دو دن ۔۔۔ تیں دن وہ اسی دلیل سے خود کو روکتا رہا
بلاخر ایک دن دلیل پر فطرت غالب آ گئی
اس کے نفس نے اسے دلیل دی کہ صرف دو گھونٹ ہی پیوں گا اور وہ بھی اس وقت جب محسن انسان نیند میں ہو گا تاکہ اس کی صحت پر کوئی واضع فرق
👇
سوشل میڈیا پہ نوے فیصد میریڈ مرد بیوی کے دییے دکھوں سے چور ہیں ،
کنوارے ۔۔۔۔ بیوی نہ ہونے کے دکھ سے رنجور ہیں
نوے فیصد میریڈ خواتین کے شوہر انھیں وقت اور توجہ نہیں دیتے ، کنواریاں بلند پایہ اعلی نسب اور امیر زادے کے رشتے تلاش کرنے آتی ہیں
آخر ہم وہ چیز وہاں
👇
کیوں تلاش کرتے ہیں جہاں پائے جانے کا کوئی امکان نہیں
جو انویسٹمنٹ نئی اور انجانی جگہ کی جاتی ہے وہی اگر آزمودہ اور حلال جگہ کی جائے تو اس کا نفع دونوں جہاں میں ہے
کسی کا پسند آ جانا ایک الگ بات ہے
محبت ہو جانا ایک الگ بات
لیکن اس محبت کے لیے اپنی اور اپنی فیملی کی اہمیت
👇
کو نظر انداز کر دینا بلکل ہی الگ بات ہے
آپ اپنے ساتھی کو تنہا چھوڑیں گے تو یہ تنہائی اسے دن بہ دن کھوکھلا کرتی جائے گی
کمزور دیواروں پہ نقب بہت آسانی سے لگ جاتی ہیں
بعد میں بے وفائی ،اور بدکرداری کا طعنہ دینے سے پہلے اپنے آج کے حالات درست کر لینے کی ضرورت ہے
اب وہ دور نہیں
👇
زندگی کو خوبصورت اور آسان ترین بنانےکے لیے "اہل مغرب" کی کل جد و جہد کا نچوڑ پیش خدمت ہے
Personality Development.
پرسنیلٹی ڈیولیپمنٹ کی فیلڈ میں ایک کانسپٹ بہت ہی معروف ہے جسے Minimalism،
کہا جاتا ہے یہ بڑا ہی دلچسپ ہے اس کا معانی و مقصد یہ ہے کہ انسان روز مرہ
👇
زندگی میں کم سے کم سامان حیات کے ساتھ جینے کی skill حاصل کرے،
*ماہرین کے مطابق ہر کامیاب انسان ذاتی زندگی میں Minimalist approach کے ساتھ ہی کوئی بڑا ہدف یا کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے،
کپڑوں کے دس دس جوڑوں کے بجائے دو سے چار جوڑوں پر اکتفا کرنا،
رہائش کے لئے سادہ رہائش گاہ میں
👇
قیام کرنا
سفر و حضر میں عام سی سواری کو ترجیح دینا وغیرہ
ماہرین کے نزدیک با مقصد انسان کے لیے لگژری لائف ایک بہت بڑا بوجھ ہے جس کو Maintain یا برقرار رکھنے میں پیسہ اور وقت برباد کرنا صرف اس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ کسی برتر مقصد سے خود کو دور کر لے،
مزید یہ کہ انسان اپنی ذات پر
👇
مسجد سے ایک انوکھا اعلان ہوا اور سننے والا ہر بندہ دنگ رہ گیا
اعلان یوں تھا کہ مسجد کے قریب ہی ایک ریڑھی پہ مختلف ریسٹورنٹ کا بچا ہوا سالن دستیاب ہے. وہ غریب اور نادار لوگ جو سالن پکانے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ اپنے برتن لے آئیں اور سالن فی سبیل اللہ لے جائیں.
مارے تجسس کے
👇
میں بھی مسجد کی طرف چل دیا کہ دیکھوں آخر ماجرا کیا ہے
میں جیسے ہی وہاں پہنچا تو مرد و زن کا ایک ہجوم برتن لے کر پہنچا ہوا تھا۔ کوئی سالن لے کے گھر کو جا رہا تھا تو کوئی حاصل کرنے کی تگ و دو میں تھا
ریڑھی پہ تین پتیلے پڑے ہوۓ تھے، ایک پتیلے میں دال دوسرے میں قورمہ اور تیسرے میں
👇
مختلف اقسام کی مکس سبزیوں کا سالن رکھا ہوا تھا
تھوڑی ہی دیر میں اس کے تینوں پتیلے خالی ہو گئے
سالن لے جانے والوں کے چہروں پر خوشی دیدنی تھی اور وہ سب دعائیں دیتے ہوۓ جا رہے تھے
میں سالن بانٹنے والے کے پاس کھڑا ہو گیا اور اس سے استفسار کیا کہ یہ آئیڈیا اس نے کہاں سے لیا تو اس
👇