#پاکستان_میں_جنگل_کا_قانون
علی وزیر، محسن داوڑ اور منظور پشتین کومپنی کے ایسٹ ہیں جیسے وقاص گورایہ، لل بخاری ، ڈارون کی باندر والی تھیوری کو سچ کرنے والا سلمان حیدر یہ سب لوگ کومپنی کے ایسٹ ہیں۔
علی وزیر اور محسن داوڑ کومپنی کے کہنے پر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ڈالنے
ایک ٹانگ پر ناچتے ہوگئے علی وزیر کو سب پتہ تھا کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے پیچھے کیا گیم ہورہی ہے لیکن وہ پھر بھی ووٹ ڈالنے آیا۔ اور جیل سے ووٹ ڈالنے آیا۔
محسن داوڑ کا نام ای سی ایل پر ہے لیکن اس کے باوجود وفاقی وزیر کا عہدہ انجوائے کررہا ہے۔۔منظور پشتین کی ساری یدوجہد
نقیب خان محسود کے نام پر شروع ہوئی اور اسی نقیب خان محسود کے نام پر سیاست چمکانا شروع کی اور نقیب محسود کو شہید کرنے والا راو انوار کس کا بہادر بچہ تھا اور یہ منظور پشتین اسی زرداری اور بلاول کے سب سے زیادہ قریب ہے۔۔
ان لوگوں کو جان بوجھ کر اس وقت پھر ہائی لایئٹ کیا جارہا ہے
#جیدا_چنگڑ
جاوید چودھری جیسے بدکردار شخص کی رنگین کہانیاں میڈیا کے ہر شخص کو ازبر ہیں۔موصوف نے جناح اخبار میں افسانوی کالموں سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ اس سے قبل چھوٹے موٹے مقامی اخبارات کی نوکری اور مالکان کی چاکری کی اور اسی دوران خوشامد میں ید طولی حاصل کیا۔اوقات کا عالم
یہ تھا کہ جب پہلا کالم روزنامہ جنگ کی زینت بنا تو دوستوں کو ٹریٹ کے طور پہ سموسے کھلائے اور سارا دن ایک ایک کو پکڑ کر طبع شدہ کالم دکھاتا رہا۔طبعی طور پہ عیار ہونے کے سبب جلد ہی پیسے کمانے کے گر سیکھ گیا اور ملک ریاض کے لیے گھوسٹ رائیٹر کے طور پہ کتابیں لکھیں جو پڑھنے والا پہلے
ہی صفحے پہ تاڑ جاتا کہ کس نے لکھی ہیں۔
اسی دوران جیو جوائن کر لیا۔کالموں میں مذہب اور اخلاقیات کا تڑکا لگا کے سستی شہرت حاصل کی۔مطالعہ پاکستان کے ڈسے نوجوانوں اور ادھیڑ عمر خواندہ بابوں میں اسی سبب مقبول ہوا۔جیو ٹی وی کی ایک پروڈیوسر عائشہ عالم کے ساتھ دس برس خفیہ معاشقہ رکھا۔
1۔ شدید الفاظ میں مذمت کی ہے 2- اہل کاروں کو معطل کر دیا گیا ہے
3۔ تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی ہے
4۔ دہشتگردوں کو ملک کا امن برباد کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے
5۔ طالبان نے ذمہ داری قبول کر لی ہے @OfficialDGISPR
6۔ اس میں ''را'' اور ''خاد'' ملوث ہیں
7۔ دشمن ہماری شرافت کو ہماری کمزوری نہ سمجھے
8۔ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں
9۔ انکوائری کی جائے گی
10۔ کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا
11۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے
12۔ ادارے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں
13۔ نوٹس لے کر اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔
14۔ کشمیر کی آزادی اب دور نہیں
15۔ کرپشن ختم کرکے لوٹی دولت واپس لائیں گے
16۔ یہ واقعات سی پیک کے خلاف سازش کا حصہ ہیں
17۔ ہر صورت میں میرٹ قائم رکھا جائے گا
18۔ غریب کو اس کی دہلیز پر انصاف ملے گا
19۔ سول اور ملٹری قیادت ایک پیج پر ہے
ملک دھماکوں سے گونج رہا تھا ۔ پشاور کی لال سڑک سے گزرتے ہوئے رپورٹر نے ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے پھوپھو زاد بھائی اور پولیس کے ہونہار آفیسر کمانڈنٹ صفت غیور سے ان دھماکوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے واضح طور پہ کہا کہ دہشت گرد افغان ستان سے
پاکستان گھستے ہیں اور ان کی سہولت کاری فوج خود کرتی ہے ۔ صفت نے کہا کہ فوجیوں کی گاڑیوں اور ان کی ذاتی تلاشی کی اجازت اگر آپ پولیس کو دے دیں اور پھر کوئی ایک بھی دھماکہ ہو جائے تو مجھے پھانسی لگا لیجیے گا۔
اس بیان کے سات دنوں بعد صفت غیور کو 4 اگست 2010 میں پشاور کینٹ
میں واقع ایف سی ہیڈکواٹر کے قریب ایک خودکش
حملے میں نشانہ بنایا گیا جس کی ذمہ داری تحریک ظالمان نے قبول کر لی۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی جانب سے صفت غیور کو نشان شجاعت دے کر ان کے قتل کو پس پشت ڈال دیا گیا۔
اب سی سی پی او پشاور پھر سے وہی تاریخ دہرا رہے ہیں لیکن انتہائی
ریلوے کا حادثہ ہوا تو ہر طرف شور مچ گیا تھا کہ شیخ رشید استعفیٰ دے آٹا اور چینی کا بحران اٹھا تو جمشید اقبال پہ انگلیاں بھی اٹھیں ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی انسانی حقوق کے متعلق مخدوش @OfficialDGISPR
رپورٹ آئی تو شیری مزاری سے استعفیٰ طلب کیا گیا ۔ کشمیر میں آرٹیکل 370 ختم ہوا تو شاہ محمود قریشی سے استعفیٰ طلب کیا گیا۔ بجلی کا شٹ ڈاؤن ہوا تو عمر ایوب سے استعفیٰ طلب کیا گیا ۔ ساہیوال واقعہ پہ قانونی موشگافیاں حائل ہوئیں تو فروغ نسیم کو ہٹانے کی باتیں چلیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کو
ابتدائی مشکالات کے دوران ہی عبد الرزاق داؤد کو نکالنے کے مطالبے ہوئے ۔ بلین ٹری پروجیکٹ پہ اعتراض ہوا تو ملک امین اسلم سے جواب طلب کیا جانے لگا ۔ اس سب کے ساتھ عمران خان سے ہر چھوٹے سے لیکر بڑے واقعے تک استعفیٰ طلب کیا جاتا رہا ۔ صورتحال سیاسی و یا معاشی ، داخلی ہو یا خارجی ۔۔۔
#Establishment #PakArmy
ہم دن میں تین تین دھماکوں کی خبریں بھی سنا کرتے تھے۔ ہر روز کسی نہ کسی شہر سے لاشیں اٹھتیں ۔ ہم نے پرائی جنگ میں کود کر جو آگ اپنے وطن میں لگائی تھی اس کی تپش میں ڈالروں کی کڑکڑاہٹ تو بڑھتی رہی لیکن بارود کی بو ہر سو پھیلتی رہی۔ ہم نے اپنی مساجد ،
امام بارگاہوں ، بازاروں ،
گلی کوچوں سے روز خون صاف کیا۔ ہمارے سکولوں میں معصوم روحوں کے بارود اور خون میں لتھڑے لاشے پڑے رہے لیکن ہم مایوس نہ ہوئے ۔ ہم پرعزم تھے کہ بحیثیت قوم ہم آگ اور خون کا دریا عبور کر جائیں گے اور اس جنگ کو جیت لیں گے۔ بالآخر ہم نے وہ جنگ جیت لی ۔
ہم نے اسی ہزار جانوں کا نذرانہ دے کر اپنا امن بحال کر دیا۔
آج ایک دھماکے کے بعد ہی ہمارے اوسان خطا ہو رہے ہیں ۔ اس قدر مایوسی ، بددلی اور ناامیدی پہلے تو نہ تھی ۔ وجہ یہ ہے کہ اس وقت ہمیں لگا تھا کہ ہم نے اپنے محافظوں کے ساتھ مل کر امن لانا ہے جبکہ آج ہم جانتے ہیں کہ ہم سو