میں اُن باٸیس کروڑ بدنصیبوں میں سے ایک ہوں۔ جس پر حیات تنگ کی جارہی ہے۔ میری حب الوطنی کا مذید امتحان لیا جارہا ہے
مجھ سے کہا جارہا ہے کہ تمہارے وطن پہ قرضہ ہے اُس کی اداٸیگی کرنی ہے
اِن لوگوں سے کوٸی پوچھے کہ باہر کے ملکوں اور اداروں سے قرضہ میں نے یا مجھ
👇
جیسے غریبوں نے لیا۔ یا کیا وہ قرضہ مجھ پر یا میرے جیسوں پر خرچ کیا گیا
ستر پچھتر سال سے جن لوگوں نے لیا اور اپنے محل بناٸے
اُن کے پیٹ پھاڑ کر وصول کریں اگر وہ مرگٸے ہیں تو ان کی نسلوں سے وصول کریں مگر یہ کیا
اس ملک کے غریب کا جینا کیوں تنگ کیا جارہا ہے
اُس کا گلا کیوں دبایا
👇
جارہا ہے
کوٸی ہے ہمارا حمایتی
کوٸی ہے ان باٸیس کروڑ بدنصیبوں کا وکیل جو جاکے بین الاقوامی اداروں سے بات کرے کہ ہم نے قرضہ نہیں لیا
نہ ہم پر خرچ ہوا
اس ملک پر جو اشرافیہ حکومت کرتی رہی ہے اسی نے قرضہ لیا ہے
اُسی نے کھایا
ان سے وصول کرو
ان کی نسلوں سے وصول کرو
اس وصولی میں
👇
ہم بھی تمہارا ساتھ دیں گے ان کے محلات کی
ان کی گاڑیوں کی
ملوں کی فیکٹریوں کی نیلامی کرو
ہم تالیاں بجاٸیں گے
اگر تم نے ان کی چمڑی بھی اُدھیڑ دی
ہم عوام کچھ نہیں کہینگے بلکہ تمہارے حق میں نعرے لگاٸیں گے
لیکن ہمیں تو مت پِیسو
ہمیں تو مت مارو
ہم تو بے گناہ ہیں
بے قصور ہیں
👇
مظلوم ہیں
ہاں ہمارا اتنا قصور ضرور ہے کہ ہم وقتاً قوقتاً انہیں خود پر مسلط کرتے رہے۔ یہ ہمیں لوٹتے رہے مگر ہم ان کے نام کے ساتھ ”جٸے“ کے نعرے لگاتے رہے۔ ان کے جلسوں کو بھرتے رہے۔ اتنی خطا ہے ہماری
اس خطا کی جتنی سزا ہمیں ملنی چاہیئے
اُس سے زیادہ مل گٸی ہے
👇
مَردوں کے جرگے میں عورت ذات کی گالی ہٹادینے کے بعد اس دن گاؤں کی پنچائیت میں وہ دوسرا فیصلہ تھا جسے سب نے قبول کیا
انہوں نے اپنے مُردے چارپائیوں پر سمیٹے اور انہیں رات کے اندھیرے میں وڈیروں، صوبیداروں، کرنلوں، جرنلوں، امراء، شرفاء اور ایوانوں میں بیٹھے والوں کے دروازوں پر
👇
چھوڑ آئے
دورانِ فیصلہ وہ سبھی جانتے تھے کہ عین ممکن ہے
وہ اپنے مُردے پھر سے نہیں دیکھ سکیں گے
گوکہ عورتوں کی فریاد اس روز بھی دبائی گئی جبکہ مائیں سبھی پیاروں کے ہونٹ اور ماتھے چومنا چاہتی تھیں
مگر وہ مرد بضد تھے سو انہوں نے اس فیصلے پر عمل کرلیا
اگلے روز یہ ایک انہونی
👇
بات تھی کہ قریب ہر بڑے نامور حکمران کے دروازے پر دن چڑھے ایک لاش لیٹی ہوئی تھی
پہلے پہل امراء سٹپٹائے
پھر انہوں نے تھانیداروں کی موجودگی میں وہ لاشیں ٹھکانے لگادیں
چارپائیاں واپس نہیں کی گئیں
مگر اگلی بار کے حادثے میں جہاں لاشیں تقسیم ہوئیں اور اُسی فیصلے پر عمل کیا گیا
👇
زندگی تُو نے مجھے قبر سے تنگ دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے
یہ شعر بہت وسیع معنی رکھتا ہے مگر پچھلے دنوں اس کا نظارہ دیکھا
آج تک دل اس منظر کو بھلا نہیں پا رہا
ہم جو اپنے تین چار کمروں کے گھروں میں بیٹھ کر محلوں کے خواب دیکھتے ہوئے اپنے گھروں کو کمتر سمجھتے
👇
ہیں ان کے لیے ایک سبق
ایک رشتے دار خاتون کی وفات پر کراچی کے ایک پسماندہ علاقے میں جانا ہوا، وہاں مکس آبادی ہے، لوئر مڈل کلاس اور غریب سب
وہاں جا کر پتہ چلا کہ ایک اور بہت دور پرے کی رشتے دار خاتون کے جواں سال پوتے کا بھی اسی دوپہر انتقال ہوا ہے
بچپن کی یادیں تھیں
👇
ہم جب ماموں کے گھر جایا کرتے تھے تو ان کے صحن میں کھیلا کرتے تھے
خیر سوچا کہ وہاں بھی تعزیت کرنے چلے جائیں
جب وہاں گئے تو دیکھا کہ وہاں پانچ افراد ایک ایسے گھر میں رہ رہے تھے جسے گھر کہنا مناسب ہے بھی کہ نہیں کیا کہوں
ٹین کی چادر کا بنا ہوا دروازہ، اس کے ساتھ بنا دروازے کا
👇
حکایات شیخ بیہوشی (26)
۔
گئے گذرے زمانے کی بات ہے کہ سرجری کا ایک PG تھا ۔ اسکی ٹریننگ کا سال مکمل ہوا تو وہ چند کاغذات پر اپنے HOD کے دستخط کروانے گیا ۔
اس نے HOD کے سامنے کاغذات رکھے تو وہ جیسے پھٹ پڑا
" آ گئے تم ؟ ضرورت پڑ گئی ہماری ؟"
وہ تھوڑا حیران ہوا مگر بولا
👇
"جی سر ۔ یہ کچھ سائن کروانے تھے "
HOD نے جواب دیا
"ان کاغذوں کو اپنے پاس رکھو ۔ پہلے مجھے ان سوالوں کا جواب چاہیئے
میں نے چھ ماہ پہلے تمہیں فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ بھیجی ۔ تم نے اسے ایکسپٹ کرنے میں ایک ہفتہ لگایا ۔ کیوں ؟
میں نے اپنے لان کی تصویریں لگائیں ۔ سارے ڈیپارٹمنٹ
👇
نے "love" ری ایکشن دیا مگر تم نے صرف لائک کیا ۔ کیوں ؟
میری DP پر صرف لائک مگر کوئی کمنٹ نہیں ۔ ۔ ۔ باقی سب PGs نے MA MA لکھ کر میرا دل خوش کر دیا ۔ ایک نے تو لکھا کاش آپ میرے ابٌو ہوتے مگر تمہیں خیال نہ آیا کیوں؟
پچھلے ماہ میں نے اپنے کتے گلیڈی ایٹر کی تصویر شئر کی اور لکھا
👇
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ایک بہت کامیاب باپ تھے ان کے گیارہ بیٹے تھے ان کی زندگی بہت غریب تھی کہ بچوں کی ضرورت بھی پوری نہیں ہو سکتی تھی یہاں تک کہ ان کے بچوں کو کھانے پینے کی چیزیں پوری نہیں
ملتی تھیں
ایک مرتبہ انہوں نے اپنی بیٹی کو بلایا
مگر اس کے آنے میں دیر لگی
👇
عمر بن عبدالعزیزؒ نے دوسری بار بلند آواز سے
بلایا بیٹی کی بجاۓ ان کی بیوی آ گئی اور کہنے لگی بیٹی کی جگہ میں آئی ہوں جو کام ہے مجھے بتا دیجیئے آپؒ نے پوچھا بیٹی کیوں نہیں آرہی؟
بیوی نے جواب دیا بیٹی جو کپڑے پہنے ہوۓ تھی بوسیدہ ہونے کی وجہ
سے وہ کپڑے پھٹ گئے ہیں اب وہ ساتھ
👇
والے کمرے میں کپڑے سی رہی ہے
یہ وقت کا خلیفہ ہے جس کی بیٹی کے پاس بدن کے کپڑوں کے علاوہ کوئی اور کپڑے نہیں ہیں خلیفہ وقت کی اتنی غربت والی زندگی تھی مگر انہوں نے بچوں کو محبت سکھائی خدمت سکھائی نیکی سکھائی اور بچوں کے اندر خوب نیکی کا جذبہ پیدا کیا چنانچہ جب عمر بن عبدالعزیزؒ
👇
جو انگریز افسران ہندوستان میں ملازمت کرنے کے بعد واپس انگلینڈ جاتے تو ان کو وہاں پبلک پوسٹ کی ذمہ داری نہ دی جاتی
دلیل یہ تھی کہ
تم ایک غلام قوم پر حکومت کر کے آئے ہو
جس سے تمہارے اطوار اور رویے میں تبدیلی آ گی ہے
یہاں اگر اس طرح کی کوئی ذمہ داری تمہیں دی جائے گئی
تو تم آزاد
👇
انگریز قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کرو گے
اس مختصر تعارف کے ساتھ درج ذیل واقعہ پڑھئے
ایک انگریز خاتون جس کا شوہر برطانوی دور میں پاک و ہند میں سول سروس کا آفیسر تھا
خاتون نے زندگی کے کئی سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارے
واپسی پر اس نے اپنی یاداشتوں پر مبنی بہت ہی خوبصورت 👇
کتاب لکھی
خاتون نے لکھاکہ
میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اُس وقت میرا بیٹاتقریبا چار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی
ڈپٹی کمشنر کو ملنےوالی کئی ایکڑ پرمحیط رہائش گاہ میں ہم رہتےتھے
ڈی سی صاحب کے گھر اور خاندان کی خدمت گزاری پر کئی سو افراد معمور تھے
روز پارٹیاں ہوتیں
👇