پیارے پاکستانیوں!
کل کشمیر کے ساتھ ہم آہنگی کا دن منایا گیا جس میں پیپلز پارٹی والے راہنما بھی تقریریں کر رہے تھے۔
چلیں آج بتاتی ہوں آپ کو کہہ ان کے بھٹو صاحب جو کے مر ہی نہیں رہے کمشیر کے ساتھ کیا سلوک کیا۔
⏬
دوستو!
تحریک آزادی کو سب سے بڑا نقصان بھٹو کے شملہ معاہدے نے پہنچایا۔
2 جولائی 1972ء کا دن کشمیریوں کے خون سے غداری کا دن تھا. بھارت کی وزیراعظم مسنراندراگاندھی اور پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کے مابین 6 شقوں پر مشتمل ایک معاہدہ طے پایا جسے شملہ معاہدہ کہا جاتا ہے⏬
اس معاہدے نے تحریک آزادی جموں کشمیر کو زبردست نقصان پہنچایا ۔ معاہدہ تاشقند کے بعد کشمیریوں نے اپنی جہدوجہد آزادی کو منظم کرنے کی جو کوششیں بروئے کارلائی تھیں وہ ایک بار پھر خاک میں ملا دی گئیں۔
شملہ معاہدے کے حسب ذیل مضمرات نے تحریک آزادی جموں کشمیر پر منفی اثرات مرتب کئے۔⏬
✓ یہ معاہدہ جموں کشمیر کے اصل وارثوں یعنی کشمیریوں کو مسئلہ جموں کشمیرکا فریق ہی نہیں سمجھتا۔
✓ یہ معاہدہ جموں کشمیر کے مسلمہ حق خودارادیت کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ مسئلہ جموں کشمیر کو دو ملکوں کے مابین سرحدی جھگڑا سمجھتا ہے۔
✓ یہ معاہدہ کشمیریوں کو عالمی رائے عامہ کی حمایت⏬
سے محروم کر دیتا ہے کیونکہ عالمی رائے عامہ ایک مظلوم اور محکوم قوم کے حق آزادی کی حمایت تو کرتی ہے لیکن اسے دو ملکوں کے مابین علاقائی تنازعہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اس لیے شملہ معاہدے کے بعد عالمی رائے عامہ نے چپ سادھ لی۔
✓ اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں نے عہد کیا کے ⏬
کنٹرول لائن کے دونوں طرف سے اٹھنے والی تحریکوں کو ختم کیا جائے گا یہی وجہ ہے کہ آزاد جموں کشمیر اور مقبوضہ جموں کشمیر میں شملہ معاہدے کے بعد آزادی پسندوں کی پکڑ دھکڑ اور تعذیب و تشدد کا سلسلہ بیک وقت شروع کیا گیا۔
✓ پاکستان نے بھارت سے آئندہ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا جس سے⏬
کشمیریوں کو سخت مایوسی ہوئی۔
✓ اس معاہدے کی دفعہ 4 شق 2 کے تحت سیز فائر لائن ( عارضی جنگ بندی لائن ) کو کنٹرول لائن ( مستقل سرحد ) تسلیم کیا گیا یہ الفاظ جموں کشمیر پر بھارتی قبضے کو درست اور جائز تسلیم کرتے ہیں۔
✓ اس معاہدے کی رو سے تحریک آزادی جموں کشمیر کےلیے پروپیگنڈہ⏬
بند کرنے کا فیصلہ ہوا چنانچہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے لیے تحریک آزادی جموں کشمیر شجرممنوعہ بن گی ریڈیو آزاد جموں کشمیر بھی خاموش کردیا گیا۔
✓ اس معاہدے کی رو سے پاکستان نے مسئلہ جموں کشمیر کو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا چنانچہ آج تک پاکستان نے ⏬
صرف زبانی یاد دہانیاں کرائیں کوئی نئی قرارداد پیش نہیں کی۔
✓ شملہ معاہدہ کی آخری شق میں کہا گیا کہ جموں کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت مناسب وقت پر مذاکرات کریں گے اس سے مسئلہ جموں کشمیر دونوں ملکوں کے باہمی مذاکرات کی نذر ہو گیا۔
دوستو!
یہ سب کچھ بھارت ⏬
کے حوالے کرنے کے بعد بھٹو صاحب کو جنگی قیدی واپس کیے گئے جس بات کا سہرا بھٹو کے سر پر سجایا جاتا ہے آج تک۔
مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ بھٹو کو تو لوگ بڑا منجھا ہؤا سیاست دان مانتے تھے تو جنگی قیدی واپس لینے کے لیے یہ قیمت جائز تھی کچھ اور بھی سوچا جا سکتا تھا۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
دوستو!
ملکوں کے درمیان کبھی بھی دوستیاں نہیں ہوتیں صرف مفادات ہوتے ہیں اور میں اوپر لکھی گئی ہیڈ لائین پر یقین نہیں رکھتی۔ انہیں ہم سے فائدے ہیں اس لیے وہ ہماری مدد کرتے ہیں۔
شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ!
⏬
سنکیانگ اویغور نسل کا آبائی علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں چینی حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اقوام متحدہ نے گزشتہ برس کہا تھا کہ اس کے پاس اس حوالے سے ناقابل تلافی ثبوت موجود ہیں کہ سنکیانگ ⏬
میں ایغور نسل کے 10 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ان کی مرضی اور کسی مقدمے کے بغیر حکومتی مراکز میں نظر بند کیا جاتا ہے۔
تاہم چین نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ ہنر سکھانے کے مراکز یا ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز ہیں جہاں مسلمانوں کی سوچ تبدیل کرتے ہوئے شدت پسندی سے نمٹا⏬
پیارے پاکستانیوں!
اگر ہمیں امریکہ اور شیطان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو ہم شیطان کا انتخاب کریں گے۔ یہ محض ’’ایک بات‘‘ نہیں ہے، اس بات کی ایک بہت مضبوط اخلاقی اور علمی دلیل بھی ہے۔ دلیل یہ ہے کہ شیطان کا شیطان ہونا سب پر واضح ہے، مگر امریکہ کا شیطان ہونا سب پر واضح ⏬
نہیں ہے۔
یہاں یہ بات واضح کر دوں کہ!
امریکہ کی ولدیت میں اسرائیل کا نام لکھا ہے۔
لیکن پھر بھی بہت سے لوگ امریکہ کو مہذب، انسانی حقوق کا علَم بردار، روشن خیال، جمہوری، انسانی اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ معاملہ صرف امریکہ تک محدود نہیں۔ شیطانیت پورے مغرب کی پہچان ہے۔⏬
سفید فام اہلِ مغرب صرف افراد کو گلا گھونٹ کر نہیں مارتے، انہوں نے قوموں اور تہذیبوں کو بھی گلا گھونٹ کر قتل کیا ہے۔ اس بھیانک انسانیت سوزی کی تفصیلات رونگٹے کھڑے کردینے والی ہیں۔
دوستو!
یہ وہ وقت ہے کہ پہچانیں اپنے آپ کو ہم اللہ پاک کو ماننے والے اور ⏬
تاریخ کے بارے میں سرکاری سچ کو ماننا ہم پر فرض نہیں ہونا چاہیے۔ زندہ قومیں اپنی تاریخ کے بارے میں کھلے بحث مباحثے سے نہیں گھبراتیں۔ اگر کوئی غلط بات کرے تو آپ سچ بات بتا کر غلط بات کی تردید کر سکتے ہیں۔
ہمدرد یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکڑ منظور احمد نے ⏬
اپنی کتاب ’رام پور سے کراچی تک‘ میں ایک بہت اچھی بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی ہمارے ہاں تاریخ پر تنقید کا شعور گہرا نہیں ہے۔ ہم تاریخی واقعات کو قضا و قدر سمجھتے ہیں۔ اکثر تاریخی ہستیوں کی ضرورت سے زیادہ تکریم کرنے لگتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کو صنم بنا کر تقریباً ⏬
پوجنے لگتے ہیں یا ان پر تنقید کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔
دوستو!
ہمیں تنقید برداشت کرنے کی عادت ڈالنی ہو گی ہاں اگر وہ سلجھے ہوئے طریقے سے کی جائے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ 1937 میں بننے والی کانگریسی وزارتوں نے مسلمانوں پر ناقابل بیان مظالم ڈھائے تھے اور اس کی وجہ سے مسلمانوں نے تقسیم⏬
دوستو!
میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ ہمیں تاریخ جھوٹی پڑھائی جاتی رہی ہے۔ فوجیوں نے اپنی ناکامیوں کو سیاستدانوں کے گلے ڈالنے کے لیے جان بوجھ کر ایسے ایسے تاریخ دان پیدا کیے کہ آج سے سال پہلے تک ہمیں اس پورے ملک میں صرف فوج ہی اچھی لگتی تھی۔
لیکن تاریخ بڑی بری چیز ہے نہیں چھوڑتی ⏬
کسی کو۔
واقعہ کربلا کو دیکھ لیں بنو امیہ نے تقریباً ڈھائی صدیاں اسے چھپانے کی کوشش کی لیکن ہمیں آج بھی سب یاد ہے۔
مشرقی پاکستان کی مثال لے لیں کہ!
تاریخی حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے ہمیں نہیں بتایا گیا کہ جب چیف جسٹس عبدالرشید ریٹائرڈ ہوئے تو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے⏬
جسٹس اکرم سینئر ترین جج تھے تو پھر پنجاب کے جسٹس منیر کو نیا چیف جسٹس کیوں مقرر کیا گیا؟
جنہوں نے ریاستی احکامات کو بروئےکار لاتے ہوئے منتخب حکومتوں کی برطرفی کیلئے نئے نئے قانونی جواز پیدا کرنے کی روایتیں ڈال دیں جس کی وجہ سے ہمارا عدالتی نظام آج بھی جمہوریت اور ⏬
کپڑا بُنتے وقت پہلے لمبائی میں دھاگے تانے جاتے ہیں (جن کی تعداد پر، بُن جانے کے بعد کپڑے کے عرض کا انحصار ہوتا ہے، انہیں تانے کہاجاتا ہے) پھر ان کے درمیان سے ایک چھوڑ ایک پر سے دھاگا گزار کر اس عمل کو دھراتے جاتے ہیں صرف اس فرق سے کہ ہر دفعہ گزارے جانے ⏬
والا دھاگہ سابقہ گزارے ہوئے دھاگے کے مخالف تانوں کے اوپر اور نیچے سے گزارا جاتا ہے، انہیں بانے کہاجاتا ہے۔ اگر ایک بانا ٹوٹ جائے تو اسے کھینچ کر نکال دیتے ہیں اور اس کی جگہ دوسرا بانا گزار دیا جاتا ہے، لیکن اگر تانا ٹوٹ جائے تو مسئلہ سنجیدہ ہو جاتا ہے اور اکثر اوقات سارے کا⏬
سارا بنا ہوا کپڑا ضائع کرنا پڑ جاتا ہے۔
دوستو!
ہمارے وطن میں نہ تو تانا ٹوٹا اور نہ ہی بانا بلکہ سب کچھ ہی توڑ پھوڑ دیا گیا ہے، وہاں کا کیا رونا روئیں جہاں کوئی نظم و نسق ہے ہی نہیں، یہ وہ اندھیر نگری ہے جہاں ایک چوپٹ راجہ جاتا ہے تو اس سے زیادہ چوپٹ دوسرا بٹھا دیا جاتا ہے۔⏬
پیارے پاکستانیوں!
شاید آپ مارک ٹوین کو جانتے ہوں!
خیر وہ ایک مشہور مزاح نگار ہے جو ہنسی ہنسی میں زندگی کے تلخ سچ بول جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ لوگوں کو بے وقوف بنانا آسان ہے مگر انکو یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ انکو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔
پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی غربت اور⏬
پسماندگی نے اپنے جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں وہاں کے عوام کے ساتھ یہی معاملہ انکے حکمرانوں کے بھیس میں چھپے ڈاکو ( جرنیل، سیاستدان ، جج ، بیوروکریٹس) کر رہے ہیں۔ وہ انکو بے وقوف بنا رہے ہیں، اور اگر کوئی اس عوام کو یہ بتانے کا مشکل کام اپنے زمہ لے بھی لیتا ہے کہ وہ یعنی عوام⏬
بے وقوف بن رہے ہیں، تو یہ ڈاکو نما حکمران ایسے کسی بھی شخص کا مقابلہ اس طریقے سے کرتے ہیں کہ اس کو عوام کی نظر میں ناقابل حکمرانی اور ناقابل اعتبار ثابت کر دیاجائے اور انکا عوام کو بے وقوف بنا کر لوٹنے کا کھیل جاری رہ سکیں۔
دوستو!
پاکستان بننے کے بعد ہماری تاریخ میں ایسی صرف ⏬