ان لوگوں کے لیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ برصغیر میں اگر انگریز نہ آتا تو ہم لوگ جاہل گنوار رہ جاتے۔
وہ یہ کتابیں پڑھیں۔
(جو دھرم پال جی کو جانتے ہیں) ان کی پہلی کتاب کا نام ہے Indian Science and Technology in
the Eighteenth Century
⏬
اس کتاب میں دیئے گئے حقائق جان کر آپ حیران ہو جائیں گے کہ یہ تاج مغل اور شالامار باغ جیسی عمارتیں جن لوگوں نے تعمیر کیں وہ ایسے تعلیمی اداروں سے جو علم پڑھ کر آئے تھے وہ موجودہ دور کی جیومیٹری، ٹرگنو میٹری اور فنِ تعمیر کے اساسی شعبہ جات سے کہیں زیادہ اعلیٰ تھا ⏬
ان کی دوسری کتاب بھی کمال کی ہے Civil Disobedience in Indian Tradition
اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کا معاشرہ کس قدر جمہوری تھا کہ یہاں لوگ ہزاروں سال پہلے بھی اپنے مطالبات منوانے کے لیئے دھرنا دیتے تھے، ٹیکس دینے سے انکار کرتے ⏬
تھے، مرن بھرت رکھا کرتے تھے اور جن بادشاہوں کو سیکولر لبرل مؤرخین گالیاں دیتے ہیں وہ ان احتجاج کرنے والوں کے مطالبات مان کررعایا کے دل جیتا کرتے تھے۔
یہ دو کتابیں دراصل 1701ء سے لے کر 1779ء تک کے ہندوستان کا ایک ایسا منظر پیش کرتی ہیں جو سائنس و ٹیکنالوجی میں بامِ عروج پر تھا⏬
اور جس کا نظامِ تعلیم دنیاکا جدید ترین نظامِ تعلیم تھا اور جس ملک کے بیشتر حصوں میں شرح خواندگی پچانوے فیصد سے بھی زیادہ تھی۔
یہ سب کچھ، دولت اور قدرتی وسائل دیکھ کر ہی گورے کے منہ میں پانی آیا تھا۔
دھرم پال جی نے اپنی تحقیق میں تمام تر مواد انگریز حکمرانوں کی تیارکردہ ایسی ⏬
ایسی خفیہ اور غیر خفیہ رپورٹوں، سروے اور تحقیقوں سے اکٹھا کیا ہے جو انگریزوں نے اس نیت سے پورے ہندوستان کے بارے میں تحریر کی تھیں تاکہ ان حقائق کی بنیاد پر وہ منصوبہ بندی کر سکیں کہ کیسے اس شاندار تہذیب اور ترقی یافتہ قوم کو تباہ کرنا ہے۔ گورے نے نہ صرف اس خوبصورت نظامِ سلطنت⏬
کو برباد کیا، بلکہ ساتھ ساتھ ایک جھوٹا تاریخی موادبھی تخلیق کیا جو ہندوستان کے باسیوں اور حکمرانوں کو پسماندہ، جاہل، عیاش اور متعصب ثابت کرتا تھا۔ اسی جھوٹے مواد کو پڑھ کر ہی تو میرے ملک کا سیکولر طبقہ خوشی سے جھومتا ہے اور جاہل دانشور کالم لکھتا ہے، ٹی وی پر جھوٹ بولتاہے۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
دوستو!
اللہ تعالیٰ قرآن بدیع البیان میں فرماتے ہیں: وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِیْ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ[الأنبیاء:۱۰۵]
اور ہم نے نصیحت کی کتاب [یعنی تورات] کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ میرے نیکوکار بندے ملک کے وارث ہوں گے۔⏬
اللہ تعالیٰ نے زمین کی وراثت کا وعدہ اپنے ان نیک بندوں سے کیا ہے، جو محمدی روح اور قرآنی اخلاق کی نمائندگی کرتے ہیں۔اتحادواتفاق سے کام میں لگے رہتے ہیں،اپنے زمانے کا صحیح ادراک رکھتے ہیں،علم و فن کے اسلحے سے لیس ہوتے ہیں اور دنیاوآخرت کے درمیان توازن قائم رکھتے ہیں⏬
لہٰذا زمین کا وارث بننے کے لیے سب سے پہلےاعمال صالحہ بجا لانے کے لیے بھرپور کوشش کرنا ہو گی،جس سے مراد دین کو قرآن و سنت کے مطابق اپنانا اور اسلام کو زندگی کے احیاء کا ذریعہ بنانا ہے۔دوسرے درجے میں عصری علوم و فنون سے آگاہی ضروری ہے۔
کیا ہم یہ سب کر رہے ہیں؟
نہیں نا؟⏬
دوستو!
انسانوں کی اکثریت کو اگر حق اور طاقت میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ حق کو چھوڑ دے گی اور طاقت کو اختیار کرے گی۔ طاقت فرد کی بھی ہوتی ہے۔ گروہوں اور طبقات کی بھی۔ طاقت معاشرے کی بھی ہوتی ہے اور ریاست کی بھی۔ طاقت قوموں کی بھی ہوتی ہے اور نظاموں کی بھی⏬
ہمارا عہد سپر پاورز کا عہد ہے۔ امریکا ہمارے دور کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس کی طاقت مقامی نہیں عالمگیر ہے۔ دنیا کے کروڑوں انسان امریکا کو اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح صرف خدا کو دیکھے جانے کا حق ہے۔
امریکہ نے دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ کیسی سازشیں کیں صرف اپنی طاقت ⏬
ثابت کرنے کے لیے۔
جاپان پر ایٹم بم مارنا ہو، عراق، لیبیا، شام میں تباہی مچانی ہو سب کچھ کیا اور کسی کی مجال نہیں کہ کوئی پوچھ سکے۔
دوستو!
امریکہ افغانستان میں تنہا نہیں آیا تھا وہ 48 ممالک کو ساتھ لے کر افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا۔
اس کا خیال تھا کہ اب افغانستان میں قیامت تک⏬
آج ہمارے اندر ایمان کمزور ہے۔ مغرب کی مکاری اور تہذیب و فلسفہ نے ہمارے ایمان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ہمارے کردار یہود و نصاریٰ سے بھی گئے گزرے ہیں۔
ہم میں مجموعی طور پر اپنے آقا کریم کی کون سی ادا باقی ہے؟ ہم میں آقا کریم کے کون سے ⏬
اخلاق و اطوار باقی ہیں؟ ہم میں آپ کا کونسا کردار پایا جاتا ہے؟ ہم آپ کے کس اسوہ پر عمل پیرا ہیں؟ جواب…یقینا کوئی نہیں ،مگر اس کے برعکس آج وہ کونسی اخلاقی خرابیاں ہیں جو ہم میں، ہمارے معاشرہ میں اجتماعی طور پرموجود نہیں ؟ وہ کونسی غلاظت، گندگی ، بیہودگی ہے،وہ کونسے غلط اطوار ⏬
ہیں جو ہم میں نہیں پائے جاتے؟ وہ کونسی بد خلقیات ہیں جن کی ہم میں کثرت نہیں؟ ظلم و زیادتی، فساد،حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی کیا ہمارا اجتماعی فعل نہیں ؟ منشیات کے بازار، ہوس کے اڈے ، شراب خانے ، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارتگری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری،⏬
پیارے پاکستانیوں!
ہم تاریخ کے سبھی ادوار کھنگال کراس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی انسان کی معاشرتی زندگی میں بگاڑ غالب رہا اور اصلاح کے بہت کم آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔اسی مجموعی بگاڑ کے نتیجہ میں قومیں زوال پذیر ہوئیں اور اپنے انجام کو پہنچیں⏬
جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قدرت قوموں کے عروج وزوال اور تباہی و بربادی کے قوانین کے اطلاق میں قوموں کے درمیان فرق نہیں کرتی، جو قوانین یہود و نصاریٰ کیلئے ہیں وہی امتِ مسلمہ کیلئے ہیں، جو اصول اہل باطل کیلئے ہیں وہی اہل حق کیلئے ہیں، جو ضابطے ⏬
اہل کفر کیلئے ہیں وہی اہل ایمان کیلئے ہیں۔ قرآن کریم میں بیان کردہ قوانین اٹل ہیں جن میں تبدیلی نہیں ہوا کرتی ہے۔ان کو
"سنۃ اللہ" کہا گیا ہے۔
سُنَّۃَ اللّٰہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوا مِنْ قَبْلُ، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا۔
یہی اللہ کی سنت⏬
پاکستانی ریاست، اسٹیبلشمنٹ، سیاست اور اس کے ذرائع ابلاغ میں موجود چاپلوس نوکر مل کر ایک ایسا تعفن زدہ کچرے کا ڈھیر بن چکے ہیں کہ حقیقت اور سچائی کی تلاش ایک روز مرہ کی اعصاب شکن محنت بن چکی ہے۔
پاکستان کے سماج میں بھی اہم معیاری تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں لیکن حکمران طبقات اسے ⏬
پرانے طریقوں سے ہی ہانکنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن پورا زور لگانے کے باوجود ان کے تمام منصوبے ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام کو مذہبی بنیاد پرستی کے جس خونی چکر میں امریکی سامراج کی ایما پر دھکیلا گیا تھا اس کی تمام مالیاتی بنیادیں اور حکمرانوں کے مذموم ارادے عوام پر عیاں ہو چکے ⏬
ہیں۔
اور ان کا پورا میتھڈ واضح طور پر ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔ اسی لیے ان کے پراپیگنڈے سے نفرت ہر سطح پر نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر امریکہ کے سپانسرڈڈالر جہاد کے لیے جو بنیادیں تعمیر کی گئیں تھیں وہ اب منہدم ہو رہی ہیں اور خود امریکی سامراج کی ترجیحات تبدیل ہو چکی ہیں۔⏬
"کڑوا سچ"
دوستو!
تاریخی سچائی ہے کہ چھوٹی اور بد دیانت قوم کا مقدر ہمیشہ جھوٹے اور بددیانت حکمران بنتے ہیں ۔ حکمرانوں کے بدلنے سے کبھی اس قدم کے مسائل حل نہیں ہوں گے، اس قوم کو اپنا آپ بدلنا ہوگا تب کہیں جاکر کچھ بدلے گا۔
ظلم زیادتی پر برسوں سے زبانوں پر تالے یا خاموشی آخر یہ⏬
خاموشی کہاں تک اورکب تک رہے گی؟
؟ اس قوم کی اصلیت کو اگر دیکھنا چاہتے ہیں تو ہر سال ماہ رمضان میں وہ بے نقاب ہوتی صاف دکھائی دیتی ہے۔ حکمران کسی بھی سیاسی جماعت کا کیوں نہ ہو رمضان میں ہر دوسرا مسلمان شیطان بن کر روزہ داروں کو لوٹتا پایا جاتا ہے۔
⏬
اس ماہ نیکی محبوس ہوجاتی ہے اور مسلمان چور بازاری یا لوٹ مار کے لیے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس بابرکت مقدس مہینے میں جھوٹ، لوٹ کھسوٹ اور بددیانتی عروج پر ہوتی ہے۔
خود اندازہ لگا لیں کہ رمضان المبارک میں یہ حال ہے ہمارا تو رمضان کے بعد کیا حال ہوتا ہو گا؟
⏬