ایک اندازے کے مطابق اگر صرف ہندوستان کو وسطی ایشیا اور وسطی ایشیا کو ہندوستان تک رسائی بذریعہ پاکستان دے دی جائے تو ہم سالانہ 30 بلین ڈالرز صرف راہداری اور کرایوں کی مد میں کماسکتے ہیں.اسی طرح اگر گوادر کو پورا فنکشنل کیا جائے اور چین اور مشرق وسطی کو لنک کیا جائے تو
++++
سالانہ 200
ارب ڈالرز تک منافع کمایا جاسکتا ہے.
اگر مزید صرف مذہبی زائرین کیلیے ویزہ آن آرائیول کی سہولت فراہم کی جائے, ویزہ فیس صرف 100 ڈالر رکھی جائے اور ساتھ میں یہ شرط بھی کہ ہر مسافر 2000 ڈالر ایکسچینج کروائے تو صرف 10 لاکھ زائرین ہمیں دو تین بلین ڈالرز
++++
سالانہ منافع کماکے دے سکتے ہیں
انڈیا کو اگر راہداری میں تھوڑی سہولت اس شرط پر مہیا کردی جائے کہ وہاں کے بجاج اور ہیرو ہونڈا موٹرسائیکل, مہندرا موٹرز اور چند ایک آئی ٹی گروپس پاکستان میں اپنے پلانٹس لگائے تو مزید 50 سے 70 بلین ڈالرز تک منافع لے جایا جاسکتا ہے.
++++
سبزی, چاول, اور دوسرے خوراک کی ضروریات کیلئے بھی
ہم ہندوستان سے تجارت کرکے زرمبادلہ بچا سکتے ہیں اور بدلے میں سیمنٹ،نمک اور آلاتِ جراحی بھجوا سکتے ہیں
لیکن اس کے لئے نوری نتھ کو نتھ ڈالنا ضروری ہے #Copied
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
منیر نیازی کہتے ہیں کہ ابا جی کے ساتھ بیٹھا ھوا تھا۔
اچانک انہوں نے مجھ سے پوچھا: "حیض کے بارے میں کیا جانتے ہو؟"
میں نے اپنے دل میں الحمد للہ پڑھ کر اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ ہم بھی اب اپنے آپ کو ان آزاد خیال لوگوں میں شمار کر سکتے ہیں جو اپنے
++++
گھر میں ہر قسم کے موضوع پر کھل کر بات کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی مجھے وہ سارے بیتے سال یاد آ گئے جو میں نے اباجی کے رعب اور دہشت کے ساتھ اس گھر کے گھٹن زدہ ماحول میں گزار دیئےتھے۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا:
"ابا جی،حیض ایک ایسے سرکل کا نام ہے جس سےھرجوان عورت مہینےمیں ایک بارگزرتی ہے"
+
ابا جی نے پھر پوچھا: "تو پھر عورت اس حالت میں کیا کرتی ہے؟"
میں نے کہا: "ابا جی..، عورت اس حالت میں نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے۔۔۔"
ابا جی
نے اس بار قدرے سخت اور اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا:
++++
#حضرت_انسان
چیتے نے کتے سے پوچھا: تم نے انسانوں کو کیسا پایا؟
کتے نے جواب دیا: جب وہ کسی کو حقیر سمجھتے ہیں تو اسے کتا کہتے ہیں
چیتا: کیا تم نے ان کے بچوں کو کھایا؟
کتا: نہیں
چیتا: کیا تم نے انہیں دھوکہ دیا؟
کتا: نہیں
چیتا: کیا تم نے ان کے مویشی مارے؟؟
کتا: نہیں
++++
چیتا: کیا تم نے ان کا خون پیا؟؟
کتا: نہیں
چیتا: کیا تم نے ان کو میرے حملوں سے بچایا؟؟
کتا: ہاں
چیتا: انسان بہادر اور ہوشیار کو کیا کہتے ہیں؟
کتا: وہ اسے چیتا کہتے ہیں
چیتا: کیا ہم نے تمہیں شروع سے مشورہ نہیں دیا تھا کہ ہمارے ساتھ چیتا بن کر رہو مگر تم نے انسانوں کے تحفظ
+++
کا ٹھیکے دار بننا پسند کیا۔ میں ان کے بچوں اور مویشیوں کو مارتا ہوں، ان کا خون پیتا ہوں، ان کے وسائل اور محنت کھا جاتا ہوں، اس کے باوجود نہ صرف وہ مجھ سے ڈرتے ہیں بلکہ اپنے ہیروز کو چیتے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
++++
شادی میں بیواؤں کی شرکت کو منحوس خیال کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی بیشتر شادیوں میں کسی بھی بیوہ کو نہیں بلایا جاتا اگر کوئی بیوہ غلطی سے کسی شادی میں چلی جائے تو اسے دلہا دلہن کے قریب جانے، پھول پھینکنے، تحفہ دینے یا آشیرباد دینے کی اجازت نہیں ہوتی..
++++
جتندر پٹیل گجرات کے نواحی قصبے مہسنہ میں پیدا ہوا. سخت محنت کی اور کروڑ پتی بزنس مین بنگیا. لیکن کروڑ پتی بن جانا کوئی کمال کی بات نہیں.کمال چندر پٹیل نے اپنے بیٹے روی پٹیل کی شادی میں کیا. اس نے آس پاس کے پانچ ضلعوں سے اٹھارہ ہزار بیواؤں کو بیٹےکی شادی میں شرکت کی دعوت دے دی
++
اسے اپنی برادری اور سماج کی طرف سے مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا، لوگوں نے بہت سی باتیں بھی بنائیں لیکن جتندر نے ہار نہیں مانی، بلکہ اس نے ہر بیوہ کو ایک کمبل اور ایک پودا اس وعدے کے ساتھ دیا کہ وہ لوگ یہ پودا اپنے گھر میں لگائیں گے اور اس کی دیکھ بھال کریں گے. اس نے بیواؤں
+++
#رفوگر
رفوگر
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے ایک رفوگر رکھا ہوا تھا۔ وہ کپڑا نہیں باتیں رفو کرنے کا اعلی ماہر تھا۔ وہ بادشاہ سلامت کی ہر بات کی کچھ ایسی وضاحت کردیتا کہ سننے والے سر دھننے لگتے کہ واقعی بادشاہ سلامت نے صحیح فرمایا۔
ایک دن بادشاہ سلامت دربار لگا کر اپنی #ImranKhan
++++
جوانی کے شکار کی کہانیاں سنا کر رعایا کو مرعوب کر رہے تھے۔ جوش میں آکر کہنے لگے کہ ایک بار تو ایسا ہوا کہ میں نے آدھے کلومیٹر سے نشانہ لگا کر جو ایک ہرن کو تیر مارا تو تیر سنسناتا ہوا گیا اور ہرن کی بائیں آنکھ میں لگ کر دائیں کان سے ہوتا ہوا پچھلی دائیں ٹانگ #ImranKhan
++++
کے کھر میں جا لگا۔
بادشاہ کو توقع تھی کہ عوام داد دے گی لیکن عوام نے کوئی داد نہیں دی۔ وہ بادشاہ کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے۔ بادشاہ بھی سمجھ گیا کہ ضرورت سے زیادہ لمبی چھوڑ دی۔ اپنے رفوگر کی طرف دیکھا۔ رفوگر اٹھا اور کہنے لگا حضرات میں چشم دید گواہ ہوں #ImranKhan
++++
گوروں کے سیاہ کارنامے #ملکہ_زینت_محل
ملکہ الزبتھ کا انتقال ہوا تو مجھے ملکہ زینت محل یاد آگئیں۔ یادیں ہاتھ تھامے رنگون کے مضافات تک لے گئیں جہاں ایک بے نام قبر میں یہ ملکہ سو رہی ہے۔
ملکہ الزبتھ ایک بھلی خاتون تھیں۔ باوقار اورسنجیدہ۔ چہرہ اگر مزاج کا انتساب ہوتا ہے
++++
تو وہ یقینا ایک شاندار خاتون ہوں گی۔ان کے چہرے کی جھریوں میں مگر مجھے زینت محل بھی نظر آتی ہیں۔ بر صغیر کی آخری ملکہ۔ بہادر شاہ ظفر کی اہلیہ۔ یہ مغلوں کی واحد ملکہ ہیں جن کی کیمرے کی تصویر دستیاب ہے۔
ایک برطانوی ملکہ ہیں ایک مقامی ملکہ ہیں۔ دونوں کے چہرے سے ایک جیسا وقار
++++
چھلک رہا ہے۔ وقار کا تعلق شاید ہوتا ہی آسودگی اور اقتدار سے ہے۔ ملکہ زینت محل کی تصویر کچھ سادہ سی ہی ہے۔ شاید اس لیے کہ بلیک اینڈ وائٹ ہو یا پھر شاید یہ ان زمانوں کی تصویر ہو جب وقت اپنی چال چکا تھا اور ملکہ کا اقتدار ختم ہو چکا تھا۔ جو بھی وجہ رہی ہو لیکن تصویر بتا رہی ہے کہ
++
یہ پڑھیں ایک تاریخی تحریر جو ہم سب کے لیے حیران کن ہوگی ۔
*تاریخی حقائق*
08 مارچ 1975
70 کی دہائی میں ،
کراچی میں ایک با اختیار شہری حکومت قائم کرنے کی تحریک شروع ہوئی.
اسکے روح رواں ایک غیر معروف، غیرسیاسی شخصیت تھے.
انکا نام تھا مرزا جواد بیگ.
شہری حکومت کے #14August
++
کے لیے اس تحریک کی کراچی میں بھرپور پزیرائی ہوئی.
پاکستان کے پہلے وزیر تعلیم
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی،
پروفیسر اے.بی.اے حلیم
اور سید حسین امام جیسے سنجیدہ فکر بزرگوں نے بھی مرزا جواد بیگ کا ساتھ دیا،
کراچی میں دیکھتےہی دیکھتے تحریک شہری حکومت کے 60 سے زیادہ علاقائی یونٹ
+++
قائم ہوگئے،
مہاجر اکابرین نے جمع ہو کر مقامی حکومت کے لیے ایک بڑے کنونشن کی تیاری کرنے لگے۔۔
لیکن کنونشن سے صرف ایک روز قبل مرزا جواد بیگ کو گرفتار کر لیا گیا.
نہ کوئی جرم !
نہ کوئی الزام !
نہ کوئی ایف آئی آر !
ان کی گرفتاری کے ایک روز بعد ایک خصوصی آرڈیننس جاری کیا گیا
++++