ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں کرکٹ کے مقابلے بھی پوری چکا چوند سے جاری ہیں اور جہاں سے لوگ نقل مکانی کرتے ہوئے اپنی جان بھی گنوا رہے ہیں
ملیے شاہدہ رضا سے،
اِن کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تھا،یہ
👇
فٹ بال اور ہاکی کی غالباً واحد خاتون کھلاڑی تھیں جنہوں نے بیک وقت دو کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی، اِن کا ایک معذور بیٹا تھا ، وہ چاہتی تھیں کہ اُس کا علاج ہواور وہ باقی بچوں کی طرح اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے ، انہیں جو بھی تنخواہ ملتی وہ اپنےتین سال کے معذور بچے پر خرچ
👇
کر دیتیں مگر گزشتہ برس جب اُن کی نوکری ختم ہوگئی تو وہ بالکل دل برداشتہ ہوگئیں اور انہوں نےبچے کے علاج کی خاطرملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا
پہلے وہ ترکی پہنچیں اور پھر وہاں سے کشتی کے ذریعے اٹلی پہنچنے کی کوشش کی،اِس سفر کے چوتھےروز تک اُن کا اپنے خاندان والوں سے رابطہ تھا اور وہ
👇
خوش تھیں کہ یہ اذیت ناک سفر ختم ہونے والا ہے مگر انہیں کیا پتا تھا کہ اُن کازندگی کا سفر ہی ختم ہوجائے گا۔ کشتی سمندر میں الٹ گئی اور شاہدہ رضا اپنے تمغوں اور شناخت سمیت ڈوب کر مرگئیں۔
اخبارات میں اُن کی جو تصویر شائع ہوئی ہے اُس میں وہ پاکستانی رنگ کا سبز بلیزر پہنے ہوئے ہیں
👇
جس پر جا بجا تمغے لگے ہیں،
ہر تمغہ ریاست ِ پاکستان کے چہرے پر ایک طمانچہ ہے 👋۔
۔ملیے آذان آفریدی سے ،
عمر چودہ برس، پشاور کا رہائشی ۔ آذان کا ایک بھائی سویڈن میں تھا اور ماموں اٹلی میں ، وہ پہلے اپنے ماموں کے پاس جانا چاہتا تھا تاکہ وہاں سے بھائی کے پاس سویڈن پہنچ سکے
👇
مگر سویڈن پہنچنے کی بجائے یہ بچہ بھی سمندر پار کرتے ہوئے راستے میں ڈوب کر مرگیا، وہ سفر کے دوران مسلسل اپنی ماں کے ساتھ رابطے میں تھا مگر جب اس کا رابطہ منقطع ہوگیا تو ماں بے حال ہو گئی،اسے جھوٹ موٹ تسلی دے کر بتایا گیا کہ وہ اٹلی پہنچ گیا ہے ،اِس وقت آذان کی ماں کا کیا حال ہے
👇
میں نہیں جانتا
ملیے اسد نعیم سے
خوش شکل اورا سمارٹ ،گوجر خان کا رہائشی، اپنے کاروبار کا مالک ۔کہتا تھا کہ پاکستان میں جتنی بھی محنت کرلو کچھ نہیں بنتا، اتنی محنت یورپ میں کروں تو اچھے پیسے کما سکتا ہوں۔ اُس نے ایک ایجنٹ کو 23 لاکھ روپے دئیے جس نے وعدہ کیا کہ وہ اسے قانونی
👇
طریقے سے ہوائی سفر کے ذریعے یورپ پہنچائے گا۔اسد نعیم اُس وقت تاجکستان تھا ، وہاں سے وہ لیبیا پہنچا جہاں سے ،بقول ایجنٹ ،سفر شروع ہونا تھا ، مگر پھر اسے مجبوری کے عالم میں کشتی کے ذریعے سفر کرنا پڑا، اس کشتی میں آٹھ سے دس افراد کی گنجائش تھی مگر ایجنٹ نے اِس میں تیس افراد ٹھونس
👇
ٹھونس دئیے ،کشتی کھلے سمندر میں بمشکل ڈیڑھ کلومیٹر تک گئی اور پھر الٹ گئی ، اسد نعیم وہیں ڈوب کر مرگیا
شاہدہ رضا ،آذان اور اسد نعیم جیسے ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جو اپنے ملک سے مایوس ہو کر’ ’ہر قیمت پر‘‘ باہر سیٹل ہونا چاہتے ہیں ، اِن میں سے چندہی خوش قسمت ایسے ہوتے ہیں
👇
جو بحفاظت یورپ پہنچ پاتے ہیں
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اِس سفر کا خطرہ مول لینا چاہیے ، انگریزی میں بولیں تو is it worth taking this risk?
اِس سوال کا جواب دینے کے لیے ضروری ہے کہ آپ the swimmersنامی فلم دیکھیں
یہ فلم دو بہنوں کی حقیقی زندگی پر بنائی گئی ہے
👇
یہ دونوں لڑکیاں شام کی رہائشی تھیں ، بہترین تیراک تھیں، اِن کے باپ کی خواہش تھی کہ وہ اپنے ملک کی طرف سے اولمپک میں شرکت کریں، بد قسمتی سے شام میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور اِن دونوں لڑکیوں نے شام سے جرمنی جانے کا فیصلہ کیا، پہلے یہ بذریعہ جہاز استنبول پہنچیں، وہاں انہیں
👇
مختلف ممالک کے اور لوگ بھی مل گئے جو یورپ جانا چاہتے تھے
یہیں سے اُن سب کا اذیت ناک اور دل دہلا دینے والا سفر شروع ہوتا ہے
ایک ایجنٹ اُن تیس پینتیس لوگوں کو ایک خستہ حال کشتی میں ٹھونس دیتا ہے، کشتی سمندر میں ڈوبنے سے بال بال بچتی ہے ، ایک موقع پر کشتی میں سے کسی کا فون کام
👇
کرجاتا ہے اور وہ یونان کی ساحلی پولیس سے مددکی درخواست کرتے ہیں مگر آگے سے کورا جواب ملتا ہے کہ یہ حکومت کی پالیسی نہیں ،بدقت تمام وہ لوگ یونان کے ایک جزیرے تک پہنچ پاتے ہیں
وہاں سے پھر ایک ایجنٹ انہیں ہنگری کی سرحد پار کروانے کے عوض پیسے لیتا ہےاور یوں وہ ہنگری سے جرمنی کی
👇
سرحد میں داخل ہوجاتے ہیں۔ میں نے تین سطروں میں یہ کہانی لکھ تو دی ہے
مگر حقیقت اِس سے کہیں زیادہ خوفناک ہے
جو لوگ سمندر کے راستے غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخل ہونا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ ایک مرتبہ یہ فلم ضرور دیکھیں
تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ اصل میں یہ سفر
👇
کس قدر کٹھن اور خطرات سے پُر ہے
انسانی اسمگلر دراصل بہت چالاکی سے معصوم لوگوں کو یہ کہہ کر شیشے میں اتارتے ہیں کہ سب کام قانونی ہوگا اور انہیں بہترین کشتی کے ذریعے بحفاظت یورپ پہنچایا جائے گا، مگر جب یہ لوگ ترکیہ کے ساحل پر پہنچتے ہیں تو انہیں پتا چلتا ہے کہ اُن کے ساتھ
👇
دھوکہ ہو چکاہے مگر اُس وقت واپسی تقریباً نا ممکن ہوتی ہے
آخر لوگ اپنے ملک سے اِس قدر مایوس کیوں ہیں کہ اپنی جان پرکھیل کرملک چھوڑنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں ؟؟؟
انسان امید پربھی جی لیتے ہیں بشرطیکہ ملک کی سمت درست ہو، لیکن یہاں تو گزشتہ پچھتر برس سے ہی سمت درست نہیں
👇
بلکہ سچ پوچھیں تو ہمارے پاس سمت بتانے والا آلہ ہی نہیں
آج کی تاریخ میں جب ہم کوڑی کوڑی کے محتاج ہوچکے ہیں اور ایک ایک ڈالر کے لیے دنیا کی منتیں کرتے پھر رہے ہیں
ہم نے کرکٹ کا میلہ سجایا ہوا ہے جس میں غیر ملکی کھلاڑیوں ، ایمپائرز اور کمنٹری کرنے والوں کو لاکھوں ڈالر
👇
محض اپنی تفریح کے لیےادا کر رہے ہیں،
کون سی قیامت آجانی تھی اگر اِس مرتبہ کرکٹ کا یہ میلہ نہ ہوتا!ہماری انہی حرکتوں کی وجہ سےدنیا ہم سے بیزار ہوچکی ہے اور اپنے ملک کے شہری نا امید ہوچکے ہیں ۔
👇
انہیں ٹوٹی ہوئی کشتی میں بحیرہ روم کا سفر کرنا قبول ہے مگر اِس ملک میں رہنا قبول نہیں جہاں کا حکمران طبقہ نہ صرف نالائق ہے بلکہ بد نیت بھی ہے ، فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ نالائق زیادہ ہے یا بد نیت !
جب نمبر دار علاقہ کے ذمہ دار ہوا کرتے تھے تب مسافر کے علاج اور دیکھ بھال نہ کرنے پر نمبردار پر پرچہ ہوا تھا
تھانہ چکڑالہ میں انگریز حکمران کے اقتدار میں درج ایک تاریخی ایف آئی آر ملاحظہ کریں
یہ 1911 میں تھانہ چکڑالہ میں درج ایک ایف آئی آر ہے ۔یہ ایف آئی آر اُس وقت کے ابا خیل
👇
کے ایک نمبردار پر درج ہوئی ۔ نمبردار کا نام سردار خان لکھا ہوا ہے ۔ ایف آئی آر کے مطابق نمبردار کا جُرم یہ تھا کہ ایک مسافر ابا خیل میں آیا ،بیمار ہوا اور ایک بیری کے درخت کے نیچے فوت ہوگیا ۔اُس کے بعد پولیس نے پتہ کیا تو وہ شخص کیمبل پُور اٹک کا رہنے والا تھا۔ اس ایف آئی آر
👇
میں لکھا ہوا ہے کہ نمبردار صاحب آپکی ذمہ دار تھی کہ آپ اُس مسافر کا علاج کرواتے اور آپ اُسکو کھانا اور رہنے کی جگہ دیتے آپکی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے ایک انسان کی قیمتی جان چلی گئی ہے آپکو آپنے علاقے کا پتہ نہیں ہے.۔۔۔۔۔
👇
سُنو، بنتِ حوّا !
مَیں آدم کا بیٹا ہُوں
آؤ تسلی سے نمٹائیں جھگڑا
یہ حوّا کی عزت کا ہوّا بنا کر دکھایا گیا ہے
مجھے تم سے ناحق لڑایا گیا ہے
مَیں آدم کا بیٹا ہُوں اور جانتا ہُوں
کہ مرد اور عورت ہی فطرت کی گاڑی کے پہیے ہیں دو
اور دونوں ہی لازم ہیں، دونوں ضروری
👇
نہ ہو ایک بھی تو کہانی ادھوری
مجھے یہ خبر ہے
کہ مرد اور عورت محبت کے سکے کے دو رُخ ہیں
اور دونوں رُخ ہیں ضروری
نہ ہو ایک بھی تو کہانی ادھوری
تم اور میں بہت دیر سے ہم سفر ہیں
تُم اور مَیں اکٹھے ہی جنت کے گھر سے نکالے گئے تھے
اور اس خاکداں میں اُچھالے گئے تھے
👇
چلو میں نے مانا کہ شہرِ ہوس میں ہیں کافی درندے
جنہوں نے سدا ابنِ آدم کی شہرت کو پامال رکھا
مگر وہ درندے تو گنتی کے ہیں
ان گنت مرد وہ ہیں جنہوں نے تمہیں شان و تکریم بخشی
کبھی باپ بن کر،کبھی بھائی بن کر،کبھی بیٹا بن کر
وہی باپ جس نے تمہارے لیے اپنی جاں بیچ کر بھی کھلونے خریدے
👇
زیادتی کر رکھی ہے: اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقین جانو اللہ سارے گناہوں کو معاف کردیتا ہے، یقیناً وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے، بس تم اپنے رب سے لو لگالو۔‘‘
کسان اپنے گدھے کو اپنے گھر کے سامنے باندھنے کیلئے ہمسائے سے رسی مانگنے گیا تو ہمسائے نے انکار کرتے ہوئے کہا؛ رسی تو نہیں ہے میرے پاس، مگر ایک بات بتاؤں، جا کر عمل کرو تو رسی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ہمسائے نے کہا؛ اپنے گدھے کے پاس جا کر بالکل ایسی حرکتیں کرو جیسے رسی کو گردن میں
👇
ڈال کر کستے اور پھر کھونٹی کے ساتھ باندھتے ہیں، دیکھنا گدھا بغیر کوئی حرکت کیے ویسے ہی کھونٹے کے پاس کھڑا رہے گا۔
کسان نے گدھے کے پاس جا کر ہمسائے کی نصیحت پر عمل کیا اور گھر میں جا کر سو گیا۔ دوسری صبح باہر جا کر دیکھا تو گدھا ویسے کا ویسا کھونٹے کے پاس بیٹھا ہے۔
کسان نے گدھے
👇
کو ہانک کر کام پر لے جانا چاہا تو نئی آفت آن پڑی کہ گدھا اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نا ہوا۔ کھینچنے، زور لگانے اور ڈنڈے برسانے سے بھی کام نا بنا تو ہمسائے سے جا کر کہا؛ بھئی تیری نصیحت باندھ دینے تک تو ٹھیک تھی مگر اب میرا گدھا کام تو جاتا رہا ہے، اب کیا کروں؟
ہمسائے نے پوچھا؛
👇
لیو پولڈویس ١٩٢٠ء کی دہائی میں جرمنی کے شہر " برلن" میں فلسفہ کا استاد تھا۔برلن یونیورسٹی تک پہنچنے کے لئے وہ روزانہ ریل پر سوار ہو کر منزلِ مقصود تک پہنچتا۔ریل کے سفر میں کوئی شخص اخبار پڑھ رہا ہوتا، کوئی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوتا اور کوئی ویسے ہی اونگھ رہا ہوتا ۔
👇
لیکن پروفیسر لیو پولڈویس فلسفہ کا استاد تھا وہ کتاب یا اخبار کے بجائے لوگوں کے چہرے دیکھتا اور یہ جانچنے کی کوشش کرتا کہ. مسافروں کے دلوں پر کیا بیت رہی ہے ۔ایک روز اچانک اس پر انکشاف ہوا کہ ٹرین پر سوار ملازمت پر جانے والے افراد خوشی اور سکون کے جذبے سے خالی ہیں ۔اسے اس
👇
انکشاف پر حیرت بھی ہوئی، کیونکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں بے روزگاری زوروں پر تھی اور بہت کم لوگ ایسی ملازمتیں حاصل کر سکتے تھے جس کے لیے وہ ٹرین پر سوار ہو کر منزلِ مقصود تک پہنچتے۔
پھر لیوپڈ نے اپنی سوچ کو مزید پھیلایا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ لوگ ہنستے بھی ہیں، مذاق
👇
اگر ایک تنہا کمرے میں ایک مرد اور ایک عورت کو بند کیا جائے اور ان کو صرف اتنا بتا دیا جائے کہ یہاں کیمرہ لگا ہے جو آپ کے حرکات کو ریکارڈ کر رہا ہے اور بوقت ضرورت یہ پبلک بھی ہوسکتا ہے، تو کوئی بھی صاحب عقل، عزت دار اور خاندانی انسان اس خوف کے
👇
مارے غلط حرکت نہیں کرسکتا کہ کہیں لوگوں کے سامنے رسوا نہ ہوجاوں۔
کیوں؟
اس لئے کہ ہمیں اس چھوٹی سی مشین پر یقین ہے اور اس کے مالک سے ڈر ہے اور دنیا میں اپنے جاننے والوں کے درمیان رسوائی کا خوف ہے۔
جبکہ یہی تنبیہ ہمیں مالک کائنات نے سچ اور حق کتاب میں فرمائی ہے کہ آپ کا لمحہ
👇
لمحہ ریکارڈ ہورہا ہے،
انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا ، مگر اس پر ایک نگراں فرشتہ مقرر ہوتا ہے ، ہر وقت اس کے ہر عمل کو لکھنے کے لیے تیار !
🔹سورہ ق 18
یقین رکھو تمہارا پروردگار سب کو نظر میں رکھے ہوئے ہے
🔹سورہ فجر 14
خلوت میں ہو یا جلوت میں، یہ ریکارڈنگ آلات کسی بھی
👇