پاک فوج دنیا کی واحد فوج ہے جس کی ملکی معیشت کے اندر اپنی الگ #معاشی_سلطنت قائم ہے
پاکستان کی کم و بیش 60% معیشت میں حصہ دار ہے
ایمانداری اور حب الوطنی میں اس کی مثال نہیں ملتی
جواس کے غلط کاموں پر سوال اٹھا تاھے
اسے مار دیا جاتاھے
یا غدار قرار
👇1/25
قرار دیکر عوام میں ذلیل کیا جاتاہے یا اگر فوج کےاندر اس پر سوال اٹھتاھےتو اسکا کورٹ مارشل کیا جاتاھے
پاک فوج کے کاروباری سلطنت کے
4 حصے ہیں:
01۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ
02۔ فوجی فاؤنڈیشن
03۔ شاہین فاؤنڈیشن
04۔ بحریہ فاؤنڈیشن
فوج ان 4 ناموں سےکاروبار کر رہی ہے۔ یہ سارا کاروبا
👇2/25
وزارت دفاع کےماتحت کیا جاتاھے
اس کاروبار کو مزید3 حصوں میں تقسیم کیاگیاھے
#ٹرانسپورٹ
یہ پاکستان کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی ہے
جسکا 1,698 سےزائد گاڑیوں کا کارواں ہےاس میںکل 7,279 افراد کام کرتے ہیں جس میں سے2,549 حاضر سروس
👇3/25
فوجی ہیں
باقی ریٹائرڈ فوجی ہیں
#فرنٹیئر_ورکس_آرگنائیزیشن
(FWO
یہ پاکستان کا سب سے بڑا ٹھیکیدار ادارہ ہےاور اسوقت حکومت
کےسارے اہم
Constructional Tenders
جیسے روڈ وغیرہ انکےحوالےہیں اسکے ساتھ کئی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس لینےکیلئےبھی اس ادارے کو رکھا گیاھے
اس ادارے کو پاکستان کے
جموں وکشمیر، فاٹا اور Northern Areas میں کمیونیکیشن کا کام سونپا گیاھے
پاکستان کےسابق فوجی صدرجنرل پرویزمشرف نے ریٹائرمنٹ کیبعد (4-5) ہزار افسروں کو مختلف اداروں میں اہم عہدوں پر فائز کیا
ایک رپورٹ کیمطابق اسوقت پاکستان میں56 ہزار سول عہدوں پر فوجی
👇5/25
افسر متعین ہیں جن میں 1,600 کارپوریشنز میں ہیں۔
پاکستان رینجرز بھی اسی طرح کاروبار میں بڑھ کر حصہ لے رہی ہے جس میں سمندری علاقے کی 1,800 کلومیٹر لمبی سندھ اور بلوچستان کے ساحل پر موجود جھیلوں پر رسائی ہے۔ اس وقت سندھ کی 20 جھیلوں پر رینجرز کی عملداری ہے۔ اس ادارے کے پاس
👇6/25
اہم بات یہ ہے کہ FWO کو شاہراہوں پر بل بورڈ لگانے کے بھی پیسے وصول کرنے کا حق حاصل ہے۔
15 فروری 2005 میں پاکستان کے سینیٹ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ جس کے مطابق فوج کے کئی ادارے اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں اور ان کی یہ
👇7/25
سرمایہ کاری کسی بھی صورت میں عالمی سرمایہ کاری سےالگ نہیں ہے۔ در ذیل لسٹ سے اندازہ لگایا جا سکتاھےکہ افواج پاکستان کیسے اس سرمایہ کاری میں مصروف ہیں
👈آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے پروجکٹس
08۔ فاؤنڈیشن گیس کمپنی
09۔ فوجی فرٹیلائیزر کمپنی صادق آباد ڈہرکی
10۔ فوجی فرٹیلائیزر انسٹیٹیوٹ
11۔ نیشنل آئڈنٹٹی کارڈ پروجیکٹ
12۔ فاؤنڈیشن میڈیک کالج
13۔ فوجی کبیر والا پاور کمپنی
14۔ فوجی گارڈن فرٹیلائیزر گھگھر پھاٹک کراچی
15۔ فوجی سیکیورٹی کمپنی لمیٹڈ
پاکستان کے تمام
👇12/25
بڑے شہروں میں موجود کنٹونمنٹ ایریاز،ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیز،عسکری ہاؤسنگ پراجیکٹس اور زرعی اراضی اوپر دی گئی لسٹ کے علاوہ ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاک فوج کے تحت چلنے والے کاروباری ادارے،خسارے،کرپشن اور بدانتظامی میں پاکستان کے سٹیل مل اور پاکستان ایئر لائن(PIA) سمیت کسی
👇13/25
سرکاری ادارے سے پیچھے نہیں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اِن کا خسارہ کم دکھانے کا طریقہ اندرونِ مُلک اور بیرونِ مُلک سے لیے ہُوئے قرضوں کو ایکُوئیٹی دکھا کر بیلنس شیٹ بہتر دکھانے کا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ آج کی تاریخ میں بھی خسارے میں ہیں۔
یہ ایک ٹرینڈ ہے جو پچھلے 30 سال میں بار
👇14/25
بار ریپیٹ ہوتاھے اور ہر آڈٹ سے پہلےگورنمنٹ سے بیل آؤٹ پیکج نہ لیا جائے یا اندرونی و بیرونی قرضے نہ ہوں تو خسارہ ہر سال اربوں تک پہنچا کرے۔ لیکن ہر گورنمنٹ خود ان کو بیل آؤٹ پیکج دینے پر مجبور ہوجاتی ہے اور جوحکومت بیل آؤٹ پیکج دینے میں تامل کرے تو وہ حکومت گرادی جاتی ہے
👇15/25
سول حکومتوں کو دفاعی بجٹ کے بعد آرمی کے کاروباروں کو ملینز آف ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج بھی دینے پڑتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشنز بھی سول بجٹ سے ادا کی جاتی ہیں۔ پھر بیرونی قرضے اور اُنکا سُود وغیرہ ادا کر کے حکومت کے پاس جی ڈی پی کا کم و بیش 40% بچتا ہے پھر خسارہ پُورا کرنے
👇16/25
اور ملک چلانے اور اگلے سال کے اخراجات کے لیے نیا قرض لیا جاتا ہے۔
یہ ایک ایسا چکروی ہے جس میں پاکستانی قوم آہستہ آہستہ ایسا پھنستاچلا جا رہا ہے اور ہر گُزرتا سال پچھلے سال سے مُشکل ہوتا جا رہاھے
جولائی 2016 میں پاکستان کے سینیٹ میں وزارتِ دفاع نےتحریری جواب میں بتایاھے
👇17/25
کہ پاکستان کی فوج کے زیر انتظام 50 کاروباری کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔
اس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے تحریری جواب میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، فوجی فاؤنڈیشن اور بحریہ فاؤنڈیشن کے زیر انتظام کاروباری اداروں کی تفصیلات فراہم کیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے
👇18/25
سینیٹر فرحت اللہ بابر کیجانب سے پوچھےگئےایک سوال کےجواب میں وزارتِ دفاع نےبتایا کہ ان کاروباری اداروں میں رہائشی سکیمیں، فارمز، کھاد، چینی اور سیمنٹ بنانےکے کارخانے، ریسٹورنٹ، بینک، انشورنس کمپنی، کپڑے بنانے کےکارخانے، بجلی گھر، گوشت پراسیسنگ یونٹ اور سکیورٹی فراہم کرنے
👇19/25
کی کمپنیاں شامل ہیں
وزیر دفاع کا کہناتھاکہ ملک کی آمدن میں سےخطیر رقم دفاعی ضروریات پوری کرنےکیلئےفوج کو فراہم کیجاتی ہےتو پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی فوج اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ مختلف کاروباری ادارے بنانے اور انھیں وسعت دینے میں دلچسپی لیتی ہے؟
👇20/25
پاکستان میں دفاعی اُمور کی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ وہ ممالک جہاں فوج کو مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کیےجاتے وہاں فوج کو محدود پیمانے پر کاروبار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن پاکستانی حکومت میں فوج کو پورے وسائل فراہم کرتی ہے
انھوں نےکہا کہ 50 کی دہائی میں
👇21/25
یہ ادارے فوج سےریٹائر ہونیوالے افسران کو مراعات فراہم کرنے
کہلئےبنائےگئےتھے لیکن ریٹائرڈ فوجیوں کو پینشن بھی ملتی ہے
عائشہ صدیقہ نےکہا کہ
پیشہ وارانہ افواج اپنےآپکو کاروباری سرگرمیوں میں مصروف نہیں کرتیں اور فوج کو ملنےوالے فنڈ کا آڈٹ تو ہوتا نہیں
اسلئےیہ بھی نہیں معلوم
👇22/25
کہ کیا فوج کو ملنےوالا بحٹ کہیں ان نجی کاروباری اداروں میں تو استعمال نہیں ہوتا۔یہ بھی واضح طور پر معلوم نہیں ہےکہ ان میں کتنےریٹائرڈ اور کتنےحاضر سروس افراد شامل ہیں
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ فوج کو کاروباری ادارےبنانےکا کوئی جواز موجود نہیں اور اس سےخود فوج کیلئے
👇23/25
پیشہ ورانہ مسائل پیدا ہو رہےہیں
2005 میں پاکستان کےایوان بالا میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے
ہی PPPکیجانب سےفوج کی کاروباری کمپنیوں کے بارے میں سوال اٹھایاتھا اور اسوقت کے
وزیرِ دفاع #راؤ_سکندر نےفوج کی ان کاروباری کمپنیوں کی تعداد 55 بتائی تھی
2018میں فیض آباد دھرنا کیس
👇24/25
کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کےجسٹس شوکت عزیز صدیقی نےبھی فوج کی کاروباری سرگرمیوں پر سوال اٹھایاتھا
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نےکہا ہےکہ دنیا کی کوئی فوج کاروباری سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوتی۔ پاک فوج کیوں #سیمنٹ اور #گوشت فروخت کر رہی ھے
End
فالو اور شیئر پلیز🙏
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اپنی انڈسٹری اپنےہاتھوں سےتباہ کرکےاب ہم دنیا کی منتیں کررہے
ہیں
ہمارے ہاں انڈسٹری لگائیں
پاکستان کےقیام کیبعد #آٹو_موبائل_انجینئرنگ
کی ابتدائی تاریخ اور اس صنعت پربدترین خودکش حملہ
#بنیشنلائیزیشن_1973_بھٹو_نے_کی
👇1/30
#1955نیشنل_موٹر_کارپوریشن نے امریکن جنرل موٹرز کے اشتراک سے پاکستان کی پہلی #واکس_ہال_گاڑی
تیار کی
جبکہ بعد میں پاکستاں کے مشہور زمانہ #بیڈ_فورڈ_ٹرک
اسی پلانٹ پر تیار کیے گئے۔
1953 میں ایکسائڈ بیٹریز نے ہاشوانی فیملی کے ساتھ مل کر پاکستان کا پہلا بیٹری پلانٹ لگایا
👇2/25
1954 میں علی موٹرز نے
فورڈ موٹرز امریکہ کیساتھ مل کر پہلی کار
ٹرک اور اسکے بعد پک اپ ٹرک تیار کرنےکی غرض سےپلانٹ لگایا
1956 میں ہارون انڈسٹریز
نےڈوجے امریکہ کےبرینڈ نیم
سےپک اپ ٹرک تیار کیا
1961 میں آل ون انجینئرنگ نے پاکستان میں گاڑیوں کےپارٹس تیار کرنےکا جدید پلانٹ لگایا
👇3/25
بلوچستان میں بارکھان کی تحصیل رکھنی میں مسلح افراد نےشناختی کارڈ دیکھ کر
7 مسافروں کو بس سے اتارا اور قتل کردیا
واقعہ رکھنی کو ڈیرا غازیخان
سےملانے والی شاہراہ پر پیش آیا جہاں 10 سے 12 دہشتگردوں
نےکوئٹہ سے فیصل آباد جانیوالی مسافر بس کو روک کر اس میں سے7 مسافر شناخت کرکے
👇1/4
نیچے اتارے اور انہیں گولیاں
مار کر فرار ہوگئے
جاں بحق افراد کا تعلق پنجاب کے مختلف شہروں سےتھا
اسسٹنٹ کمشنر بارکھان خادم حسین کا کہناھے کہ بس کے 7 مسافروں کو اتار کر فائرنگ کرکے قتل کیاگیا
اسسٹنٹ کمشنر کیمطابق بس کوئٹہ سے فیصل آباد جارہی تھی لیویز اور ایف سی نے علاقے کو
👇2/4
گھیرے میں لے لیاھے
لاشوں کو رکھنی اسپتال منتقل کیا جارہاھے
بس کے مسافر ذیشان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےبتایا کہ 10، 12 مسلح افراد نے بس کو روکا اور پھر 7 مسافروں کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا
ذیشان نےبتایا کہ میرے بھائی عدنان کو بھی بس سےاتار کر قتل کیا گیا
👇3/4
#آگے_بڑھتا_پاکستان
پاکستان میں حال ہی میں متعارف کروائی گئی الیکٹرک گاڑی
#گوگو_باکس کی آفیشل قیمت کا اعلان کر دیا گیاہے
اور بکنگ بھی شروع کر دیگئی ہے E1 بیسک کی قیمت 63,00,000 روپے جبکہ بکنگ 5,00,000 روپے پرکروائی جا سکتی ہے
میں متعارف کروائی گئی الیکٹرک وہیکل #گوگو_باکس
کے تین ویرینٹس صارفین کیلئے پیش کئے جارہےہیں
جن میں E1، E2، اور E3 شامل ہیں
کمپنی کیجانب سے تین مختلف آفرز متعارف کرائی گئی ہیں
جن میں لانچ ڈے آفر
ابتدائی بکنگ آفر
ریگولر قیمت شامل ہیں
#اڑان_پاکستان
گوگو باکس ای وی کی قیمتیں
👇2/6
سب سے پہلے، لانچ ڈے آفر کے تحت مختلف ویرینٹس کی قیمتیں درج ذیل ہیں
E1 کی پروموشنل قیمت 60,00,000 روپے ہے
E2 کی قیمت 65,00,000 روپے، جبکہ E2 سیمی 430 کلومیٹر رینج) کی قیمت 71,00,000 روپے ہے ۔
جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال شاعر مشرق علامہ اقبال کےصاحبزادے تھے
ڈاکٹرصاحب نے1970ء کے انتخابات میں لاہور سے ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف الیکشن لڑا لاہور میں اسوقت دو بڑے صنعتی گروپ تھے
#اتفاق_گروپ اور #بٹالہ_انجینئرنگ_کمپنی
#بیکو
👇1/25
میاں شریف اتفاق گروپ کے
روح رواں تھے
جبکہ سی ایم لطیف بیکو کے
مالک تھے
دونوں گروپوں نےجسٹس جاوید اقبال کو سپورٹ کیا
الیکشن کےدن میاں شریف
نےجاوید اقبال کے ووٹروں کیلئے ٹرانسپورٹ اورکھانےکا بندوبست کیا
جبکہ سی ایم لطیف نےالیکشن
کےباقی اخراجات برداشت کئے ذوالفقار علی بھٹو نے
👇2/25
الیکشن سے پہلے دونوں کو
عبرتناک سزا کی نوید سنا دی
لیکن یہ دونوں اپنی کمٹمنٹ سے پیچھےنہ ہٹے
آپ دونوں کی بدنصیبی ملاحظہ کیجئے
ذوالفقار علی بھٹو 1971ء کےآخر میں سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے
آئین معطل ہوا اورحکومت نےملک کےتمام صنعتی اور پرائیویٹ ادارے سرکاری تحویل میں لےلئے
3/25
#میں_زندہ_ہوں
مزاح یا حقیقت
توجہ طلب👇
ایک پارٹی میں جس میں مشہور شخصیات نے شرکت کی
ایک بزرگ آدمی چھڑی کی مدد سے اسٹیج پر آئے اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے
میزبان نے پوچھا، "کیا آپ اب بھی اکثر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں؟ بوڑھے نے کہا، ہاں، میں اکثر جاتا ہوں
میزبان نے پوچھا۔ #کیوں؟
👇1/6
بوڑھے نے کہا، مریض کو اکثر ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے
تب ہی ڈاکٹر بچ سکتا ہے۔ حاضرین نے بوڑھے آدمی کی مضحکہ خیز زبان پر تالیاں بجائیں
میزبان نے پھر پوچھا: "کیا آپ دوبارہ فارماسسٹ کے پاس جاتے ہیں؟
بوڑھے نے جواب دیا، #ضرور۔ کیونکہ فارماسسٹ کو بھی جینا پڑتا ہے
اس سے سامعین نے
👇2/6
مزید تالیاں بجائیں
میزبان نے پھر پوچھا، "تو کیا آپ فارماسسٹ کی دی ہوئی دوا بھی کھاتے ہیں؟
بوڑھے نے کہا نہیں! میں اسے اکثر پھینک دیتا ہوں کیونکہ مجھے بھی جینا ہے
اس نے سامعین کو اور بھی ہنسایا
آخر میں میزبان نے کہا: "اس انٹرویو کے لیے آنے کا شکریہ بوڑھے نے جواب دیا
👇3/6