احمقوں کی بستی میں ایک بکرے کا سر گھڑے میں پھنس گیا۔ سب بستی والے اکٹھے ہوئے مگر بکرے کا سر گھڑے سے نہیں نکال سکے
آخر فیصلہ ہوا کہ بستی کے سب سے سیانے بزرگ کے پاس چلتے ہیں
بزرگ نے ساری کتھا سنی،حقے کے دو کش لگائے اور آنکھیں بند کر کے گہری سوچ میں ڈوب گیا
👇
پھر آنکھیں کھولیں اور بولا کہ اتنا آسان حل ہے، تم احمقوں کو کیوں سمجھ نہیں آیا۔
بستی کا ایک لڑکا کھڑا ہوا اور بولا میں نے کتنی بار کہا ہے کہ گھڑا توڑ دو مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن میری کوئی سنتا ہی نہیں۔
بزرگ نے ایک کش اور لگایا اور غصے سے بولا کہ گھڑا توڑتے ہوئے بکرے کو
👇
چوٹیں لگیں گی اور اسے تکلیف ہوئی تو کون ذمہ دار ہو گا؟
سب احمقوں نے ستائشی انداز میں سر ہلا کر بزرگ کی دانش کو داد دی۔ اور لڑکا شرمسار ہو کر بیٹھ گیا
آخر بزرگ نے کہا ایک چھری لاؤ۔ چھری آ گئی تو اس نے بکرے کی گردن کاٹنے کا حکم دیا
حکم پر عمل ہوا تو اس نے کہا اب گھڑا توڑ دو
👇
اب بکرے کو کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔
گھڑا توڑا گیا اور بکرے کا سر صحیح سلامت باہر نکل آیا۔ سب بستی والوں نے تالیاں بجا کر بزرگ کو داد دی۔
Copied
نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی پی ٹی آئی کی ریلی کے شرکاء کے ساتھ ایسی ہی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا
تختہ کھینچا گیا تو ایک جسم دار پر جھولنے لگا جسے دیکھ کر سامنے کھڑی بوڑھی عورت کی آنکھ سے ایک اشک نکل کر اس کے رخسار کی جھریوں میں تحلیل ہوگیا..
یہ 5 جون 1992 تھا، ٹنڈو بہاول سندھ کے گاؤں میں
👇
ایک حاضر سروس میجر ارشد جمیل نے پاک فوج کے دستے کے ساتھ چھاپہ مار کر9 کسانوں کو گاڑیوں میں بٹھایا اور جامشورو کے نزدیک دریائے سندھ کے کنارے لے جا کر گولیاں مار کر قتل کر دیا
فوج کے ان افسران نے الزام لگایا کہ یہ افراد دہشت گرد تھے اور ان کا تعلق بھارت سے تھا
لاشیں گاؤں آئیں
👇
تو نہ صرف گاؤں بلکہ پورے علاقے میں کہرام مچ گیا ہر ماں اپنے بیٹے کی لاش پر ماتم کر رہی تھی ان کے بین دل دہلا رہے تھے، ان ماؤں میں ایک 72 سال کی بوڑھی عورت مائی جندو بھی تھی۔
اس کے سامنے اس کے دو بیٹوں بہادر اور منٹھار کے علاوہ داماد حاجی اکرم کی لاش پڑی تھی مگر وہ خاموش تھی،
👇
گزشتہ دنوں ڈاکٹر محسن ممتاز صاحب ملتان سے اپنے نجی کام سے واپس وہاڑی آرہے تھے کہ راستے میں سڑک کنارے چار کار سواروں کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار دیں. دو کو کولہے کی ہڈی کے پاس ٹانگوں میں اور دو کو پیٹ میں گولیاں لگیں.
👇
وحشت کا عالم ھے مریض درد سے کراہ رہے ہیں ڈر کے مارے لوگ گاڑیاں بھگا کر لے جا رہے کہ ان پر بھی حملہ نہ ھو جائے
ڈاکٹر محسن کی گاڑی اسی سڑک سے گزرتی ھے خون میں لت پت چار لوگوں پر نظر پڑتی ھے. جذبہء مسیحائی غالب آتا ھے. تمام خطرات مول لیتے ہوئے گاڑی سائیڈ پر کرتے ہیں اور 1122 کو
👇
پہلے کال کرتے ہیں. پھر اپنی گاڑی سے ایمرجنسی کٹ نکال کر درد سے کراہتے افراد کی طرف بڑھتے ھیں. فوری چاروں مریضوں کے جسموں سے نکلتے خون کو روکنے کی کوشش میں لگ جاتے. ریسکیو 1122 کی ایمبولینس آتی ھے تو ڈاکٹر محسن ان چاروں کو ملتان نشتر ہسپتال بھیجتے ھیں اور ساتھ وہاں جاننے والے
👇
کہتے ہیں کہ کسی ملک کے بادشاہ کو منفرد نظر آنے کا خبط تھا۔ اس کے لیے وہ ہر روز کچھ نہ کچھ نرالا کرنے کیلئے تیار رہتا تھا۔ ایک روز اس نے اپنے شاہی درزی کو حکم دیا کہ میں روز روز لباس بدلنے سے تنگ آ چکا ہوں، مجھے کوئی ایسا لباس بنا کر دو جو روزانہ کچھ نیا بن جائے، ایسا لباس
👇
جو کسی کے پاس نہ ہو، اوراگر تم ایسا نہ کر سکے تو تمہاری گردن اڑا دی جائے گیایسا لباس نہ بننا تھا نہ بنا۔ آخر بادشاہ کا بلاوا آ گیا، درزی نےاپنی زندگی کی آخری بازی کھیلنے کا فیصلہ کر لیا، جان تو ویسے بھی جانا ہی تھی، کچھ چالاکی کر کے آخری کوشش کیوں نہ کی جائے۔ یہی سوچ کر وہ
👇
ایک مرصع صندوق لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ لباس تیار ہے، بس حضور یہ احتیاط فرمائیں کہ اسکو غسل کے بعد اکیلے میں زیب تن فرمائیں، ایسا لباس دنیا میں ایک ہی ہے، اسکی خوبیاں بے شمار ہیں۔ آخری خوبی اسکی یہ ہے کہ یہ لباس صرف عقل مند اور دور اندیش بندے کو ہی
👇
ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں کرکٹ کے مقابلے بھی پوری چکا چوند سے جاری ہیں اور جہاں سے لوگ نقل مکانی کرتے ہوئے اپنی جان بھی گنوا رہے ہیں
ملیے شاہدہ رضا سے،
اِن کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تھا،یہ
👇
فٹ بال اور ہاکی کی غالباً واحد خاتون کھلاڑی تھیں جنہوں نے بیک وقت دو کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی، اِن کا ایک معذور بیٹا تھا ، وہ چاہتی تھیں کہ اُس کا علاج ہواور وہ باقی بچوں کی طرح اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے ، انہیں جو بھی تنخواہ ملتی وہ اپنےتین سال کے معذور بچے پر خرچ
👇
کر دیتیں مگر گزشتہ برس جب اُن کی نوکری ختم ہوگئی تو وہ بالکل دل برداشتہ ہوگئیں اور انہوں نےبچے کے علاج کی خاطرملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا
پہلے وہ ترکی پہنچیں اور پھر وہاں سے کشتی کے ذریعے اٹلی پہنچنے کی کوشش کی،اِس سفر کے چوتھےروز تک اُن کا اپنے خاندان والوں سے رابطہ تھا اور وہ
👇
جب نمبر دار علاقہ کے ذمہ دار ہوا کرتے تھے تب مسافر کے علاج اور دیکھ بھال نہ کرنے پر نمبردار پر پرچہ ہوا تھا
تھانہ چکڑالہ میں انگریز حکمران کے اقتدار میں درج ایک تاریخی ایف آئی آر ملاحظہ کریں
یہ 1911 میں تھانہ چکڑالہ میں درج ایک ایف آئی آر ہے ۔یہ ایف آئی آر اُس وقت کے ابا خیل
👇
کے ایک نمبردار پر درج ہوئی ۔ نمبردار کا نام سردار خان لکھا ہوا ہے ۔ ایف آئی آر کے مطابق نمبردار کا جُرم یہ تھا کہ ایک مسافر ابا خیل میں آیا ،بیمار ہوا اور ایک بیری کے درخت کے نیچے فوت ہوگیا ۔اُس کے بعد پولیس نے پتہ کیا تو وہ شخص کیمبل پُور اٹک کا رہنے والا تھا۔ اس ایف آئی آر
👇
میں لکھا ہوا ہے کہ نمبردار صاحب آپکی ذمہ دار تھی کہ آپ اُس مسافر کا علاج کرواتے اور آپ اُسکو کھانا اور رہنے کی جگہ دیتے آپکی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے ایک انسان کی قیمتی جان چلی گئی ہے آپکو آپنے علاقے کا پتہ نہیں ہے.۔۔۔۔۔
👇
سُنو، بنتِ حوّا !
مَیں آدم کا بیٹا ہُوں
آؤ تسلی سے نمٹائیں جھگڑا
یہ حوّا کی عزت کا ہوّا بنا کر دکھایا گیا ہے
مجھے تم سے ناحق لڑایا گیا ہے
مَیں آدم کا بیٹا ہُوں اور جانتا ہُوں
کہ مرد اور عورت ہی فطرت کی گاڑی کے پہیے ہیں دو
اور دونوں ہی لازم ہیں، دونوں ضروری
👇
نہ ہو ایک بھی تو کہانی ادھوری
مجھے یہ خبر ہے
کہ مرد اور عورت محبت کے سکے کے دو رُخ ہیں
اور دونوں رُخ ہیں ضروری
نہ ہو ایک بھی تو کہانی ادھوری
تم اور میں بہت دیر سے ہم سفر ہیں
تُم اور مَیں اکٹھے ہی جنت کے گھر سے نکالے گئے تھے
اور اس خاکداں میں اُچھالے گئے تھے
👇
چلو میں نے مانا کہ شہرِ ہوس میں ہیں کافی درندے
جنہوں نے سدا ابنِ آدم کی شہرت کو پامال رکھا
مگر وہ درندے تو گنتی کے ہیں
ان گنت مرد وہ ہیں جنہوں نے تمہیں شان و تکریم بخشی
کبھی باپ بن کر،کبھی بھائی بن کر،کبھی بیٹا بن کر
وہی باپ جس نے تمہارے لیے اپنی جاں بیچ کر بھی کھلونے خریدے
👇