تختہ کھینچا گیا تو ایک جسم دار پر جھولنے لگا جسے دیکھ کر سامنے کھڑی بوڑھی عورت کی آنکھ سے ایک اشک نکل کر اس کے رخسار کی جھریوں میں تحلیل ہوگیا..
یہ 5 جون 1992 تھا، ٹنڈو بہاول سندھ کے گاؤں میں
👇
ایک حاضر سروس میجر ارشد جمیل نے پاک فوج کے دستے کے ساتھ چھاپہ مار کر9 کسانوں کو گاڑیوں میں بٹھایا اور جامشورو کے نزدیک دریائے سندھ کے کنارے لے جا کر گولیاں مار کر قتل کر دیا
فوج کے ان افسران نے الزام لگایا کہ یہ افراد دہشت گرد تھے اور ان کا تعلق بھارت سے تھا
لاشیں گاؤں آئیں
👇
تو نہ صرف گاؤں بلکہ پورے علاقے میں کہرام مچ گیا ہر ماں اپنے بیٹے کی لاش پر ماتم کر رہی تھی ان کے بین دل دہلا رہے تھے، ان ماؤں میں ایک 72 سال کی بوڑھی عورت مائی جندو بھی تھی۔
اس کے سامنے اس کے دو بیٹوں بہادر اور منٹھار کے علاوہ داماد حاجی اکرم کی لاش پڑی تھی مگر وہ خاموش تھی،
👇
عورتیں اسے بین کرنے پر اکسا رہی تھیں ، مائی جندو سکتے کے عالم میں بیٹوں اور داماد کے چہرے دیکھے جا رہی تھی۔
ہر شخص کہہ رہا تھا کہ خاموشی سے میتیں دفنا دی جائیں قاتل بہت طاقتور تھے ان غریب ہاریوں کا ایسی طاقت والوں سے کیا مقابلہ، مائی جندو کو بار بار رونے کے لیے کہا گیا تو
👇
اس نے وحشت ناک نگاہوں سے میتیوں کی طرف دیکھا اور بولی بس ! مائی جندو ایک ہی بار روئے گی ,جب بیٹوں کے قاتل کو پھانسی کے پھندے میں لٹکتا دیکھے گی
سب جانتے تھے ایسا ممکن نہیں تھا مگر آخر لوگ خاموش ہوگئے، مائی جندو کی بیٹیاں کُرلا رہی تھیں مگر مائی جندو ساکت بیٹھی قتل ہونے والوں
👇
کو تکے جا رہی تھی۔
جنازے اٹھے تو مائی جندو نے سر کی چادر کمر سے باندھی سیدھی کھڑی ہوئی اور لہو ہوتے جگر کے ساتھ بیٹوں کو الوداع کیا۔
مسئلہ یہ تھا کہ یہ ٹنڈو بہاول اندرون سندھ کا ایک دور دراز گاؤں تھا اور تب دریائے سندھ کے اس کنارے پر قتل ہونے والوں کی ویڈیو بنانے کے لیے
👇
موبائل کیمرہ بھی نہیں آیا تھا، ملک اور سندھ بھر میں خبر چلی کہ دشمن کے ایجنٹ مار کر ملک کو بڑے نقصان سے بچا لیا گیا۔ جس نے پڑھا سُنا اس نے شکر کیا
ہم بھی تب مغالطہ پاکستان پڑھتے تھے سو شکریہ پاک فوج کے نعرے لگائے اور چین کی نیند سو گئے کہ ہمارے محافظ جاگ رہے ہیں
جب سارا ملک
👇
شکرانہ ادا کر رہا تھا تب مائی جندو نے احتجاجی چیخ ماری
مائی جندو بوڑھی تھی جسمانی لحاظ سے کمزور مگر وہ تین مقتولوں کی ماں تھی اس نے طاقت کے مراکز سے جنگ کا فیصلہ کیا اور اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر قاتلوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا
سوشل میڈیا کی غیر موجودگی میں یہ جنگ آسان
👇
نہ تھی مگر نقارے بج چکے تھے کشتیاں جل چکی تھیں اور واپسی محال تھی، اخباروں اور صحافیوں کے ہمراہ مائی جندو نے اس چیخ کو طاقتی مراکز کے سینوں میں گھونپ دیا۔
پہلی جھڑپ ختم ہوئی اور گرد چھٹی تو معلوم ہوا کہ قتل ہونے والے دہشت گرد نہ تھے بلکہ میجر ارشد جمیل کا ان کے ساتھ زرعی
👇
زمین کا جھگڑا تھا، جس کی سزا میں انہیں قتل ہونا پڑا تھا۔
24 جولائی 1992 کو جنرل آصف نواز اور نواز شریف نے ملاقات کی اور جنرل آصف نواز نے میجر ارشد جمیل کا کورٹ مارشل کرنے کا حکم دے دیا، 29 اکتوبر کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے میجر ارشد جمیل کو سزائے موت اور 13 فوجی اہلکاروں کو
👇
عمر قید کی سزا سنائی۔
میجر نے پاک فوج کے سپہ سالار کو رحم کی اپیل کی جو 14 ستمبر 1993 کو مسترد ہوئی، اس کے بعد رحم کی اپیل صدر فاروق لغاری سے کی گئی جو 31 جولائی 1995 کو مسترد تو کر دی گئی لیکن سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا، اس کے بعد میجر ارشد جمیل کے بھائی کی اپیل پر
👇
سپریم کورٹ کے جج سعید الزمان صدیقی نے حکم امتناع جاری کیا اور سزا روک دی۔
سزائے موت پر عمل نہ ہونے پر 11 ستمبر 1996 کو مائی جندوپھر میدان میں نکلی۔ اس کی دو بیٹیوں نے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے جسموں پر تیل چھڑک کر خود کو آگ لگا لی، ان کو نازک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا مگر
👇
وہ بچ نہ سکیں۔
پورے ملک میں ایک بار پھر کہرام مچ گیا، بالآخر 28 اکتوبر 1996 کو طاقت کی دیواریں مائی جندو کے مسلسل دھکوں کے سامنے ڈھیر ہوگئیں۔
یہ حیدر آباد سنٹرل جیل تھی جب مائی جندو کو پھانسی گھاٹ پر لایا گیا، سامنے تختہ دار پر اس کے گاؤں کے 9 بیٹوں کا قاتل میجر ارشد جمیل
👇
کھڑا تھا۔
دار کا تختہ کھینچا گیا تو قاتل میجر ارشد جمیل کا جسم دار پر جھول گیا عین اسی وقت سامنے کھڑی مائی جندو کی بوڑھی مگر زورآور آنکھ سے ایک اشک نکلا اور اس کے رخسار کی جھریوں میں تحلیل ہوگیا۔
۔مائی جندو تمہیں دنیا کے تمام کمزور اور مظلوم سلام کرتے ہیں
والده جیجی
👇
زرینہ بلوچ سے لے کر بیٹی زارینے تک،
بھاگل اور مارئی سے مائی جندو، اور ام رباب چانڈيو تک،ساری خواتین ظلم کے خلاف مزاحمت کا استعارہ ہیں،
رفعت آراء علوی اور ظلے شاہ کی ماں تک
دونوں مائیں
اپنے بیٹوں کی بریدہ لاشوں کے لیے انصاف مانگ رہی ہیں
ظالموں نے ان کے بیٹوں کی محض زندگی ہی
👇
نہیں چھینی بلکہ ان پر اتنا بہیمانہ تشدد کیا کہ یزید بھی شرما جائے
ماؤں نے چومنے ہوتے ہیں بُریدہ سر بھی
اُن سے کہنا کہ کوئی زخم جبیں پر نہ لگے
لیکن آج کا یزید بہت سفاک ہے اس کے پاس خوف اور لالچ کے ایسے پھندے ہیں کہ انسان دام میں آ ہی جاتا ہے اور ایک بار پھر سگا خون ہار گیا
👇
اور خوف جیت گیا ۔ ویسے بھی وہ کونسا کماؤ پتر تھا ، بابا جی تو ریٹائرڈ ہوں گے بھائیوں پر بوجھ ہو گا ، سپیشل بچہ تھا ۔ خیر کل کا بابا جی کو اٹھایا ہوا تھا کوئی رزلٹ تو نکلنا تھا کاش بابا جی مائی جندو سے ہی کچھ سیکھ لیتے، خیر قوم یاد رکھے گی شہید ظل شاہ کو اللہ اس پر رحمتیں نازل
👇
فرمائے۔
مائی جندو سے اعظم سواتی تک جو ظالموں کے آگے ڈٹ جاتا ہے انصاف اسی کو ملتا ہے مگر اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے مائی جندو نے چار بچے قربان کیے مگر ہار نہیں مانی کھڑی رہی ظالم کو پھانسی کے پھندے تک پہنچایا
اعطم سواتی نے بلیک میل ہونے اور جھک جانے سے انکار کیا اس کی قیمت
👇
ادا کرنی پڑی مگر ظالم کو زلت و رسوائی ہوئی
اعظم سواتی کو رہا کر دیا گیا
"مائی جِندو"
کے اوپر فلم بننی چاییۓ تاکہ ہماری نسلیں حق کی خاطر اور ظلم کے خلاف لڑنا سیکھ سکے
خوف، یا لالچ 1/7 ظلے شاہ کی میت جب گھر رکھی تھی تو بیٹے کی شہادت پر فخر تھا
دوسرے نوجوانوں کو اس کی راہ پر چلنے کی ترغیب دی جا رہی تھی
دیکھئے
2/7
اگلے دن تک بھی بزرگوار کی نظر میں عمران خان عظیم ہی تھے
ملاحظہ فرمائیں
3/7 ظلے شاہ کے والد ایف آئی آر بھی نگران حکومت کے خلاف ہی درج کروانا چاہتے تھے ،
پر عزم تھے
ساری رات عمران خان کا سگا بھانجا ان کے ساتھ خوار ہوتا رہا مگر ایف آئی آر جب ملک کے سابق وزیراعظم پر حملے کی درج نہ ہو سکی تو پھر - - - - -
گزشتہ دنوں ڈاکٹر محسن ممتاز صاحب ملتان سے اپنے نجی کام سے واپس وہاڑی آرہے تھے کہ راستے میں سڑک کنارے چار کار سواروں کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار دیں. دو کو کولہے کی ہڈی کے پاس ٹانگوں میں اور دو کو پیٹ میں گولیاں لگیں.
👇
وحشت کا عالم ھے مریض درد سے کراہ رہے ہیں ڈر کے مارے لوگ گاڑیاں بھگا کر لے جا رہے کہ ان پر بھی حملہ نہ ھو جائے
ڈاکٹر محسن کی گاڑی اسی سڑک سے گزرتی ھے خون میں لت پت چار لوگوں پر نظر پڑتی ھے. جذبہء مسیحائی غالب آتا ھے. تمام خطرات مول لیتے ہوئے گاڑی سائیڈ پر کرتے ہیں اور 1122 کو
👇
پہلے کال کرتے ہیں. پھر اپنی گاڑی سے ایمرجنسی کٹ نکال کر درد سے کراہتے افراد کی طرف بڑھتے ھیں. فوری چاروں مریضوں کے جسموں سے نکلتے خون کو روکنے کی کوشش میں لگ جاتے. ریسکیو 1122 کی ایمبولینس آتی ھے تو ڈاکٹر محسن ان چاروں کو ملتان نشتر ہسپتال بھیجتے ھیں اور ساتھ وہاں جاننے والے
👇
احمقوں کی بستی میں ایک بکرے کا سر گھڑے میں پھنس گیا۔ سب بستی والے اکٹھے ہوئے مگر بکرے کا سر گھڑے سے نہیں نکال سکے
آخر فیصلہ ہوا کہ بستی کے سب سے سیانے بزرگ کے پاس چلتے ہیں
بزرگ نے ساری کتھا سنی،حقے کے دو کش لگائے اور آنکھیں بند کر کے گہری سوچ میں ڈوب گیا
👇
پھر آنکھیں کھولیں اور بولا کہ اتنا آسان حل ہے، تم احمقوں کو کیوں سمجھ نہیں آیا۔
بستی کا ایک لڑکا کھڑا ہوا اور بولا میں نے کتنی بار کہا ہے کہ گھڑا توڑ دو مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن میری کوئی سنتا ہی نہیں۔
بزرگ نے ایک کش اور لگایا اور غصے سے بولا کہ گھڑا توڑتے ہوئے بکرے کو
👇
چوٹیں لگیں گی اور اسے تکلیف ہوئی تو کون ذمہ دار ہو گا؟
سب احمقوں نے ستائشی انداز میں سر ہلا کر بزرگ کی دانش کو داد دی۔ اور لڑکا شرمسار ہو کر بیٹھ گیا
آخر بزرگ نے کہا ایک چھری لاؤ۔ چھری آ گئی تو اس نے بکرے کی گردن کاٹنے کا حکم دیا
کہتے ہیں کہ کسی ملک کے بادشاہ کو منفرد نظر آنے کا خبط تھا۔ اس کے لیے وہ ہر روز کچھ نہ کچھ نرالا کرنے کیلئے تیار رہتا تھا۔ ایک روز اس نے اپنے شاہی درزی کو حکم دیا کہ میں روز روز لباس بدلنے سے تنگ آ چکا ہوں، مجھے کوئی ایسا لباس بنا کر دو جو روزانہ کچھ نیا بن جائے، ایسا لباس
👇
جو کسی کے پاس نہ ہو، اوراگر تم ایسا نہ کر سکے تو تمہاری گردن اڑا دی جائے گیایسا لباس نہ بننا تھا نہ بنا۔ آخر بادشاہ کا بلاوا آ گیا، درزی نےاپنی زندگی کی آخری بازی کھیلنے کا فیصلہ کر لیا، جان تو ویسے بھی جانا ہی تھی، کچھ چالاکی کر کے آخری کوشش کیوں نہ کی جائے۔ یہی سوچ کر وہ
👇
ایک مرصع صندوق لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ لباس تیار ہے، بس حضور یہ احتیاط فرمائیں کہ اسکو غسل کے بعد اکیلے میں زیب تن فرمائیں، ایسا لباس دنیا میں ایک ہی ہے، اسکی خوبیاں بے شمار ہیں۔ آخری خوبی اسکی یہ ہے کہ یہ لباس صرف عقل مند اور دور اندیش بندے کو ہی
👇
ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں کرکٹ کے مقابلے بھی پوری چکا چوند سے جاری ہیں اور جہاں سے لوگ نقل مکانی کرتے ہوئے اپنی جان بھی گنوا رہے ہیں
ملیے شاہدہ رضا سے،
اِن کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تھا،یہ
👇
فٹ بال اور ہاکی کی غالباً واحد خاتون کھلاڑی تھیں جنہوں نے بیک وقت دو کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی، اِن کا ایک معذور بیٹا تھا ، وہ چاہتی تھیں کہ اُس کا علاج ہواور وہ باقی بچوں کی طرح اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے ، انہیں جو بھی تنخواہ ملتی وہ اپنےتین سال کے معذور بچے پر خرچ
👇
کر دیتیں مگر گزشتہ برس جب اُن کی نوکری ختم ہوگئی تو وہ بالکل دل برداشتہ ہوگئیں اور انہوں نےبچے کے علاج کی خاطرملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا
پہلے وہ ترکی پہنچیں اور پھر وہاں سے کشتی کے ذریعے اٹلی پہنچنے کی کوشش کی،اِس سفر کے چوتھےروز تک اُن کا اپنے خاندان والوں سے رابطہ تھا اور وہ
👇
جب نمبر دار علاقہ کے ذمہ دار ہوا کرتے تھے تب مسافر کے علاج اور دیکھ بھال نہ کرنے پر نمبردار پر پرچہ ہوا تھا
تھانہ چکڑالہ میں انگریز حکمران کے اقتدار میں درج ایک تاریخی ایف آئی آر ملاحظہ کریں
یہ 1911 میں تھانہ چکڑالہ میں درج ایک ایف آئی آر ہے ۔یہ ایف آئی آر اُس وقت کے ابا خیل
👇
کے ایک نمبردار پر درج ہوئی ۔ نمبردار کا نام سردار خان لکھا ہوا ہے ۔ ایف آئی آر کے مطابق نمبردار کا جُرم یہ تھا کہ ایک مسافر ابا خیل میں آیا ،بیمار ہوا اور ایک بیری کے درخت کے نیچے فوت ہوگیا ۔اُس کے بعد پولیس نے پتہ کیا تو وہ شخص کیمبل پُور اٹک کا رہنے والا تھا۔ اس ایف آئی آر
👇
میں لکھا ہوا ہے کہ نمبردار صاحب آپکی ذمہ دار تھی کہ آپ اُس مسافر کا علاج کرواتے اور آپ اُسکو کھانا اور رہنے کی جگہ دیتے آپکی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے ایک انسان کی قیمتی جان چلی گئی ہے آپکو آپنے علاقے کا پتہ نہیں ہے.۔۔۔۔۔
👇