مومنوں کو چاہیے وہ عفو کریں، درگذر کی عادت ڈالیں اور اس کا فائدہ یہ بتایا کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تعالیٰ تمہارے گناہ بخشے۔ جب تم چاہتے ہو کہ خدا تمہارے گناہوں کو بخشے تو اے مومنو تم بھی اپنے بھائیوں کے گناہوں کو بخشو! اگر تم اپنے
👇
بھائیوں کے گناہوں کو بخشو گے تو خدا تمہارے قصوروں کو معاف کرے گا
امن کو قائم کرنے کا ایک ذریعہ احسان ہے اس کے متعلق بھی قرآن کریم میں حکم موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
(اٰل عمران:۵۳۱)
👇
کہ مومن وہ ہیں جو غصے کو دباتے ہیں جو لوگوں کو معاف کرتے ہیں اور پھر ان پر احسان بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے
اِنَّ اللّٰہ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَ اِیْتَائِ ذِیْ الْقُرْبٰی
(النحل:۱۹)
کہ اللہ تعالیٰ عدل، احسان، ایتاء ذی القربی کا حکم دیتا ہے
ان تینوں کی مثال
👇
میں مَیں ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ نے اپنے ایک غلام کو کوئی برتن لانے کے لئے کہا۔ اتفاقاً وہ برتن اس نے بے احتیاطی سے اٹھایا اور وہ ٹوٹ گیا۔ وہ برتن کوئی اعلیٰ قسم کا تھا حضرت امام حسنؓ کو غصہ آیا۔ اس پر اس غلام نے یہی آیت پڑھ دی اور
👇
کہنے لگا
وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ
کہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ اپنے غصہ کو دبا لیں
حضرت امام حسنؓ نے فرمایا
کَظِمْتُ الْغَیْظَ
کہ میں نے اپنے غصے کو دبا لیا۔
اس پر اس نے آیت کا اگلا حصہ پڑھ دیا اور کہنے لگا
وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ
کہ مومنوں کو صرف یہی حکم
👇
نہیں کہ وہ اپنے غصہ کو دبائیں بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ وہ دوسروں کو معاف کیا کریں
حضرت امام حسن فرمانے لگے
عَفَوْتُ عَنْکَ
جاؤ میں نے تمہیں معاف کر دیا
اس پر وہ کہنے لگا
وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
اس سے آگے یہ بھی حکم ہے کہ مومن احسان کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت محسنوں
👇
کو حاصل ہوتی ہے
اس پر حضرت امام حسنؓ نے فرمایا
جاؤ میں نے تمہیں آزاد کر دیا
گویا پہلے انہوں نے اپنے غصے کو دبایا پھر اپنے دل سے اسے معاف کر دیا اور پھر احسان یہ کیا کہ اسے آزاد کر دیا
لمبوترا منہ، چھوٹا سا سر، احساس سے عاری آنکھیں، وحشت زدہ چہرہ، ڈھیلا ڈھالا پیوند زدہ لباس، گلے میں منکوں کی مالا، ہاتھ میں کشکول
بچپن میں ایسے افراد بازاروں، چوراہوں میں بھیک مانگتے نظر آتے تھے،ان سے خوفزدہ ہوتے تھے تو اماں کہا کرتی تھیں کہ یہ تو دولے شاہ کا چوہا ہے،
👇
اللہ لوک ہے
ہمیں کبھی سمجھ نہیں آئی کہ آخر ایک جیتے جاگتے انسان کو چوہا کیوں کہا جا رہا ہے؟ یہ چوہا بنا کیسے اور آخر یہ شاہ دولہ صاحب اتنے سارے چوہے بنانے پہ کیسے قادر تھے؟
زرا بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ یہ ایک بیماری ہے
چھوٹا سر یا مائیکرو کیفلی (Microcephaly) ایسی صورت حال
👇
ہے جس میں دماغ اپنے اصل حجم پہ نہیں پہنچ پاتا سو نتیجتا چھوٹے سر والا بچہ پیدا ہوتا ہے جس کی دماغی اہلیت بہت کم ہوتی ہے زندہ رہنے کے بنیادی حواس تو کام کرتے ہیں لیکن ذہن عقل و دانش کی منزلیں طے نہیں کر پاتا
چھوٹے سر یا مائیکرو کیفلی کی وجہ تو جان چکے تھے لیکن شاہ دولے کے مزار
👇
ایک بار ہم نے یہ مذاق کیا تھا اور آج تک پچھتاتے ہیں
میرے بھائی کا نکاح ہوا تھا
رخصتی دو سال بعد ہونا طے پائی تھی، جب دو سال بعد وہ آیا تو ہم شادی کی ساری تیاری کر چکے تھے، ہال بک ہو چکا تھا، دلہن کے کپڑے تک تیار تھے
لڑکی نے طلاق مانگ لی
👇
اسے اس عرصے میں کوئی اور پسند آ گیا تھا
خیر
لڑکی کا حق تھا مگر نکاح کے بعد یہ کوئی اچھی بات بھی نہیں
طلاق دے دی
نکاح کے موقع پر اور اس کے بعد جتنے تحائف ہم نے دئیے تھے وہ واپس نہیں لئے
نصف مہر بھی ادا کیا
بات ختم ہوئی
مگر بات ختم نہیں ہوتی
لڑکی والوں نے اپنی ناپ کی قمیض واپس
👇
کرنے پر بہت اصرار کیا
تھوڑا سا ہمیں بھی غصہ آیا کہ ہم نے اتنے قیمتی کپڑے اور تحائف واپس نہیں مانگے اور وہ ایک پرانی سی پہنی ہوئی قمیض واپس مانگ رہے ہیں جو اب پتہ نہیں کہاں رکھی ہے
خیر کسی نے بتایا کہ پہنے ہوئے کپڑے پر جادو ہوتا ہے شاید اس خوف سے مانگ رہے ہوں
میں نے اور میری
👇
ظفر ایک اوسط ذہانت کا حامل نوجوان تھا۔ وہ ایک مڈل کلاس گھرانے میں پیدا ہوا۔ ماں باپ نے اوسط درجے کے تعلیمی اداروں سے تعلیم دلوائی۔ اس کے ماں باپ میں البتہ ایک خوبی کمال کی تھی۔ انھوں نے ظفر کی تربیت کو مسئلہ بنالیا تھا۔ خاص کر دو عادتوں کو انھوں نے ظفر میں بہت
👇
پختہ کر دیا تھا۔ ایک یہ کہ زندگی کے ہر واقعے کو مثبت انداز سے دیکھنا ہے۔ دوسرے یہ کہ زندگی میں ہر ترقی اور کامیابی محنت، مستقل مزاجی اور سخت جدوجہد کے بعد ملا کرتی ہے۔ ظفر ابھی زیر تعلیم تھا کہ اس کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ اس کی ماں نے اس سے کہا
بیٹا یہ بظاہر ایک مسئلہ
👇
لگ رہا ہے مگر درحقیقت یہ ایک موقع ہے۔ قدرت نے تمھیں ایک موقع دیا ہے کہ تم وقت سے پہلے پختگی کو پہنچ جاؤ۔ تم اپنی پختگی کی بنیاد پر کم وقت میں زیادہ اور دیر تک رہنے والی ترقی حاصل کرو۔ ظفر نے ماں کی بات گرہ سے باندھ لی۔ تعلیم کے ساتھ ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ کچھ عرصے بعد
👇
بھوک نے اس قدر نڈھال کردیا کہ میاں بیوی کے درمیان دوریاں پیدا ہونے لگیں بات طلاق تک پہنچ گئی
ایک دن بیوی گھر سے نکل کر قریب بنی امیہ کے مالدار شخص کا دروازہ جا کھٹکھٹایا
غلام باہر نکلا سامنے عورت دیکھ کہنے لگا
جی کسے ملناہے؟
کہنے لگی آپ کے آقا سے ملاقات کرنی تھی
👇
غلام نے تعارف پوچھا کہاکہ
تمھارے آقا کی بڑی بہن ہوں
وہ تجسس میں پڑا کہنے لگا میرے آقا کی کوئی بہن نہیں
عورت نے کہا
اسے جاکربتاو تمھاری بہن ملنا چاہتی ہے
الغرض آقا نے دریافت کیا
تم کون ہو؟
کہنے لگی آدم بیٹی آپ کی بہن
دستک کیوں دی؟
کہا
فقیری نے ہم میاں بیوی کی محبت کے ذائقے
👇
کڑوے کرڈالےاب تو طلاق کے دروازے کو دستک دی جارہی ہے
میرے بھائی کیا تیرے پاس رب سے ملاقات والے دن کےلئے کچھ سامان ہے؟
حقیقت میں جو اب تمھارے پاس ہے یہ ختم ہوجائےگا باقی وہ رہے گا جو رب پاس رکھوگے
سخی نے باربار یہ کلمات دھرانے کی فرمائش کی بلاخر اپنے غلام کو حکم دیا
میری بہن کو
👇
حیراں ہوں دل کو روؤں یا کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گرکو میں
یقین نہیں آتا!
پاکستان آئل سیڈ ڈیولپمنٹ بورڈ کے ایک افسر نے بتایا کہ جب ٹھٹھہ کے علاقے گھوڑا باری میں آئل پام کے درخت کامیاب ہوگئے۔
اور ان پر پھل آیا تو ہم سب بہت خوش بھی تھے اور حیران بھی کہ
👇
ہر درخت پر بارہ چودہ خوشے تھے
اور پھل کی مقدار بھی بہت زیادہ تھی
ہم نے رپورٹ ملائیشیا بھجوائ تو جواب آیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے
کیونکہ ملائشیا میں اس سے نصف مقدار میں پھل آتا ہے
ہم نے انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی
ملائیشین ماہرین کی ٹیم پاکستان پہنچی اور ہمارے درختوں کا
👇
معائنہ کیا
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ملائیشیاء میں آئل پام کے درخت لگانے کے لئے خالی رقبہ اب کم باقی بچا ہے
اگر آپ کی حکومت راضی ہو تو ہم یہاں آئل پام کے بڑے باغات لگاسکتے ہیں- اور تیل نکالنے کی مشینیں بھی- جو آمدنی ہوگی اس کا 60 فیصد پاکستان اور 40 فیصد ہمارا ہوگا
👇
خوف، یا لالچ 1/7 ظلے شاہ کی میت جب گھر رکھی تھی تو بیٹے کی شہادت پر فخر تھا
دوسرے نوجوانوں کو اس کی راہ پر چلنے کی ترغیب دی جا رہی تھی
دیکھئے
2/7
اگلے دن تک بھی بزرگوار کی نظر میں عمران خان عظیم ہی تھے
ملاحظہ فرمائیں
3/7 ظلے شاہ کے والد ایف آئی آر بھی نگران حکومت کے خلاف ہی درج کروانا چاہتے تھے ،
پر عزم تھے
ساری رات عمران خان کا سگا بھانجا ان کے ساتھ خوار ہوتا رہا مگر ایف آئی آر جب ملک کے سابق وزیراعظم پر حملے کی درج نہ ہو سکی تو پھر - - - - -