“ایک چھوٹا سا مظلوم #تھریڈ”
آجکل جنرل باجوہ ہر جگہ بات کرتے اپنے “دور اختیار” میں ہونے والے غیرآئینی و غیرقانونی کاموں کی clarification spree پر ہیں ۔۔۔ مطیع بھائی کے اغوا سے لیکر مریم نواز صاحبہ کے کمرے کا دروازہ توڑے جانے تک اور شہباز گل سے ایمان مزاری صاحبہ تک
ہر معاملہ کی وضاحت آرہی ہے ۔۔۔ اچھا لگ رہا ہے ۔۔۔ یقین جانیں دل سے خوشی ہورہی ہے کہ سچ سامنے آرہا ہے مگر ساتھ ساتھ تھوڑا دُکھی بھی محسوس کررہا ہوں کیونکہ جنرل صاحب کی وضاحتوں کا محور صرف اور صرف پنجاب میں یا پنجابیوں کیساتھ ہونے والی زیادتیاں ہیں ۔۔۔۔ جنرل صاحب کے چھ سالہ دور میں
پنجاب کے باہر دوسرے صوبوں میں بسنے والے سندھی مہاجر بلوچ و پشتون عوام کیساتھ جو کچھ ہوتا رہا وہ سب شائید نہ جنرل صاحب کیلئے اہم ہے اور نہ ہی ان کے انٹرویو لینے اور چلانے والوں کیلئے ۔۔۔ شائید اسی لئے جنرل صاحب کے انکشافات میں نہ کہیں کراچی میں اپنے گھر کے دروازہ پر قتل کردئیے
جانیوالے علی رضا عابدی کا زکر آیا تو نہ کہیں ایس پی طاہر داوڑ کا نہ ابھی تک کہیں علی وزیر کیساتھ روا رکھے گئے سلوک کی بات آئی نہ کسی نے ان سے سوال کیا کہ ان کے زیر انتظام رینجرز کراچی میں کیسے آدھی رات کو کسی شہری کے گھر کا دروازہ توڑ کر اسے اٹھا لے جاسکتی ہے اور آپ نے بطور چیف
اس طرح کے معاملات پر کیا ایکشن لیا ؟؟؟ جنرل باجوہ کا چھ سالہ دور اختیار انسانی حقوق کے معاملات کے حوالہ سے ایک سیاہ دور تھا جس کا پنجاب سمیت پورا ملک شکار رہا ہے ۔۔۔ سیاسی پابندیاں صرف پنجاب میں نہیں تھیں ہمارے گلی محلوں چوک چوراہوں پر بھی تھیں ۔۔۔ نیوٹرل وہ ہوگئے آپ لوگوں کیلئے
ہم تو آج تک اسی باجوائی دور میں جی رہے ہیں ۔۔۔ کراچی حیدرآباد سکھر میرپورخاص گوادر خضدار کوئٹہ اور پتا نہیں کہاں کہاں جبر کے اندھیرے آج تک ویسے ہی قائم ہیں ۔۔۔ باجوہ صاحب اگر پورے ملک کی فوج کے سربراہ تھے تو ان سے سوال بھی پورے ملک میں کی جانیوالی زیادتیوں پر ہونا چاہئے
اور انہیں پنجاب کیساتھ ساتھ سندھ خیبر اور بلوچستان کے سامنے بھی جوابدہ ہونا چاہئے ۔۔۔ آپ نے ہمارے ساتھ بہت زیادتیاں کی ہیں اور آج تک کررہے ہیں ۔۔۔ خدار ہمیں بھی اپنے برابر کا پاکستانی سمجھئے ہمارے دکھوں کا بھی کچھ مداوا کیجئے 🙏🏻♥️
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
“گر جاں کی اماں پاوں ؟؟؟” #تھریڈ
پرانا نام: سندھ پولیس رائفلز - SPR
نیا نام: سندھ رینجرز (پاکستان رینجرز)
گئے وقتوں کا زکر ہے جب گورا سرکار ہم پر قابض تھی دوسری عالمی جنگ جاری تھی اور گوری افواج ایک بڑے معرکہ میں مصروف تھیں تو سندھ اور ملحقہ علاقوں کے مقامی افراد
پر مشتمل ایک سیکیورٹی فورس کا قیام عمل میں لایا گیا جسے “سندھ پولیس رائفلز - SPR” کا نام دیا گیا جس فورس کی باگ ڈور گورے یعنی انگریز افسران کے ہاتھ میں دی گئی جبکہ فورس میں مقامی افراد کو زمہ داریاں ملیں ۔۔۔ 1942 سے تقسیم ہند تک یہ فورس انگریز راج کے زیرانتظام کام کرتی رہی جبکہ
اس فورس کا بنیادی کام اس وقت کے باغیوں (جنہیں ہم آج تحریک آزادی کے کارکنان کے نام سے یاد کرتے ہیں) کی تحریک کو کچلنا تھا ۔۔۔ قیام پاکستان کے بعد جب یہ فورس حکومت پاکستان کے زیرانتظام آئی تو اس کا نام “سندھ پولیس رائفلز” سے بدل کر “سندھ پولیس رینجرز” رکھ دیا گیا اور اس فورس
شناخت
ایک تھریڈ
مجھ سے اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں بسنے والی مہاجروں کی اکثریت الطاف حسین اور مہاجر شناخت کے معاملہ میں اتنے حساس اور جذباتی ہوجاتے ہیں ؟؟؟
شناخت
ایک تھریڈ
اس سوال کا جواب تو خیر میرے پاس بھی نہیں ہیں ہاں مگر ایک بات جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ 1947 اور اکہتر کے بعد ہندوستان اور ڈھاکہ سے پاکستان آنے والے ہمارے بڑے کئی سال شدید identity crisis کا شکار رہے ۔۔ کوئی خود کو بہاری تو کوئی بھوپالی کوئی رام پوری تو کوئی دلی
شناخت
ایک تھریڈ
والا تو کوئی خود کو حیدرآباد دکنی کہلواتا تھا جبکہ غیر مہاجر انہیں “ہندوستانی” پکارا کرتے تھے ۔۔۔ میرا بچپن اسی کی دہائی میں کراچی میں ہی گزرا ہے اور مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ہمارے پنجابی یا پٹھان پڑوسی ہمیں “ہندوستانی فیملی” کہا کرتے تھے 😀😀 جو سن کر عجیب تو