ارشد شریف کی شہادت ایک بہت بڑا سانحہ ہے
وہ ایک ذمہ دار اور مقبول صحافی تھے، رجیم چینج سے پہلے اور بعد میں انہوں نے جنرل باجوہ اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر سوال اٹھانے کی ہمت کی تھی، #وہ_کون_تھا صرف ایک سوال نہیں ایک تحریک ثابت ہوا
👇
پھر یوں ہوا کہ کہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان پر مقدمات درج ہونا شروع ہو گئے،
غداری کے مقدمات
اس صحافی پر جو کنٹرول لائن پر جاجا کر اپنی ذمہ داریاں، ذمہ داری سے ادا کرتا رہا
انہوں نے قوم کو بتایا کہ #بادشاہ_ننگا_ہے اور ننگے بادشاہ کو اتنا غصہ آیا کہ ارشد شریف پر نہ صرف ملک کی
👇
بلکہ بیرون ملک کی زمین بھی تنگ کر دی گئی
ارشد شریف نے بس سوال پوچھے انتہائی تہذیب سے کہ #سوال_یہ_ہے_سر کہ جن لوگوں کی کرپشن کے ثبوت آپ ہمیں بلا بلا کر دکھاتے رہے وہ اب اتنے نیک کیوں کر ہو گئے کہ ان کے سامنے آپ کو سارے گنہگار لگنے لگے
کیوں کسی وزیراعظم کے لباس اور تسبیح سے
👇
آپ کو دہشت گردی کی بُو آنے لگی
ننگا بادشاہ اور سیخ پا ہو گیا
پھر ارشد شریف نے جب یہ پوچھا کہ توشہ خانہ سے آرمی چیفس کو جو تحائف ملتے رہے ان کا ریکارڈ پبلک ہونا چاہیے تو ننگا بادشاہ اپنی کرپشن کھلنے کے خوف سے لرزنے لگا
سازشیں کرنے لگا
ارشد شریف نے کہا کہ حضور میڈیا تو صرف
👇
آئینہ دکھاتا ہے، اگر اس آئینے میں آپ کو اپنی شکل خراب دکھتی ہے تو آئینہ نہ توڑیں، اپنے خدوخال درست کریں
اور ننگے بادشاہ نے آئینہ توڑ دیا
یہ سوچے بغیر کہ اس کی کرچیاں اس کے اپنے پیروں میں بھی چبھیں گی
تاقیامت
پھر ارشد شریف کی میت ملک آتی ہے اور قوم اس کا استقبال ایک ہیرو کی
👇
مانند کرتی ہے
ایک #کلیجہ_چبانے_والی_ڈائن اس کی میت کی تصویر کا مذاق اڑاتی ہے اور عین تدفین کے وقت ادارے کے دو انمول رتن، رام لکھن پریس کانفرنس کرنے آتے ہیں
اور یہ کہہ کر اعتراف جرم کرتے ہیں کہ ہم نہ چاہتے تو ارشد شریف ملک سے باہر نہ جا سکتا تھا
پھر یہیں بس نہیں ہوتا
👇
ارشد شریف شہید کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک کئے جاتے ہیں اور اس اکاؤنٹ سے گندے اکاؤنٹس کو فالو کرکے اس کی کردار کشی کی مہم چلائی جاتی ہے
اس کی موت کی تحقیقات میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں
اس کا کیس کسی وکیل کو لینے نہیں دیا جاتا
جے آئی ٹی کا ریکارڈ غائب کر دیا جاتا ہے
👇
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں
وطن پر قربان ہونے والے ہر شہید کو سلام
خواہ اس نے وردی پہنی ہو یا نہیں
بادشاہ ننگا ہے
اور الف ننگا ہے
کمرے میں سپرٹ، ڈیٹول اور پایوڈین کی ملی جلی بو گھومتی رہتی ہے
تین مہینے پہلے کی بات اور تھی
مگر جب بائک بیچ سڑک پر سلپ کر گئی تو عین اسی دن بجلی کا بل بھرنے والی رقم پنڈلی ٹھیک کروانے میں چپ چاپ چلی گئی
مجھے توقع نہیں تھی کہ اس بار کہانی
👇
اس فرسٹ ایڈ کٹ سے شروع ہوگی جسے میں ہمیشہ استعمال کے بعد صحن میں موجود فریج پر رکھتا ہوں
کچھ روز قبل 13 مارچ کی رات
جب میں کھڑکی کے ساتھ رکھے صوفے پر بے سدھ سو رہا تھا شب کے کسی پہر میری آنکھ فرسٹ ایڈ کٹ کی کھٹ پٹ سے کھل گئی
(کسی کی بھی آخری امید چوری نہیں ہونی چاہئے)
👇
سو میں اٹھا اور میں نے دروازے کی اوٹ سے جھانکا
یہ واقعی حیرانی کی بات ہے اگر کوئی 73 سالہ بوڑھی اور دبلی عورت سفید کپڑے پہنے اتنی رات گئے کسی کے گھر سے فرسٹ ایڈ کٹ چرانے کی کوشش میں ہو
میں خاموش رہا
کچھ دیر اس نے وہ باکس ٹٹولا اور پھر اپنی لمبی چادر میں چھپاکر دروازے سے
👇
لاہورکی ایک بیگم صاحبہ نےایک کھیرا 800میں خریدا ، مگر کیوں؟ بڑے لوگوں کے چند انوکھے واقعات آپ کو حیران کر ڈالیں گے
یہ بات مجھے ایک عینی شاہد نے بتائی
یقین کرنا بہت مشکل ہے مگر اس ملک میں سب کچھ عین ممکن ہے
وزیرآباد کی رہائشی ایک سرکاری آفیسر کی اہلیہ اپنے شوہر کی تعیناتی کی
👇
وجہ سے بہاولپور میں مقیم تھیں۔ مذکورہ خاتون ہر ماہ اپنے والدین سے ملنے وزیر آباد آتیں اور چند دن قیام فرمایا کرتیں۔بچے ابھی چھوٹے تھے لہذا سکول داخل نہیں ہوئے تھےچنانچہ ان کا قیام اکثر طویل ہو ہی جایا کرتا تھا۔ مذکورہ بیگم صاحبہ دو گاڑیوں میں سفر کرتی تھیں ایک گاڑی میں وہ خود
👇
اور انکے دو بچے جبکہ دوسری گاڑی کی ڈگی میں پٹرول سے بھرے چھ عدد کین اور سیٹوں پر سامان ہوتا تھا۔ ڈرائیور کے ہمراہ اس گاڑی میں ایک ملازم بھی ہوتا تھا جبکہ بیگم صاحبہ کی گاڑی میں اگلی سیٹ پر ملازمہ۔ اگر ان کا قیام طویل ہوتا اور وہ اپنے بہن بھائیوں کے ہمراہ تفریحی مقامات یا
👇
مولوی تمیزالدین کیس کا فیصلہ پاکستان کی آئینی، سیاسی اور عدالتی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ ہے۔ اس فیصلے نے پاکستان کی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ اس کہانی کا آغاز 1953سے ہوتا ہے، جب گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو ہٹا کر محمد علی بوگرہ کووزیر اعظم بنا دیا۔
👇
خواجہ ناظم الدین کو اسمبلی کا اعتماد حاصل تھا، مگر اس کے باوجود ان کو ہٹا دیا گیا، آئندہ کسی ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے اس قانون ساز اسمبلی نے گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے ترمیمی بل پیش کیا۔ اس بل کے تحت گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔
👇
گورنر جنرل غلام محمد نے قانون ساز اسمبلی کو ہی برطرف کر دیا۔ مولوی تمیز الدین اس وقت اس اسمبلی کے سپیکر تھے۔ انہوں نے اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ سندھ ہائی کورٹ نے مولوی تمیزالدین کے حق میں ایک جاندار اور خوبصورت فیصلہ دیا اور گورنر کے اقدام کو
👇
*سر کاٹ دو*
کوفہ ایک بار پھر فتح ہوا. مصعب ابن زبیر تخت پر براجمان ہوا.اس کے سامنے مختار ثقفی کا سر کاٹ کر لایا گیا. اس نے فرمان جاری کیا کہ جشن مناؤ، دشمن اسلام مارا گیا
دربار میں بیٹھا ایک بوڑھا مسکرا دیا. مصعب نے دریافت کیا:کیوں ہنستا ہے بڈھے؟
بوڑھے نے کہا :
👇
ماضی یاد آگیا.حال سامنے ہے. مستقبل آدھا دکھائی دے رہا ہے.
مصعب نے حکم دیا کہ تفصیل سے بتائیں
بوڑھے نے بولنا شروع کیا :
"یہی دربار تھا.عبیداللہ ابن زیاد تخت پر بیٹھا تھا. حسین ابن علیؓ کا سر لایا گیا.ابن زیاد نے کہا جشن مناؤ، دشمن اسلام مارا گیا. ہم نے جشن منایا"
👇
"ایک بار پھر یہی دربار تھا. جس مختار ثقفی کا سر تیرے تخت کے نیچے پڑا ہے یہ اسی تخت پہ بیٹھا تھا. ابن زیاد کا سر کاٹ کر لایا گیا.مختار ثقفی نے فرمان جاری کیا جشن مناؤ،دشمن اسلام مارا گیا.ہم نے جشن منایا"
"آج وہی دربار ہے.تو تخت نشین ہے. مختار ثقفی کا سر لایا گیا ہے,تیرا حکم ہے
👇
کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں سپریم کورٹ پرایک ہی بارفزیکل حملہ کیا گیا جب ایک سیاسی جماعت کے سینکڑوں کارکنوں نےسپریم کورٹ پر ہلہ بول دیا اور چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں کو بھاگ کر ریٹائرنگ روم میں پناہ لینا پڑی اور وہاں سے وہ بمشکل نکل پائے ورنہ ہجوم کے
👇
ہاتھوں وہ زخمی ہوتے جماعت مسلم لیگ ن ہے یہ واقعہ انیس سو ستانوے کا ہے جب وزیراعظم نواز شریف تھے اور شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب، چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں صرف ایک واقعہ ایسا ہے جب وزیراعظم کے خصوصی مشیر نے لاہور ہائی کورٹ کے
👇
چیف جسٹس اور ایک جج کو فون کرکے کہا کہ وزیراعظم کے مخالف سیاستدان کو فوری سزا سنائی جائے۔وہ فون ٹیپ ہوگیا اور بعد میں منظر عام پر آنے پر ان دونون ججوں کو استعفا دینا پڑا۔جی اس واقعے میں بھی ن لیگ ملوث تھی۔ سیف الرحمن فون کرنے والا تھا جبکہ ملک قیوم اور ایک اور جج کو استعفا
👇
کچھ سال پہلے کی بات ہے امریکہ کے ایک ٹی وی چینل پر ایک ریالٹی شو آیا کرتا تھا جس کا نام جیری اسپرنگر شو تھا
یہ شو بہت دلچسپ تھا
یہ 1991 میں شروع ہوا اور ستائیس سال تک مسلسل چلنے کے بعد 2018 میں ختم ہو گیا اس شو میں حقیقی زندگی سے تعلق رکھنے والے کردار حقیقی مسائل پر بحث مباحثے
👇
کرتے. شو کی ریٹنگ بہت زیادہ تھی اس وجہ سے چینل کو بہت زیادہ آمدن ھوا کرتی تھی چنانچہ ایسے افراد جو اس شو میں آ کر اپنے حقیقی مسائل پیش کرتے شو کے منتظمین معاوضے کے طور پر انہیں اچھی خاصی رقم دیا کرتے تھے. یہ لوگ واقعی حقیقی ھوتے انڈیا پاکستان کے شوز کی طرح پیڈ ایکٹرز نہیں
👇
ھوتے تھے. نتیجتاً اس شو کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ھوتا چلا گیا.
ان شوز میں ایک ایسا سلسلہ بھی شروع کیا گیا جسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ امریکہ کے چہرے پر زوردار تھپڑ تھا (اگر امریکہ کا کوئی چہرہ ھے)
اس سلسلے کا نام تھا " اس بچے کا باپ کون ھے" ایک عورت ایک بچے کے ساتھ پروگرام
👇