مولوی تمیزالدین کیس کا فیصلہ پاکستان کی آئینی، سیاسی اور عدالتی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ ہے۔ اس فیصلے نے پاکستان کی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ اس کہانی کا آغاز 1953سے ہوتا ہے، جب گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو ہٹا کر محمد علی بوگرہ کووزیر اعظم بنا دیا۔
👇
خواجہ ناظم الدین کو اسمبلی کا اعتماد حاصل تھا، مگر اس کے باوجود ان کو ہٹا دیا گیا، آئندہ کسی ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے اس قانون ساز اسمبلی نے گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے ترمیمی بل پیش کیا۔ اس بل کے تحت گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔
👇
گورنر جنرل غلام محمد نے قانون ساز اسمبلی کو ہی برطرف کر دیا۔ مولوی تمیز الدین اس وقت اس اسمبلی کے سپیکر تھے۔ انہوں نے اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ سندھ ہائی کورٹ نے مولوی تمیزالدین کے حق میں ایک جاندار اور خوبصورت فیصلہ دیا اور گورنر کے اقدام کو
👇
غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی۔ جسٹس منیر اس وقت فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ ان کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی ۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا گیا اور گورنر جنرل کی طرف سے قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کرنے کے فیصلے کو درست قرار
👇
دیا گیا۔ یہ وہ فیصلہ تھا جس نے پاکستان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں، فیصلے کے حق میں جسٹس منیر کی دلیل یہ تھی کہ پاکستان ابھی تک ایک مکمل آزاد ریاست نہیں، بلکہ ڈومینین ہے۔
چنانچہ اقتدار اعلی، تاج برطانیہ کے پاس ہے۔ اس لیے قانون ساز اسمبلی کے پاس اقتدار اعلی نہیں، بلکہ گورنر جنرل
👇
کے پاس ہے ، جو کراؤن کا نمائندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس قانون ساز اسمبلی کے اراکین یہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار اعلی ان کے پاس ہے، تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ فیصلے کے لیے جسٹس منیر نے قدیم رومن ، انگلش اور کامن لاء کے اصولوں کو استعمال کیا۔ ان میں بریکٹن میکسم نامی اصول
👇
سر فہرست تھا۔ اس اصول کے مطابق جو کچھ قانونی نہیں ہے ، وہ ضرورت کے وقت قانونی ہو سکتا ہے۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ گورنر کے اقدام کو نظریہ ضرورت کے مطابق قانونی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے سے پاکستان میں نظریہ ضرورت کا آغاز با قاعد قانونی اصول کے طور پر ہوا ، جوآنے والے بر سوں میں
👇
تسلسل سے جمہوریت کے خلاف اور آمریت کے حق میں استعمال ہوتا رہا۔ اس فیصلے کے صرف تین سال بعد ایوب خان کے مارشل لاء کو اس قانون کے تحت درست قرار دیا گیا۔ اس کیس میں جسٹس منیر کو ہی دوبارہ نظریہ ضرورت اور اس کی تشریح کا موقع میسر آیا۔ اس میں انہوں نے مزید واضح کیا کہ ایک کامیاب
👇
اندرونی بغاوت آئین کو بدلنے کا قانونی طریقہ ہے۔ اس کے بعد جب جنرل ضیا الحق نے ذولفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا، تو اسی اصول اور نظیریےکے تحت جنرل ضیا کے اقدام کو جائز قرار دیا گیا۔ بعد ازاں جنرل مشرف کے مارشل لا ء میں بھی یہی نظریہ ضرورت کام آیا۔ جج جسٹس منیر کے ایک فیصلے نے
👇
پاکستان کے اقتدار پر نوکر شاہی کے قبضہ کی راہ ہموار کی اور عدالتوں کو بھی غیر آئینی اور غیر جمہوری حکومتوں کے حق میں فیصلے کرنے کا جواز مل گیا۔ اور نظریہ ضررورت کئی بار نہ صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش میں بھی جمہوریت کے قتل کے لیے استعمال کیا گیا

Copied
#چوروں_کی_محافظ_اسٹیبلشمنٹ

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Moona Sikander

Moona Sikander Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Moona_sikander1

Mar 25
فاطمہ جناح کا زخم ٹھیک نہیں ہورہا!

کمرے میں سپرٹ، ڈیٹول اور پایوڈین کی ملی جلی بو گھومتی رہتی ہے
تین مہینے پہلے کی بات اور تھی
مگر جب بائک بیچ سڑک پر سلپ کر گئی تو عین اسی دن بجلی کا بل بھرنے والی رقم پنڈلی ٹھیک کروانے میں چپ چاپ چلی گئی
مجھے توقع نہیں تھی کہ اس بار کہانی
👇 Image
اس فرسٹ ایڈ کٹ سے شروع ہوگی جسے میں ہمیشہ استعمال کے بعد صحن میں موجود فریج پر رکھتا ہوں

کچھ روز قبل 13 مارچ کی رات
جب میں کھڑکی کے ساتھ رکھے صوفے پر بے سدھ سو رہا تھا شب کے کسی پہر میری آنکھ فرسٹ ایڈ کٹ کی کھٹ پٹ سے کھل گئی
(کسی کی بھی آخری امید چوری نہیں ہونی چاہئے)
👇
سو میں اٹھا اور میں نے دروازے کی اوٹ سے جھانکا
یہ واقعی حیرانی کی بات ہے اگر کوئی 73 سالہ بوڑھی اور دبلی عورت سفید کپڑے پہنے اتنی رات گئے کسی کے گھر سے فرسٹ ایڈ کٹ چرانے کی کوشش میں ہو
میں خاموش رہا
کچھ دیر اس نے وہ باکس ٹٹولا اور پھر اپنی لمبی چادر میں چھپاکر دروازے سے
👇
Read 18 tweets
Mar 24
لاہورکی ایک بیگم صاحبہ نےایک کھیرا 800میں خریدا ، مگر کیوں؟ بڑے لوگوں کے چند انوکھے واقعات آپ کو حیران کر ڈالیں گے

یہ بات مجھے ایک عینی شاہد نے بتائی
یقین کرنا بہت مشکل ہے مگر اس ملک میں سب کچھ عین ممکن ہے

وزیرآباد کی رہائشی ایک سرکاری آفیسر کی اہلیہ اپنے شوہر کی تعیناتی کی
👇
وجہ سے بہاولپور میں مقیم تھیں۔ مذکورہ خاتون ہر ماہ اپنے والدین سے ملنے وزیر آباد آتیں اور چند دن قیام فرمایا کرتیں۔بچے ابھی چھوٹے تھے لہذا سکول داخل نہیں ہوئے تھےچنانچہ ان کا قیام اکثر طویل ہو ہی جایا کرتا تھا۔ مذکورہ بیگم صاحبہ دو گاڑیوں میں سفر کرتی تھیں ایک گاڑی میں وہ خود
👇
اور انکے دو بچے جبکہ دوسری گاڑی کی ڈگی میں پٹرول سے بھرے چھ عدد کین اور سیٹوں پر سامان ہوتا تھا۔ ڈرائیور کے ہمراہ اس گاڑی میں ایک ملازم بھی ہوتا تھا جبکہ بیگم صاحبہ کی گاڑی میں اگلی سیٹ پر ملازمہ۔ اگر ان کا قیام طویل ہوتا اور وہ اپنے بہن بھائیوں کے ہمراہ تفریحی مقامات یا
👇
Read 12 tweets
Mar 23
*سر کاٹ دو*
کوفہ ایک بار پھر فتح ہوا. مصعب ابن زبیر تخت پر براجمان ہوا.اس کے سامنے مختار ثقفی کا سر کاٹ کر لایا گیا. اس نے فرمان جاری کیا کہ جشن مناؤ، دشمن اسلام مارا گیا
دربار میں بیٹھا ایک بوڑھا مسکرا دیا. مصعب نے دریافت کیا:کیوں ہنستا ہے بڈھے؟
بوڑھے نے کہا :
👇
ماضی یاد آگیا.حال سامنے ہے. مستقبل آدھا دکھائی دے رہا ہے.
مصعب نے حکم دیا کہ تفصیل سے بتائیں
بوڑھے نے بولنا شروع کیا :
"یہی دربار تھا.عبیداللہ ابن زیاد تخت پر بیٹھا تھا. حسین ابن علیؓ کا سر لایا گیا.ابن زیاد نے کہا جشن مناؤ، دشمن اسلام مارا گیا. ہم نے جشن منایا"
👇
"ایک بار پھر یہی دربار تھا. جس مختار ثقفی کا سر تیرے تخت کے نیچے پڑا ہے یہ اسی تخت پہ بیٹھا تھا. ابن زیاد کا سر کاٹ کر لایا گیا.مختار ثقفی نے فرمان جاری کیا جشن مناؤ،دشمن اسلام مارا گیا.ہم نے جشن منایا"
"آج وہی دربار ہے.تو تخت نشین ہے. مختار ثقفی کا سر لایا گیا ہے,تیرا حکم ہے
👇
Read 7 tweets
Mar 23
ارشد شریف کی شہادت اور فوج کا ردعمل

ارشد شریف کی شہادت ایک بہت بڑا سانحہ ہے
وہ ایک ذمہ دار اور مقبول صحافی تھے، رجیم چینج سے پہلے اور بعد میں انہوں نے جنرل باجوہ اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر سوال اٹھانے کی ہمت کی تھی، #وہ_کون_تھا صرف ایک سوال نہیں ایک تحریک ثابت ہوا
👇
پھر یوں ہوا کہ کہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان پر مقدمات درج ہونا شروع ہو گئے،
غداری کے مقدمات
اس صحافی پر جو کنٹرول لائن پر جاجا کر اپنی ذمہ داریاں، ذمہ داری سے ادا کرتا رہا
انہوں نے قوم کو بتایا کہ #بادشاہ_ننگا_ہے اور ننگے بادشاہ کو اتنا غصہ آیا کہ ارشد شریف پر نہ صرف ملک کی
👇
بلکہ بیرون ملک کی زمین بھی تنگ کر دی گئی
ارشد شریف نے بس سوال پوچھے انتہائی تہذیب سے کہ #سوال_یہ_ہے_سر کہ جن لوگوں کی کرپشن کے ثبوت آپ ہمیں بلا بلا کر دکھاتے رہے وہ اب اتنے نیک کیوں کر ہو گئے کہ ان کے سامنے آپ کو سارے گنہگار لگنے لگے
کیوں کسی وزیراعظم کے لباس اور تسبیح سے
👇
Read 8 tweets
Mar 22
کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں سپریم کورٹ پرایک ہی بارفزیکل حملہ کیا گیا جب ایک سیاسی جماعت کے سینکڑوں کارکنوں نےسپریم کورٹ پر ہلہ بول دیا اور چیف جسٹس سمیت دیگر ججوں کو بھاگ کر ریٹائرنگ روم میں پناہ لینا پڑی اور وہاں سے وہ بمشکل نکل پائے ورنہ ہجوم کے
👇
ہاتھوں وہ زخمی ہوتے جماعت مسلم لیگ ن ہے یہ واقعہ انیس سو ستانوے کا ہے جب وزیراعظم نواز شریف تھے اور شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب، چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں صرف ایک واقعہ ایسا ہے جب وزیراعظم کے خصوصی مشیر نے لاہور ہائی کورٹ کے
👇
چیف جسٹس اور ایک جج کو فون کرکے کہا کہ وزیراعظم کے مخالف سیاستدان کو فوری سزا سنائی جائے۔وہ فون ٹیپ ہوگیا اور بعد میں منظر عام پر آنے پر ان دونون ججوں کو استعفا دینا پڑا۔جی اس واقعے میں بھی ن لیگ ملوث تھی۔ سیف الرحمن فون کرنے والا تھا جبکہ ملک قیوم اور ایک اور جج کو استعفا
👇
Read 13 tweets
Mar 22
کچھ سال پہلے کی بات ہے امریکہ کے ایک ٹی وی چینل پر ایک ریالٹی شو آیا کرتا تھا جس کا نام جیری اسپرنگر شو تھا
یہ شو بہت دلچسپ تھا
یہ 1991 میں شروع ہوا اور ستائیس سال تک مسلسل چلنے کے بعد 2018 میں ختم ہو گیا اس شو میں حقیقی زندگی سے تعلق رکھنے والے کردار حقیقی مسائل پر بحث مباحثے
👇
کرتے. شو کی ریٹنگ بہت زیادہ تھی اس وجہ سے چینل کو بہت زیادہ آمدن ھوا کرتی تھی چنانچہ ایسے افراد جو اس شو میں آ کر اپنے حقیقی مسائل پیش کرتے شو کے منتظمین معاوضے کے طور پر انہیں اچھی خاصی رقم دیا کرتے تھے. یہ لوگ واقعی حقیقی ھوتے انڈیا پاکستان کے شوز کی طرح پیڈ ایکٹرز نہیں
👇
ھوتے تھے. نتیجتاً اس شو کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ھوتا چلا گیا.

ان شوز میں ایک ایسا سلسلہ بھی شروع کیا گیا جسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ امریکہ کے چہرے پر زوردار تھپڑ تھا (اگر امریکہ کا کوئی چہرہ ھے)

اس سلسلے کا نام تھا " اس بچے کا باپ کون ھے" ایک عورت ایک بچے کے ساتھ پروگرام
👇
Read 13 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Don't want to be a Premium member but still want to support us?

Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(