آج بھی مدینہ کے شہری کسی اجنبی کو دیکھتے ہیں تو اُسے محمد کہہ کر پکارتے ہیں اور ساتھی کو یا صدیق - لہٰذا یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس میں ہر مہمان، ہر اجنبی کا نام محمد اور ہر ساتھی صدیق ہے
انصار نے حضورﷺ کی تواضح کی اور ان کی نسلیں حضورﷺ کے مہمانوں کی خدمت کر رہی ہیں
👇
رمضان میں پورا مدینہ اشیائے خورونوش لے کر مسجد نبوی ﷺ حاضر ہو جاتا ہے - دستر خوان بچھا دیے جاتے ہیں، میزبانوں کے بچے مسجد نبوی ﷺ کے دالانوں، ستونوں اور دروازوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں، حضور ﷺ کا جو بھی مہمان نظر آتا ہے وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر افطار کی دعوت دیتے ہیں ۔
👇
مہمان دعوت قبول کر لے تو میزبان کے چہرے پر روشنی پھیل جاتی ہے، نامنظور کر دے تو میزبان کی پلکیں گیلی ہو جاتی ہیں -
میں مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوا تو ایک سات آٹھ برس کا بچہ میری ٹانگ سے لپٹ گیا اور بڑی محبت سے کہنے لگا:
’’چچا، چچا آپ میرے ساتھ بیٹھیں گے‘‘
میرے منجمد وجود میں
👇
ایک نیلگوں شعلہ سا لرز اٹھا، میں نے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسا دیا اور سوچا کہ یہ لوگ واقعی مستحق تھے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اللہ کے گھر سے اٹھ کر ان کے گھر آ ٹھہرتے اور پھر واپس نہ جاتے۔
وہاں روضہ اطہر کے قریب ایک دروازہ ہے "باب جبرائیل" - آپ ﷺ ام المومنین حضرت عائشہ
👇
صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کے حجرہ مبارک میں قیام فرماتے تھے
افطار کا وقت ہوتا، دستر خوان بچھتا، گھر میں موجود چند کھجوریں اور دودھ کا ایک آدھا پیالہ اس دستر خوان پرچن دیا جاتا
سیدنا حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ اذان کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے:
👇
فرماتے:
’’عائشہ باہر دیکھئے باب جبرائیل کے پاس کوئی مسافر تو نہیں‘‘
آپؓ اٹھ کر دیکھتیں، واپس آ کرعرض کرتیں:
"یا رسول اللہ ﷺ وہاں ایک مسافر بیٹھا ہے۔‘‘
آپﷺ کھجوریں اور دودھ کا وہ پیالہ باہر بھجوا دیتے -
میں جونہی باب جبرائیل کے قریب پہنچا، میرے پیروں کے ناخنوں سے
👇
رانوں کی ہڈیوں تک ہر چیز پتھر ہو گئی، میں وہی بیٹھ گیا، باب جبرائیل کے اندر ذرا سا ہٹ کر حضرت عائشہؓ کے حجرے میں میرے حضور ﷺ آرام فرما رہے ہیں۔
میں نے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچا،
"آج بھی رمضان ہے، ابھی چند لمحوں بعد اذان ہو گی، ہو سکتا ہے آج بھی میرے حضور ﷺ حضرت عائشہؓ
👇
سے پوچھیں:
’’ذرا دیکھئے باہر کوئی مسافرتو نہیں‘‘
اور ام المومنین عرض کریں گی:
’’یا رسول اللہﷺ باہر ایک مسافر بیٹھا ہے، شکل سے مسکین نظر آتا ہے، نادم ہے، شرمسار ہے، تھکا ہارا ہے، سوال کرنے کا حوصلہ نہیں، بھکاری ہے لیکن مانگنے کی جرأت نہیں، لوگ یہاں کشکول لے کر آتے ہیں‘
👇
یہ خود کشکول بن کر آ گیا، اس پر رحم فرمائیں یا رسول اللہﷺ، بیچارہ سوالی ہے، بے چارہ بھکاری ہے‘‘ -
اور
پھر میرا پورا وجود آنکھیں بن گیا اور سارے اعضاء آنسو !!!!
میں کیسے بھول جاؤں میرا حافظہ ضرور کمزور ہے لیکن میرا لکھا محفوظ ہے
آج 26 مارچ 2023 ہے اور اتوار کا دن ہے جب میں نے اپنی ڈائری کھولی تو 26 مارچ کا ہی دن تھا اور سال 2019 ، منگل کا دن تھا کراچی سے تخت پاکستان کا طلبگار بلاول زرداری کرپشن کیخلاف کراچی سے لاڑکانہ تک ٹرین مارچ
👇
نکال رہا تھا اور وہ بھی سرکاری خرچے پر جیسے وہ کرپشن نہیں بلکہ باپ کا مال تھا ۔
جبکہ 25 مارچ کو دادو میں پولیس نے بدترین تشدد اور تذلیل کا شکار بننے والی غریب عورت اور اس کے معصوم بچے کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے گرفتار کرلیا۔
تذلیل کرنے والے تشدد کرنے والے تماشہ دیکھنے والے
👇
اور پولیس والے سب آزاد گھوم رہے تھے ، کسی کو بھی کرپشن نظر نہیں آئی ۔
اسی دن 26 مارچ 2019 ، کو سابق وزیراعظم نواز شریف چھ ہفتوں کیلئے رہا کر دیئے گئے اور 25 مارچ کو ایک نازک اندام عورت کو مار مار کر لاک اپ میں ڈال دیا گیا ۔
پچیس حج اور سو سے زائد عمرے کیے ہیں ہمارے مولانا حنیف جالندھری صاحب نے اس کے علاوہ چھے برآعظموں کے چالیس ممالک کی سیر بھی کر چکے ہیں. اس سال الحاج صاحب چھبیسویں حج پر جانے کی تیاری میں ہیں. چھبیس حج میں سے ایک بھی اپنے خرچے پر نہیں کیا گیا. حنیف جالندھری صاحب
👇
وفاق المدارس کے چئیرمین ہیں اور مدارس کے نصاب میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں. مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو سکول کالج میں پڑھایا ہے. اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے بیٹے اور بیٹی کو جرمنی سے کورس کروائے. یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کالج یونیورسٹی میں
👇
پڑھیں اعلیٰ تعلیم یورپ میں حاصل کریں جبکہ غریب کا بچہ وہی تین سو سال پرانا درس نظامی پڑھتا رہے..
آپ پورے پاکستان کے تمام بڑے مدارس کی فہرست بنائیں، تمام بڑے علمائے کرام کو لسٹ کریں. پھر حساب کتاب لگائیں کس کے بچے کشمیر افغانستان جہاد پر گئے ہیں؟ کس کے بچوں نے درس نظامی کیا ہے
👇
ہیمیں یہ تو بتاتے ہیں
کہ
حضرت یوسف بہت خوبصورت اور حسین و جمیل تھے ،
مگر
کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس یوسف نے اپنے ملک کو کیا "معاشی پروگرام" دیا تھا کہ 7 سال کے قحط میں کوئی انسان بھوک سے نہیں مرنے پایا
سب صرف یہ تو بتاتے ہیں کہ حضرت سلیمان کی بادشاہت اتنی
👇
دبدبے والی تھی کہ جنات بھی ان کے ماتحت تھے مگر کوئی نہیں بتاتا کہ وہ بے پناہ "سیاسی بصیرت" رکھنے والے بادشاہ تھے اپنے ملک فلسطین (انڈسٹریل/ صنعتی اکانومی ) اور ملکہ بلقیس کے ملک یمن ( ایگریکلچرل/ ذرعی اکانومی ) کے درمیان دو طرفہ معاہدات کے نتیجے میں خطے کو جس طرح خوشحالی دی
👇
آج کی جدید دنیا بھی اس کی مثال نہیں دیتی
مجھے سب واعظ صرف اتنا سا تو بتاتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ کی زلفیں "والیل" اور روۓ مبارک "والضحی" کا تھا مگر اس سے آگے کبھی کوئی یہ نہیں بتاتا کہ جس معاشرے میں لوگ غربت سے تنگ آ کر ہمہ وقت لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کرتے رہتے ہوں وہاں
👇
22 جنوری 1957 کو سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں پیدا ہونے والی پروین رحمن صاحبہ بالآخر 1971 کو اپنے لٹے پٹے خاندان کے ساتھ کراچی پہنچیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان کے خاندان نے 1962 میں بہار سے مشرقی پاکستان ہجرت کی تھی مگر حالات کی
👇
نزاکت نے انہیں صرف 9 سال بعد دوبارہ ہجرت پر مجبور کردیا۔
محض 15 سے 20 منٹ میں ان کے خاندان کو ڈھاکہ میں گھر خالی کرنے کا آرڈر ملا اور ان کا گھرانہ صرف اپنی جان اور عزت آبرو کے ساتھ کراچی پہنچا، کراچی میں کچھ دوسری قسم کی پریشانیوں کا سامنا تھا۔ بہرحال پروین رحمان کا تعلق
👇
کیوں کہ ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا اس لئے ان کو فورا ہی سینٹ پیٹرکس اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اسکول اور کالج سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے داؤد انجینئرنگ کالج سے 1982 میں آرکیٹیکچر کی ڈگری حاصل کی اور اپنے آخری سال کے پروجیکٹ کے لیے کسی ڈیفنس اور ایلیٹ کلاس کا انتخاب کرنے
👇
(How Rich became Elite in Pakistan
A well researched article by Rosita Armytage)
پاکستان کی ایک فیصد اشرافیہ گذشتہ چالیس سال کے عرصہ میں صرف بائیس خاندانوں سے بائیس لاکھ تک کیسے پہنچی؟ دولت کی یہ پیوند کاری کیسے ہوئی؟ اور یہ فصل اتنی ثمربار کس طرح ہو گئی۔ روزیٹا آرمیٹیج
👇
(Rosita Armytage)
کا تحقیقی مطالعہ پاکستان میں ارتکازِ دولت اور استحصالی طبقات کے مختلف طریقِ ہائے کار سے پردہ اُٹھاتا ہے۔
اس کے مطابق یہ ایک خوفناک گٹھ جوڑ ہے جو اعلیٰ سطح کے بیوروکریٹس، فوجی جرنیلوں، سیاسی رہنمائوں اور کاروباری اشرافیہ کے درمیان وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم ہوتا
👇
چلا جا رہا ہے۔ یوں تو ہر گروہ کے اپنے اپنے طاقت کے مراکز (Power Blocks) ہیں، لیکن مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لئے یہ تمام گروہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہ طاقت کے مراکز فوج، سول بیوروکریسی، بزنس اور سیاست میں پائے جاتے ہیں۔ یہ تمام لوگ اپنے اپنے گروہوں میں انفرادی طور ترقی کی سیڑھیاں
👇
جب ہم کہتے ہیں کہ ہم #حقیقی_آزادی_کی_جنگ لڑ رہے ہیں تو اس دور کا یزیدی ٹولہ ہم سے استہزا کرتا ہے
ٹھٹھے لگاتا ہے کہ آزاد ملک میں رہتے ہو کس سے آزاد چاہیے
پھر ہم نے دیکھا کہ پر امن مارچ پر تشدد کی انتہا کر دی گئی،
ہم سے کہتے ہیں کہ ہم یوتھئے ہیں ، فسادی ہیں،
کیا فساد کیا ہے؟
👇
کیا ہم یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو اسی طرح سازش کر کے چور راستے سے وزیراعظم بنا دو جیسے شہباز شریف کو بنایا ہے؟؟
ہم صرف شفاف انتخابات ہی تو مانگ رہے ہیں
کیا یہ گناہ ہے؟؟
یہ فساد ہے؟؟
اب بھی آئین پامال کرکے الیکشن ملتوی کر دئے گئے ہیں
اب ہم جلسہ کرنا چاہتے ہیں تو کورٹ کی
👇
اجازت کے باوجود ریاستی ظلم جاری ہے
بےگناہ نوجوانوں کو اٹھایا جا رہا ہے
مارا جا رہا ہے
ننگا کیا جا رہا یے #بادشاہ_ننگا_ہے
یہ سب کو پتہ چل گیا ہے
اور ننگا بادشاہ اپنی جھینپ مٹانے کے لیے سب کو پکڑ کر ننگا کر رہا ہے
بوڑھوں کو، نوجوانوں کو
الیکشن کی مانگ کرنے والی خواتین کو بدکاری
👇