The Alfred Hitchcock Hour - Final Escape 1964
ترجمہ: توقیر بُھملہ
کروڑ پتی مجرم کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اور اس سزا پر عملدرآمد کے لیے اسے شہر سے دور دراز ایک گمنام جزیرے کی جیل میں قید کر دیا گیا تاکہ وہ اپنی دولت یا اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے فیصلے پر
👇
اثر انداز نہ ہوسکے۔ کروڑ پتی مجرم نے اس جزیرے پر ہی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا ،اس کے لیے اس نے جیل کے سنتری کو رشوت دینے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی قیمت پر جیل کے جزیرے سے باہر وہ فرار ہو سکے۔
سنتری نے اسے بتایا کہ یہاں پر حفاظتی اقدامات بہت سخت ہیں اور
👇
کوئی بھی قیدی جزیرے سے باہر نہیں نکل سکتا سوائے ایک صورت کے، جو کہ... موت ہے!
لیکن لاکھوں کے لالچ نے سنتری کو قیدی کا ساتھ دینے پر آمادہ کر لیا۔ اس کے لیے سنتری نے ایک عجیب و غریب طریقہ نکالا اور اس کروڑ پتی مجرم کو بتا دیا، جو درج ذیل ہے
"سنو: جیل کے جزیرے سے صرف ایک چیز جو
👇
بغیر کسی حفاظتی انتظامات اور تفتیش کے باہر آتی ہے وہ ہے مُردوں کا تابوت۔ جب کبھی کسی کو پھانسی دے دی جائے یا وہ طبعی موت مر جائے تو ان کی لاشوں کو مردہ خانے سے تابوت میں ڈال کر بحری جہاز پر منتقل کردیا جاتا ہے، جہاں پر غیر مسلح چند محافظوں کی نگرانی میں کچھ سادہ رسومات
👇
ادا کرنے کے بعد ان تابوتوں کو قبرستان میں دفن کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے، وہ محافظ ان تابوتوں کو بحری جہاز سے خشکی پر منتقل کرنے اور پھر دفنانے کے بعد واپس لوٹ آتے ہیں۔ اس کارروائی پر روزانہ صبح دس بجے اس صورت میں عملدرآمد کیا جاتا ہے کہ وہاں مردہ خانے میں مردہ اور تابوت
👇
موجود ہوں، آپ کے فرار کا واحد حل یہ ہے کہ اختتامی لمحات سے پہلے آپ کسی طرح کسی ایک تابوت میں پہلے سے مردہ شخص کے ساتھ لیٹ جائیں، معمول کی کارروائی اختتام پذیر ہو، بحری جہاز سے آپ زمین اور زمین سے قبرستان پہنچ جائیں، وہاں جا کر تابوت کو دفن کر دیا جائے، اور جیسے ہی عملہ وہاں سے
👇
واپسی کے لیے نکلے تو میں ہنگامی رخصت لے کر آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہاں پہنچ کر آپ کو قبر اور تابوت سے باہر نکال لوں۔ پھر آپ مجھے وہ رقم دے دیں جس پر ہم نے اتفاق کیا ہے، اور میں چھٹی کا وقت ختم ہوتے ہی واپس جیل چلا جاؤں گا اور آپ غائب ہو جائیں گے یوں آپ کی گمشدگی ایک معمہ ہی
👇
رہے گی، اور اس معمے سے ہم دونوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا... آپ کا کیا خیال ہے؟
کروڑ پتی نے سوچا کہ یہ ایک جنونی قسم کا منصوبہ ہے، لیکن پھانسی کے پھندے پر جھولنے سے یہ پھر بھی ہزار درجے بہتر ہے کروڑ پتی نے تگڑی رقم دینے کا وعدہ کیا اور پھر دونوں نے اسی طریقہ کار پر اتفاق کر لیا
👇
سنتری کے منصوبے کے مطابق اس قیدی نے اتفاق کیا کہ وہ مردہ خانے میں چپکے سے جائے گا اگر وہ خوش قسمت رہا اور وہاں کسی کی موت واقع ہوگئی تو وہ اپنے آپ کو بائیں طرف کے پہلے نمبر والے تابوت میں بند کر لےگا جس کے اندر پہلے سے ایک لاش موجود ہوگی
اگلے دن حسب منصوبہ سنتری کے بتائے ہوئے
👇
رستے پر چلتے ہوئے وہ کروڑ پتی شخص مردہ خانے کے اندر گھسنے میں کامیاب ہوگیا، وہاں مردہ خانے کے فرش پر دو تابوت رکھے ہوئے تھے، پہلے تو وہ تابوت میں کسی مردے کے ساتھ لیٹنے کے خیال سے گھبرا گیا لیکن ایک بار پھر زندہ رہنے کی جبلت اس عارضی خوف پر غالب آگئی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند
👇
کرتے ہوئے احتیاط سے تابوت کو کھولا تاکہ لاش کو دیکھ کر خوفزدہ نہ ہو، اور اپنے آپ کو تیزی سے تابوت کے اندر مردے کے اوپر گرا دیا، اور اس وقت تک بے چینی اور پکڑے جانے کے خوف کے ساتھ وہ انتظار کرتا رہا جب تک کہ اس نے محافظوں کی آواز نہ سن لی، وہ تابوت کو جہاز کے عرشے پر لے جانے کے
👇
لیے آپس میں گفتگو کر رہے تھے..
مردہ خانے سے لیکر جہاز پر پہنچنے تک اسے قدم بہ قدم جگہ کی تبدیلی کا احساس ہوتا رہا۔
جہاز کا لنگر اٹھنے سے لیکر پانی پر اس کی حرکت کو اس نے محسوس کیا ، سمندری پانی کی مہک جب تک اس کے نتھنوں سے ٹکراتی رہی تب تک اسکا عدم تحفظ کا احساس برقرار رہا۔
👇
جہاز ساحل پر پہنچ کر لنگر انداز ہوا ، محافظوں نے کھینچ کر تابوت کو خشکی پر اتارا تو اس کے کانوں سے محافظوں کی گفتگو کے چند الفاظ ٹکرائے، وہ اس تابوت کے عجیب و غریب وزن کے بارے میں ایک دوسرے سے تبصرہ کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اتنے وزنی تابوت سے زندگی میں پہلی دفعہ پالا پڑا
👇
ہے۔اس گفتگو سے اس کروڑ پتی قیدی نے عجیب سا خوف اور تناؤ محسوس کیا، وہ ڈر گیا تھا کہ کہیں یہ محافظ اس تابوت کو کھول کر دیکھ ہی نہ لیں کہ اندر کیا ہے۔ لیکن یہ تناؤ اس وقت ختم ہو گیا جب اس نے ایک محافظ کو لطیفہ سناتے ہوئے سنا جس میں وہ زیادہ وزن والے قیدیوں کا مذاق اڑا رہا تھا۔
👇
مردہ خانے سے لیکر قبرستان پہنچنے تک شاید یہ پہلا لمحہ تھا جب اس نے تھوڑی سی راحت محسوس کی
اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ تابوت کو گڑھے میں اتارا جا رہا ہے،چند لمحوں بعد اسے تابوت کے اوپری حصے پر مٹی کے بکھرنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی، اور محافظوں کے بولنے کی آواز آہستہ آہستہ
👇
کم ہوتے ہوئے ختم ہوگئی تھی...
اور اب اس اندھیری قبر میں وہ ایک عجیب صورتحال سے دوچار تھا ، انسانی لاش کے ساتھ تین میٹر کی گہرائی میں وہ زندہ دفن تھا، اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کے لیے سانس لینا دوبھر ہوتا جا رہا تھا
اس نے سوچا یہ بات درست ہے کہ وہ اس سنتری پر بھروسہ نہیں
👇
کرتا تھا، لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ دولت سے محبت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے اور وہ سنتری وعدے کے مطابق لاکھوں کی رقم لینے کے لیے دولت سے اپنی محبت کی بدولت ضرور آئے گا
انتظار طویل ہوتا جارہا تھا.. جسم پر پسینہ بہنے کا احساس یوں ہو رہا تھا جیسے ہزاروں چیونٹیاں دھیرے دھیرے رینگ
👇
رہی ہوں سانسیں دھونکنی کی مانند تیز تیز چلنے لگی تھیں اور حبس سے دم گھٹ رہا تھا
خود کو مطمئن کرتے ہوئے وہ کہنے لگا، بس مزید دس منٹ کی بات ہے، اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، اور وہ دوبارہ آزاد فضاؤں میں سانس لے گا اور ایک بار پھر روشنی دیکھے گا
سانس لینے میں دقت کے باعث اب
👇
وہ مسلسل کھانسنے لگا تھا
مزید دس منٹ گزر گئے
اس قبر میں آکسیجن ختم ہونے والی ہے، اور وہ سنتری ابھی تک نہیں آیا اسی سوچ میں تھا کہ اس نے بہت دور سے قدموں کی آہٹ سنی
ان آوازوں کے ساتھ ہی اس کی نبض تیز ہو گئی
ضرور یہ وہ سنتری ہی ہوگا
آخر وہ آ ہی گیا
آواز قریب پہنچ کر
👇
پھر دور ہوتی چلی گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ اسے ہسٹیریا کا دورہ پڑ رہا ہے۔ اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے لاش حرکت رہی ہو
ساتھ ہی اس نے تصور میں دیکھا کہ اس کے نیچے دبا ہوا مردہ آدمی اس کی حالت پر طنزیہ انداز میں مسکرا رہا ہے۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اس کی جیب میں ماچس کی ڈبیہ ہے اور
👇
تیلی سلگا کر وہ اپنی کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھ سکتا ہے کہ سنتری کے وعدے کے مطابق کتنا وقت گزر گیا تھا اور کتنا باقی ہے۔ اسے امید تھی کہ سنتری کے بتائے ہوئے وقت میں سے ابھی چند منٹ باقی ہوں گے
جب اس نے تیلی سلگائی تو آکسیجن کی کمی کے باعث مدھم سی روشنی نکلی
شعلے کو گھڑی
👇
کے قریب لاکر اس نے دیکھا تو پتا چلا کہ پینتالیس منٹ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے گھڑی میں وقت دیکھ کر اب وہ حقیقی معنوں میں خوفزدہ ہو چکا تھا
ملگجی روشنی میں اسے محسوس ہوا کہ اس کا چہرہ مردے کے چہرے کے بالکل قریب ہے اس نے خود سے سوال کیا، کیا مردہ شخص کا چہرہ دیکھنا اسے مزید خوف
👇
میں مبتلا کرے گا؟
تجسّس اور خوف کے ساتھ اس نے اپنی گردن موڑی ، شعلے کو لاش کے چہرے کے قریب کیا اور دہشت کے مارے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی، مرنے سے پہلے اس نے دیکھا
👇
ماہر تعلیم اور ادیب محمد صہیب فاروق کی دِل کو موہ لینے والی تحریر
ایک بچے کے والدین ہرسال اسے ٹرین میں اس کی دادی کے پاس گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے لے جاتے
پھر وہ اسے چھوڑ کر اگلے دن واپس آجایا کرتے تھے
پھر ایک سال ایسا ہوا کہ بچے نے ان سے کہا "میں اب بڑا ہو گیا ہوں
👇
اگر اس سال میں دادی کے پاس اکیلا چلا گیا تو کیا ہوگا ؟"
والدین نے مختصر بحث کے بعد اتفاق کر لیا مقررہ دن اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پہنچ گٸے والد نے جونہی کچھ سفرکی ہدایات دینا شروع کیں
تو بیٹا اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہنے لگا
: اباجان ! "میں ہزار مرتبہ یہ ہدایات سن چکا ہوں !"
👇
ٹرین کے روانہ ہونے سے ایک لمحہ پہلے، اس کے والد اس کے قریب آئے اور اس کے کان میں سرگوشی کی
"یہ لو، اگر تم خوفزدہ ہو یا بیمار ہو تو یہ تمہارے لیے ہے"
اور اپنے بچے کی جیب میں کچھ ڈال دیا
بچہ پہلی بار والدین کے بغیر ٹرین میں اکیلا بیٹھا تھا،
وہ کھڑکی سے زمین کی خوبصورتی کو
👇
گبر سنکھ پورے رام پور سے اناج لینے تین آدمی گھوڑوں پر بھیجتا تھا۔ اسے پتا تھا کہ اتنا اناج لینا ہے کہ گاؤں والوں کو اپنی جان کے لالے نہ پڑ جائیں۔ کیونکہ اگر بھوک سے موت آنی ہے تو بندہ اپنا حق چھیننے والے سے لڑ کر ہی کیوں نہ مرے۔
👇
پاکستان کی فوج کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آرہی ہے۔جب تک خوشحالی تھی، ڈالرز آرہے تھے؛ کسی کو پرواہ نہیں تھی حمید گل کی بیٹی کی ٹرنسپورٹ کمپنی کی اور جنرل اختر عبد الرحمان کی اولاد کی صنعتی ایمپائر کی یا کور کمانڈرز کے کروڑ کمانڈرز ہونے کی۔
اب بات پیٹ تک آگئی ہے۔
👇
عوام لڑنے اور مرنے پر آگئی ہے۔ عمران خان تو محض ایک ماچس کی تیلی ہے؛ تیل تو آرمی چیفس خود چھڑکتے آئے ہیں۔ آئی ایم ایف ایک ارب ڈالر دے بھی دے تو دو یا تین مہینے چلیں گے۔ کتنے مہینے ہو گئے مقبوضہ کشمیر کا نام تک نہیں لیا کسی نے؟ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ فوج کو فوری طور پر پلاٹوں
👇
میں کیسے بھول جاؤں میرا حافظہ ضرور کمزور ہے لیکن میرا لکھا محفوظ ہے
آج 26 مارچ 2023 ہے اور اتوار کا دن ہے جب میں نے اپنی ڈائری کھولی تو 26 مارچ کا ہی دن تھا اور سال 2019 ، منگل کا دن تھا کراچی سے تخت پاکستان کا طلبگار بلاول زرداری کرپشن کیخلاف کراچی سے لاڑکانہ تک ٹرین مارچ
👇
نکال رہا تھا اور وہ بھی سرکاری خرچے پر جیسے وہ کرپشن نہیں بلکہ باپ کا مال تھا ۔
جبکہ 25 مارچ کو دادو میں پولیس نے بدترین تشدد اور تذلیل کا شکار بننے والی غریب عورت اور اس کے معصوم بچے کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے گرفتار کرلیا۔
تذلیل کرنے والے تشدد کرنے والے تماشہ دیکھنے والے
👇
اور پولیس والے سب آزاد گھوم رہے تھے ، کسی کو بھی کرپشن نظر نہیں آئی ۔
اسی دن 26 مارچ 2019 ، کو سابق وزیراعظم نواز شریف چھ ہفتوں کیلئے رہا کر دیئے گئے اور 25 مارچ کو ایک نازک اندام عورت کو مار مار کر لاک اپ میں ڈال دیا گیا ۔
پچیس حج اور سو سے زائد عمرے کیے ہیں ہمارے مولانا حنیف جالندھری صاحب نے اس کے علاوہ چھے برآعظموں کے چالیس ممالک کی سیر بھی کر چکے ہیں. اس سال الحاج صاحب چھبیسویں حج پر جانے کی تیاری میں ہیں. چھبیس حج میں سے ایک بھی اپنے خرچے پر نہیں کیا گیا. حنیف جالندھری صاحب
👇
وفاق المدارس کے چئیرمین ہیں اور مدارس کے نصاب میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں. مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو سکول کالج میں پڑھایا ہے. اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے بیٹے اور بیٹی کو جرمنی سے کورس کروائے. یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کالج یونیورسٹی میں
👇
پڑھیں اعلیٰ تعلیم یورپ میں حاصل کریں جبکہ غریب کا بچہ وہی تین سو سال پرانا درس نظامی پڑھتا رہے..
آپ پورے پاکستان کے تمام بڑے مدارس کی فہرست بنائیں، تمام بڑے علمائے کرام کو لسٹ کریں. پھر حساب کتاب لگائیں کس کے بچے کشمیر افغانستان جہاد پر گئے ہیں؟ کس کے بچوں نے درس نظامی کیا ہے
👇
ہیمیں یہ تو بتاتے ہیں
کہ
حضرت یوسف بہت خوبصورت اور حسین و جمیل تھے ،
مگر
کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس یوسف نے اپنے ملک کو کیا "معاشی پروگرام" دیا تھا کہ 7 سال کے قحط میں کوئی انسان بھوک سے نہیں مرنے پایا
سب صرف یہ تو بتاتے ہیں کہ حضرت سلیمان کی بادشاہت اتنی
👇
دبدبے والی تھی کہ جنات بھی ان کے ماتحت تھے مگر کوئی نہیں بتاتا کہ وہ بے پناہ "سیاسی بصیرت" رکھنے والے بادشاہ تھے اپنے ملک فلسطین (انڈسٹریل/ صنعتی اکانومی ) اور ملکہ بلقیس کے ملک یمن ( ایگریکلچرل/ ذرعی اکانومی ) کے درمیان دو طرفہ معاہدات کے نتیجے میں خطے کو جس طرح خوشحالی دی
👇
آج کی جدید دنیا بھی اس کی مثال نہیں دیتی
مجھے سب واعظ صرف اتنا سا تو بتاتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ کی زلفیں "والیل" اور روۓ مبارک "والضحی" کا تھا مگر اس سے آگے کبھی کوئی یہ نہیں بتاتا کہ جس معاشرے میں لوگ غربت سے تنگ آ کر ہمہ وقت لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کرتے رہتے ہوں وہاں
👇
22 جنوری 1957 کو سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں پیدا ہونے والی پروین رحمن صاحبہ بالآخر 1971 کو اپنے لٹے پٹے خاندان کے ساتھ کراچی پہنچیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان کے خاندان نے 1962 میں بہار سے مشرقی پاکستان ہجرت کی تھی مگر حالات کی
👇
نزاکت نے انہیں صرف 9 سال بعد دوبارہ ہجرت پر مجبور کردیا۔
محض 15 سے 20 منٹ میں ان کے خاندان کو ڈھاکہ میں گھر خالی کرنے کا آرڈر ملا اور ان کا گھرانہ صرف اپنی جان اور عزت آبرو کے ساتھ کراچی پہنچا، کراچی میں کچھ دوسری قسم کی پریشانیوں کا سامنا تھا۔ بہرحال پروین رحمان کا تعلق
👇
کیوں کہ ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا اس لئے ان کو فورا ہی سینٹ پیٹرکس اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اسکول اور کالج سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے داؤد انجینئرنگ کالج سے 1982 میں آرکیٹیکچر کی ڈگری حاصل کی اور اپنے آخری سال کے پروجیکٹ کے لیے کسی ڈیفنس اور ایلیٹ کلاس کا انتخاب کرنے
👇