ماہر تعلیم اور ادیب محمد صہیب فاروق کی دِل کو موہ لینے والی تحریر
ایک بچے کے والدین ہرسال اسے ٹرین میں اس کی دادی کے پاس گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے لے جاتے
پھر وہ اسے چھوڑ کر اگلے دن واپس آجایا کرتے تھے
پھر ایک سال ایسا ہوا کہ بچے نے ان سے کہا "میں اب بڑا ہو گیا ہوں
👇
اگر اس سال میں دادی کے پاس اکیلا چلا گیا تو کیا ہوگا ؟"
والدین نے مختصر بحث کے بعد اتفاق کر لیا مقررہ دن اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پہنچ گٸے والد نے جونہی کچھ سفرکی ہدایات دینا شروع کیں
تو بیٹا اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہنے لگا
: اباجان ! "میں ہزار مرتبہ یہ ہدایات سن چکا ہوں !"
👇
ٹرین کے روانہ ہونے سے ایک لمحہ پہلے، اس کے والد اس کے قریب آئے اور اس کے کان میں سرگوشی کی
"یہ لو، اگر تم خوفزدہ ہو یا بیمار ہو تو یہ تمہارے لیے ہے"
اور اپنے بچے کی جیب میں کچھ ڈال دیا
بچہ پہلی بار والدین کے بغیر ٹرین میں اکیلا بیٹھا تھا،
وہ کھڑکی سے زمین کی خوبصورتی کو
👇
دیکھتا رہا اور اپنے اردگرد اٹھنے والے اجنبیوں کا شور سنتا رہا ،کبھی اپنی سیٹ سے اٹھ کر کیبن سے باہر نکلتا تو کبھی اندر چلاجاتا
یہاں تک کہ ٹرین کے ٹی ٹی نے بھی حیرانگی کا اظہار کیا اور اس سے بغیر کسی ساتھی کے اکیلے سفر بارے سوال کیا
اسی طرح ایک عورت نے اسے اداس دیکھ کر
👇
گھورا ۔
لڑکا شدید الجھن میں تھا یہاں تک کہ اس نے محسوس کیا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔
پھر وہ خوفزدہ ہو گیا
یہاں تک کہ وہ اپنی کرسی پر سے گر گیا اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں
اس لمحے اسے اپنے باپ کی سرگوشی یاد آئی کہ فلاں لمحے اس نے میری جیب میں کچھ ڈالا تھا
👇
اس نے کانپتے ہوئے ہاتھ سے جیب میں تلاش کیا تو چھوٹا سا کاغذ ملا۔ اس نے اسے کھولا: تو لکھا تھا
’’بیٹا، میں ٹرین کے آخری ڈبے میں ہوں۔‘‘
یہ الفاظ پڑھتے ہی گویا اس کی روح لوٹ آٸی
زندگی بھی ایسی ہی ہے، ہم اپنے بچوں کے پروں کو چھوڑتے ہیں، انہیں خود پر اعتماد دلاتے ہیں
لیکن - - -
👇
جب تک ہم زندہ ہیں، ہمیں ہمیشہ آخری کیبن میں موجود رہنا چاہیے..
اس لیے کہ یہ ان کے لیے تحفظ کے احساس کا ذریعہ ہے
گبر سنکھ پورے رام پور سے اناج لینے تین آدمی گھوڑوں پر بھیجتا تھا۔ اسے پتا تھا کہ اتنا اناج لینا ہے کہ گاؤں والوں کو اپنی جان کے لالے نہ پڑ جائیں۔ کیونکہ اگر بھوک سے موت آنی ہے تو بندہ اپنا حق چھیننے والے سے لڑ کر ہی کیوں نہ مرے۔
👇
پاکستان کی فوج کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آرہی ہے۔جب تک خوشحالی تھی، ڈالرز آرہے تھے؛ کسی کو پرواہ نہیں تھی حمید گل کی بیٹی کی ٹرنسپورٹ کمپنی کی اور جنرل اختر عبد الرحمان کی اولاد کی صنعتی ایمپائر کی یا کور کمانڈرز کے کروڑ کمانڈرز ہونے کی۔
اب بات پیٹ تک آگئی ہے۔
👇
عوام لڑنے اور مرنے پر آگئی ہے۔ عمران خان تو محض ایک ماچس کی تیلی ہے؛ تیل تو آرمی چیفس خود چھڑکتے آئے ہیں۔ آئی ایم ایف ایک ارب ڈالر دے بھی دے تو دو یا تین مہینے چلیں گے۔ کتنے مہینے ہو گئے مقبوضہ کشمیر کا نام تک نہیں لیا کسی نے؟ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ فوج کو فوری طور پر پلاٹوں
👇
The Alfred Hitchcock Hour - Final Escape 1964
ترجمہ: توقیر بُھملہ
کروڑ پتی مجرم کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اور اس سزا پر عملدرآمد کے لیے اسے شہر سے دور دراز ایک گمنام جزیرے کی جیل میں قید کر دیا گیا تاکہ وہ اپنی دولت یا اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے فیصلے پر
👇
اثر انداز نہ ہوسکے۔ کروڑ پتی مجرم نے اس جزیرے پر ہی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا ،اس کے لیے اس نے جیل کے سنتری کو رشوت دینے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی قیمت پر جیل کے جزیرے سے باہر وہ فرار ہو سکے۔
سنتری نے اسے بتایا کہ یہاں پر حفاظتی اقدامات بہت سخت ہیں اور
👇
کوئی بھی قیدی جزیرے سے باہر نہیں نکل سکتا سوائے ایک صورت کے، جو کہ... موت ہے!
لیکن لاکھوں کے لالچ نے سنتری کو قیدی کا ساتھ دینے پر آمادہ کر لیا۔ اس کے لیے سنتری نے ایک عجیب و غریب طریقہ نکالا اور اس کروڑ پتی مجرم کو بتا دیا، جو درج ذیل ہے
"سنو: جیل کے جزیرے سے صرف ایک چیز جو
👇
میں کیسے بھول جاؤں میرا حافظہ ضرور کمزور ہے لیکن میرا لکھا محفوظ ہے
آج 26 مارچ 2023 ہے اور اتوار کا دن ہے جب میں نے اپنی ڈائری کھولی تو 26 مارچ کا ہی دن تھا اور سال 2019 ، منگل کا دن تھا کراچی سے تخت پاکستان کا طلبگار بلاول زرداری کرپشن کیخلاف کراچی سے لاڑکانہ تک ٹرین مارچ
👇
نکال رہا تھا اور وہ بھی سرکاری خرچے پر جیسے وہ کرپشن نہیں بلکہ باپ کا مال تھا ۔
جبکہ 25 مارچ کو دادو میں پولیس نے بدترین تشدد اور تذلیل کا شکار بننے والی غریب عورت اور اس کے معصوم بچے کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے گرفتار کرلیا۔
تذلیل کرنے والے تشدد کرنے والے تماشہ دیکھنے والے
👇
اور پولیس والے سب آزاد گھوم رہے تھے ، کسی کو بھی کرپشن نظر نہیں آئی ۔
اسی دن 26 مارچ 2019 ، کو سابق وزیراعظم نواز شریف چھ ہفتوں کیلئے رہا کر دیئے گئے اور 25 مارچ کو ایک نازک اندام عورت کو مار مار کر لاک اپ میں ڈال دیا گیا ۔
پچیس حج اور سو سے زائد عمرے کیے ہیں ہمارے مولانا حنیف جالندھری صاحب نے اس کے علاوہ چھے برآعظموں کے چالیس ممالک کی سیر بھی کر چکے ہیں. اس سال الحاج صاحب چھبیسویں حج پر جانے کی تیاری میں ہیں. چھبیس حج میں سے ایک بھی اپنے خرچے پر نہیں کیا گیا. حنیف جالندھری صاحب
👇
وفاق المدارس کے چئیرمین ہیں اور مدارس کے نصاب میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں. مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو سکول کالج میں پڑھایا ہے. اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے بیٹے اور بیٹی کو جرمنی سے کورس کروائے. یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کالج یونیورسٹی میں
👇
پڑھیں اعلیٰ تعلیم یورپ میں حاصل کریں جبکہ غریب کا بچہ وہی تین سو سال پرانا درس نظامی پڑھتا رہے..
آپ پورے پاکستان کے تمام بڑے مدارس کی فہرست بنائیں، تمام بڑے علمائے کرام کو لسٹ کریں. پھر حساب کتاب لگائیں کس کے بچے کشمیر افغانستان جہاد پر گئے ہیں؟ کس کے بچوں نے درس نظامی کیا ہے
👇
ہیمیں یہ تو بتاتے ہیں
کہ
حضرت یوسف بہت خوبصورت اور حسین و جمیل تھے ،
مگر
کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس یوسف نے اپنے ملک کو کیا "معاشی پروگرام" دیا تھا کہ 7 سال کے قحط میں کوئی انسان بھوک سے نہیں مرنے پایا
سب صرف یہ تو بتاتے ہیں کہ حضرت سلیمان کی بادشاہت اتنی
👇
دبدبے والی تھی کہ جنات بھی ان کے ماتحت تھے مگر کوئی نہیں بتاتا کہ وہ بے پناہ "سیاسی بصیرت" رکھنے والے بادشاہ تھے اپنے ملک فلسطین (انڈسٹریل/ صنعتی اکانومی ) اور ملکہ بلقیس کے ملک یمن ( ایگریکلچرل/ ذرعی اکانومی ) کے درمیان دو طرفہ معاہدات کے نتیجے میں خطے کو جس طرح خوشحالی دی
👇
آج کی جدید دنیا بھی اس کی مثال نہیں دیتی
مجھے سب واعظ صرف اتنا سا تو بتاتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ کی زلفیں "والیل" اور روۓ مبارک "والضحی" کا تھا مگر اس سے آگے کبھی کوئی یہ نہیں بتاتا کہ جس معاشرے میں لوگ غربت سے تنگ آ کر ہمہ وقت لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کرتے رہتے ہوں وہاں
👇
22 جنوری 1957 کو سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں پیدا ہونے والی پروین رحمن صاحبہ بالآخر 1971 کو اپنے لٹے پٹے خاندان کے ساتھ کراچی پہنچیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان کے خاندان نے 1962 میں بہار سے مشرقی پاکستان ہجرت کی تھی مگر حالات کی
👇
نزاکت نے انہیں صرف 9 سال بعد دوبارہ ہجرت پر مجبور کردیا۔
محض 15 سے 20 منٹ میں ان کے خاندان کو ڈھاکہ میں گھر خالی کرنے کا آرڈر ملا اور ان کا گھرانہ صرف اپنی جان اور عزت آبرو کے ساتھ کراچی پہنچا، کراچی میں کچھ دوسری قسم کی پریشانیوں کا سامنا تھا۔ بہرحال پروین رحمان کا تعلق
👇
کیوں کہ ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا اس لئے ان کو فورا ہی سینٹ پیٹرکس اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اسکول اور کالج سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے داؤد انجینئرنگ کالج سے 1982 میں آرکیٹیکچر کی ڈگری حاصل کی اور اپنے آخری سال کے پروجیکٹ کے لیے کسی ڈیفنس اور ایلیٹ کلاس کا انتخاب کرنے
👇