میرا اعتراض بلوچی بزرگ پر نہیں ہے اور نہ ہی ہم ان کی مقبولیت سے خائف ہیں ۔ میرا اعتراض اس قوم پر ہے ۔ سادہ سا باریش اور معمر شخص قادر بخش مری صرف اپنے حلیے اور ہیئت سے مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو اپنا مرید بنا گیا ۔ کچھ تو جذبات میں اس قدر بہہ گئے کہ مشابہت صحابہ سے کردی ۔
👇
بعض جوشیلوں نے سیدھا سیدھا حضرت ابو بکر صدیق سے ملا دیا
ایک نو سیکنڈ کی ویڈیو اس قوم میں ایک اجنبی شخص سے اس قدر عقیدت بھر دیتی ہے کہ وہ جوق در جوق اس کی جھونپڑی میں جا پہنچتے ہیں ، ہاوسنگ سوسائیٹی میں پلاٹ نام کردیتے ہیں ، جاوید آفریدی حج کے مفت پیکج کا اعلان کرتا ہے ،
👇
حب کی ایک جھونپڑی بوسہ گاہ خلائق بن جاتی ہے ٹی وی اور یو ٹیوب چینلز انٹرویو کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں ۔۔۔۔تو سوچیے
سوچیے !
جب دجال کا ظہور ہوگا ۔۔۔ تو ہم اس کے حلیے اور ہیئت سے متاثر نہ ہوں گے ؟ جو دنیا بھر کے شعبدے لے کر مشرق سے نکلے گا بارش برسائے گا ، صحرا گلستان میں بدلے گا
👇
کئی معجزات کھلی آنکھوں سے دکھائے گا ، جنت اور جہنم ساتھ لے کر چلے گا، تو کیا ہمارا ایمان متزلزل نہ ہوگا ؟
قادر بخش مری کی کوئی کرامت دیکھے بنا صرف اس کے لباس اور چال ڈھال کو دیکھ کر ہم مرمٹے اور اب اس کے قدموں میں بیٹھ کر دم درود کے لیے ٹوٹ پڑے ہیں تو خود فیصلہ کیجیے کہ دجال
👇
تو پوری تیاری کے ساتھ آئے گا ۔
یہ ویڈیو ۔۔۔ یہ بلوچی بزرگ ایک لٹمس ٹیسٹ تھا کہ یہ قوم کیا سوچتی ہے ۔ کتنی شخصیت اور ظاہر پرست ہے ۔
ایک بار پھر عرض کردوں ، وہ بزرگ معصوم ہیں ، سادہ لوح ہیں ۔۔۔ لیکن سوال بچھڑے کی پوجا کرنے والوں سے ہے بچھڑے سے نہیں ۔ آپ نے ایک عام شخص کو محض
👇
لباس اور وضع قطع سے صحابی کا درجہ دے ڈالا ۔۔۔ دجال تو پھر پوری تیاری اور لوازمات کے ساتھ نمودار ہوگا ۔
تب کیا کریں گے
یاد رکھیے ۔۔۔ یہ ویڈیو ایک لٹمس ٹیسٹ تھا ۔ اکثریت فیل ہوگئی ۔
👇
ہم دعا کرتے ہیں ۔۔۔ اللہ جی! بابا جی کو ایک بار پھرمدینہ بلا لیجیے ، ان کی باقی زندگی وہیں گزرے اور یہ جنت البقیع میں دفن ہوں ۔۔۔ ورنہ یہاں ان کے مزار اور آستانے کی تیاریاں مکمل ہیں ۔
ایک گاؤں والوں کے پاس ایک ہی گائے تھی جس کے دودھ پر پورے گاؤں کا گزارہ چل رہا تھا ایک دن گائے نے ٹنکی میں سر پھنسا دیا اب ٹنکی بھی ایک تھی
لوگ پریشان ہوئے کہ گائیں کو بچاتے ہیں تو ٹنکی توڑنی پڑے گی اور ٹنکی کو بچاتے ہیں تو گائے کا سر کاٹنا پڑے گا
ساتھ والے گاؤں میں ایک شخص
👇
کی عقل مندی کےچرچے تھے فیصلہ ہوا کہ اسے بلایا جائے
اسے لانےکیلئے خصوصی گھوڑا بھیجا گیا وہ شخص گھوڑے پر سوار ہو کر آیا
اس نے گاؤں والوں کو مشورہ دیا کہ گائے کا سر کاٹ دیا جائے سر کاٹ دیا گیا لیکن سر ٹنکی کے اندرگرگیا
اب ٹنکی سےسر کیسےنکالا جائے؟
اس نے مشورہ دیا
ٹنکی توڑ دی جائے
👇
گائے بھی ذبح ہوچکی تھی اور ٹنکی بھی ٹوٹ چکی ہے
وہ عقل مند صاحب تھوڑے سے فاصلے پر کھڑے روئے جا رہے تھے
لوگوں نے اسے حوصلہ دیا کہ
آپ پشیمان نہ ہوں، کوئی بات نہیں، خیر ہے
گاؤں کے ایک بندے نے ہمت کرکے پوچھ لیا کہ
ویسے آپ رو کیوں رہے ہیں؟
عقل مند صاحب نے جواب دیا
میں رو اس لیے رہا
👇
1974 کی لاہور اسلامی سربراہی کانفرنس جس کے تمام کلیدی رہنما قتل کر دیے گئے
اگلے چند سالوں میں دنیا بھر میں ٹی وی سکرینز اور اخباری سرخیاں ان کے بہیمانہ قتل کی خبروں سے بھری جانے والی تھیں کیونکہ عالمی استعمار جسے 1974 کی اسلامی سربراہی کانفرنس نے اپنے ترانے 'ہم مصطفوی ہیں'
👇
میں 'استعمار ہے باطلِ ارذل' کہہ کر للکارا تھا، ان سربراہوں کو نشانِ عبرت بنانے پر تلا تھا
22 فروری 1974 کو لاہور شہر میں آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (OIC) یا تنظیم تعاون اسلامی کا سربراہی اجلاس ہوا جو کہ کرۂ ارض پر مسلم ممالک کی سب سے بڑی تنظیم تھی۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کے
👇
عروج کا دور تھا۔ لاہور ان کا قلعہ تھا جہاں سے تمام نشستیں یہ گذشتہ انتخابات میں جیت کر کلین سوئیپ کر چکے تھے۔ بھٹو صاحب خود کو ناصرف پاکستان اور عالمِ اسلام بلکہ تیسری دنیا کے ایک رہنما کے طور پر دیکھتے تھے۔ سٹینلے وولپرٹ اپنی کتاب "زلفی بھٹو آف پاکستان"میں لکھتے ہیں کہ ان کا
👇
یہ 1982 میں مئی کی 29 ویں سہہ پہر اور شام کے تین بجکر پینتالیس کا واقعہ ہے جب افغانستان کے دارالحکومت کابل میں چاروں طرف دھماکے ہو رہے تھے اور ملٹری ہسپتال میں ایک خاتون زچگی کیلئے یہاں لائی گئی ، فوجی ہسپتال میں سخت سیکیورٹی
👇
نافذ تھی چھت پر نصب توپیں کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار تھی ، ہسپتال کے اندر افغانستان کا صدر ببرک کارمل اور ان کی اہلیہ بھی موجود تھیں ، شاید کوئی بہت اہم معاملہ رہا ہو ، زچگی تھیڑ کے باہر افغان صدر اور ان کی اہلیہ کے ساتھ ایک شخص اور بھی موجود تھا جس کا قد کاٹھ بالکل
👇
عراق کے صدر صدام حسین جیسا تھا اور وہ فلسطین کے روائتی لباس میں ملبوس تھا بے چینی سے راہداری میں ٹہل رہا تھا ، آدھے گھنٹے کے بعد زچگی روم کا دروازہ کھلا اور ایک ڈاکٹر صاحب باہر آئے اور ایک بچی کی پیدائش کی خوشخبری سنائی ، افغانی صدر نجیب احمد اور ان کی اہلیہ نے اس فلسطینی شخص
👇
اس مصرعے کا مفہوم اب سمجھ آرہا ہے
پاکستانی قوم آپ سے غیر متزلزل محبت کرتی رہی ہے، اب بھی کرتی ہے مگر----
دشمنوں نے ہزار کوششیں کی، سیاست دانوں نے گالیاں نکالیں، قوم آپ کے سامنے کھڑی رہی
👇
جی سامنے - - -
آپ کے کسی نمائندے کو تو جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی
وہ ہم تھے
Bloody civilians
جو آپ کا دفاع کرتے ہوئے کبھی کبھی اپنی تربیت بھی فراموش کردیا کرتے تھے
پھر آج کیا ہوا؟
آج دبی زبانوں سے نکلنے والے شکوے فریاد اور دشنام تک کیوں کر پہنچے؟
آپ غور کریں
👇
نام نہاد آزادی کی تحریکیں کسی اسلحے کے زور پر ناکام نہیں ہوئیں
وہ اس لیے ناکام ہوئیں کہ ہم نے ان کے نظریے پر آپ کی محبت کو فوقیت دی
ہم جو ایمان رکھتے تھے کہ اللہ کے بعد آپ ہی ہمارا سہارا ہے
آج یہ ایمان متزلزل کیوں ہے
ذرا سوچئے
ایک فتویٰ جس نے مسلم تہذیب کو جہالت کے کفن میں لپیٹ کر رکھ دیا
پرنٹنگ مشین جرمنی کے ایک سنار گوتنبرگ نے 1455 میں ایجاد کی. اسوقت مسلم تہذیب تاریخی عروج پر تھی. عثمانی خلافت کی عظیم سلطنت ایشیا میں شام عراق ایران آرمینیا آذربائیجان اردن سعودی عرب یمن مصر تیونس لیبیا مراکو تک
👇
اور یورپ میں یونان روم بوسنیا بلغاریہ رومانیہ اسٹونیا ہنگری پولینڈ آسٹریا کریمیا تک پھیلی ہوئی تھی.
مذہبی علما نے فتوی دیدیا کہ پرنٹنگ مشین بدعت ہے اس پر قران اور اسلامی کتابوں کا چھاپنا حرام ہے. عثمانی خلیفہ سلطان سلیم اول نے پرنٹنگ مشین کے استعمال پر موت کی سزا کا فرمان جاری
👇
کر دیا. مسلم ممالک پر یہ پابندی 362 سال برقرار رہی. ہاتھ سے لکھے نسخے چھاپہ خانے کا مقابلہ کیسے کرتے..!؟
کتابوں رسالوں کی فراوانی نے مغرب کو جدید علوم کا سمندر اور مسلم تہذیب کو بنجر سوچ کے جوہڑ میں تبدیل کر دیا. جاگے تو فکری بینائی کھو چکی تھی.
آخر 1817 میں فتوی اٹھا لیا گیا.
👇