حسن کی بزم میں اگر ذکر لاہور کا نہ آئے
توہینِ حُسن ہو جائے توہینِ بزم ہو جائے
لاہور شہر کی فضاکا اپنا ایک طلسم ایک جادوہے اور علامہ اقبال، پطرس بخاری، فیض احمد فیض ، اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی اور انتظار حسین جیسے دانشور بھی اس کے طلسم سے محفوظ نہ رہ سکے۔
طلسمِ ہوش رُبا جیسا شہر ہے لاہور
جو اِس دیار میں جائے لاپتہ ھو جائے
شہر لاہور عاشقوں کا شہر ہے، بھلے وہ عاشق مجازی ہوں یا حقیقی اور عشق ایسی نامراد شے ہے کہ اس کا نفرت سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہو سکتا ہے۔ عشق میں صرف عشق ہی جائز رہ جاتا ہے
شہر لاہور کی بھی یہی تاثیر ہے، جو آنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، عاشق بنا دیتی ہے۔
اس شہر کی ہواؤں میں اِک اپناںٔیت سی ہے
اس کی گلیوں،کوچوں میں اِک عجب چاہت سی ہے
گزرے لمحوں کی حسین یادوں کا یہاں ٹھکانہ ہے
جو اِک بار لاہور آ جائے پھر اُس نے واپس کہاں جانا ہے
تاریخ گواہ ہے صدیوں سے لاہور بہت سی حکومتوں کا دارالخلافہ رہا اور جو شہر دارالحکومت رہا ہو، وہاں ملازمت کی غرض سے لوگ نہیں آتے بلکہ وہ ثقافتیں آتی ہیں بلکہ بلائی جاتیں ہیں۔نوکری تو ایک بہانہ ہوتا ہے، فطرت اس شہر پہ مہربان ہوتی ہے اور اس شہر کو رنگوں سے بھر دیتی ہے۔
شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہَوا کھینچ کے لائی مجھ کو
لاہور بقا کی ایک مثال ہے۔ لاہور کا حال اس کے ماضی کا ایک سلسلہ ہے۔ اس کے مستقبل نے ابھی شکل اختیار کرنی ہے۔ لاہور ہمیشہ لاہور رہے گا، اسے کچھ اور بننے کی خواہش نہیں ہے
کہ اِس سے منسلک ہونا بھی اک سعادت ہے
لاہور شہر نہیں ہے، لاہور عادت ہے ۔ #لاہور
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
بمبئی کے ایک بڑے بینک کا سی ای او CEOاپنے جوتے ہر روز گلی کے کونے پر جوتے پالش والے آدمی سے پالش کرواتا تھا۔ جوتے پالش کرواتے ہوئے وہ کرسی پر بیٹھ کر عام طور پر اکنامک ٹائمز پڑھتا تھا۔
ایک صبح، پالش والے نے سی ای او سے پوچھا: “اسٹاک مارکیٹ کی صورتحال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟"
CEO نے طنز سے پوچھا: "آپ کو اس موضوع میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟"
پالش والے نے جواب دیا: آپ کے بینک میں میرے 200 کروڑ روپے جمع ہیں اور میں اس رقم کا کچھ حصہ اسٹاک مارکیٹ میں لگانے کا
سوچ رہا ہوں۔
CEO نے طنزً مسکراتے ہوئے کہا: "ہاں ٹھیک ہے! تمہارا نام کیا ہے؟"
پالش والا جواب دیتا ہے: "آصف پولش والا"
اپنے بینک واپس آنے پر، CEO نے اکاؤنٹ مینیجر سے پوچھا: کیا ہمارے پاس آصف پالش والا نام کا کوئی صارف ہے؟"
*اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ایک دن میں نیکر پہن کر سپارہ پڑھنے مسجد چلا گیا مولوی صاحب غصے میں آ گئے، بولے. ارے نالائق تم مسجد میں نیکر پہن کر کیوں آ گئے؟.*
*بے وقوف ایسے مسجد میں آؤ گے تو جہنم میں جاؤ گے۔
*میں نے گھر آ کر ماں جی کو بتایا تو ماں بولی پتر مولوی صاحب غصے میں ہوں گے جو انہوں نے ایسا کہہ دیا ورنہ بیٹا جہنم میں جانے کے لئے تو بڑی سخت محنت کی ضرورت ھوتی ھے۔*
*جہنم حاصل کرنے کے لئے پتھر دل ہونا پڑتا ھے۔
جہنم لینے کے لئے دوسروں کا حق مارنا پڑتا ھے. قاتل اور ڈاکو بننا پڑتا ھے، فساد پھیلانا پڑتا ھے، مخلوقِ خدا کو اذیت دینی پڑتی ھے، نہتے انسانوں پر آگ اور بارود کی بارش کرنا پڑتی ھے. محبت سے نفرت کرنا پڑتی ھے۔ اس کے لئے ماؤں کی گودیں اجاڑنی پڑتی ہیں.
بہت ہی مربوط طریقے اور ذہانت سے اس قوم کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان کی مارکیٹنگ کی گئی تھی کہ یہ بہت ایماندار ہے کبھی موریوں والی قمیص دکھائی گئی کبھی ٹوٹی جوتی کبھی چائے کے ساتھ سوکھی روٹی کھاتے ہوئے اور کبھی ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر عمران خان کو آرام فرماتے دکھایا گیا۔
اتنی شاندار مارکیٹنگ تھی کہ عام لوگ تو کجا، بڑے بڑے دانشور اور اس ملک کی انٹیلیجنشیا بھی اس مارکیٹنگ سے متاثر ہوگئیں اور ان کو عمران خان کے روپ میں ایک مسیحا نظر آنے لگا کہ جو آئے گا اور پاکستان کی تقدیر کو بدل دے گا۔ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔
قانون کی بالا دستی ہوگی۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پئیں گے۔ میرٹ کا دور دورہ ہوگا۔ ہزاروں اربوں روپے کی کرپشن جو روزانہ ہوتی ہے عمران خان اسکو روک دے گا۔ پاکستان اتنا امیر ہو جائے گا کہ یورپ کے ممالک کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ لوگ وہاں سے یہاں نوکریاں ڈھونڈنے آئیں گے۔
آسٹریلیا میں خرگوش نہیں پائے جاتے تھے یہ قدرت کا فیصلہ تھا لیکن پھر انسانوں نے فیصلہ کیا کہ وہاں خرگوش لائے جائیں 1859 میں وہاں صرف 24 خرگوش لا کے چھوڑے گئے وہاں پہ ان کی پیدائش کو کنٹرول کرنے کے لیے ان کا کوئی دشمن جانور نہیں تھا اس لیے چند ہی ماہ
میں انکی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی اور انہوں نے وہاں کے کسانوں کی ناک میں دم کرکے رکھ دیا اور انکی ساری فصلوں کو تباہ کردیا پھر 1870 میں ان 20 لاکھ خرگوشوں کو مختلف طریقوں سے مار کے ختم کیا گیا
1996 تک پاکستان میں یوتھیے نہیں پائے جاتے تھے
کچھ قوتوں نے فیصلہ کیا کہ وھاں یوتھیے ھونے چاھیں
پھر بیرون ملک سے چند یوتھیے امپورٹ کیے گئے,,
چونکہ پاکستان میں اس یوتھیائی نسل کو خوب پروان چڑھایا گیا اور اس کا کوئی اینٹی وائرس موجود نہیں تھا اس لیےدھرنوں, نالوں, پارکوں, اور گلی محلوں میں کھلے عام اس نسل کی افزائش نسل ہوئی