مارچ 2019 میں سندھ میں قریب 19000 ایکڑ زمین افسران کی ملی بھگت سے بحریہ ٹاؤن کو دینے پر سپریم کورٹ نے ملک ریاض کو 460 ارب روپے جرمانہ کیا۔ یہ جرمانہ ملک ریاض کی طرف سے آفر کیا گیا تھا۔ اسے پہلے ثاقب نثار نے 1000 ارب کا جرمانہ کیا تھا
ملک ریاض نے اتنا جرمانہ دینے سے معذرت کرلی اور چیف جسٹس سے کہا کہ آپ نے میرے بیٹے کے گھر کا ذکر کیا تھا وہ میں آپ کو تحفے میں دینے کو تیار ہوں لیکن میں اتنا جرمانہ نہیں بھر سکتا۔
اس آفر کے بعد کیا ہوا خدا جانے، لیکن جرمانہ ملک ریاض کی آفر پر 1000 ارب سے 460 ارب ارب ہوگیا۔
یہ جرمانہ 7 سال میں ادا ہونا تھا اور اس جرمانے کو جمع کرنے کےلیے سپریم کورٹ نے حکومت کی بجائے خود کو چنا اور یوں جرمانہ سپریم کورٹ میں جمع کروانے کا حکم دے دیا گیا۔
جرمانے کی ڈاؤن پیمنٹ 25 ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع ہوگئی اور اس کے بعد 2.24 ارب ماہانہ 4 سال اور باقی 3 سال میں۔
وقت گزرتا گیا، ثاقب نثار رئٹائر ہوکر گھر کو چلا گیا، فوج کو تبدیلی لڑی ہوئی تھی اس نے اٹھا کر عوام کے سر پر مسلط کردی اور اس کے بعد پھر مسخرے پن کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے جسے ہم تبدیلی کے سنہری دور کے نام سے جانتے ہیں جس کے بارے مثبت رپورٹنگ کا حکم پاء غفور سرکار نے دیا تھا۔
این سی اے برطانوی کرائم ایجنسی ہے جو اندرون اور بیرون ملک پیسے کی غیر قانونی ترسیل اور منی لانڈرنگ کو دیکھتی ہے۔ ملک ریاض اور اس کا خاندان "ڈرٹی منی" کے معاملے میں NCA کے ہتھے چڑھ گیا۔ 190 ملین پاؤنڈ کا تصفیہ ہوا اور این سی اے نے قرار دیا کہ پاکستانی عوام اور حکومت کا پیسہ ہے
یہاں پر شہزاد اکبر کی اینٹری ہوتی ہے، ایک ویڈیو منظر عام پر آتی ہے جس میں ملک ریاض کے اسسٹنٹ کو شہزاد اکبر کی گاڑی میں بریف کیس رکھتے دیکھا جاتا ہے۔ (واقفانِ احوال بتاتے ہیں کہ یہ ویڈیو ملک ریاض نے بقلم خود ریلیز کی جیسے اس نے پنکی پیرنی کو ہیرے دینے والی آڈیو خود ریلیز کی)
پہلے تو حکومتی سطح پر اس رقم کے بارے ٹال مٹول چلتا رہا پھر شہزاد اکبر میڈیا کو بتاتا ہے کہ برطانیہ سے پاکستان آنے والا پیسہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوگیا ہے۔ پھر بتایا جاتا ہے کہ کابینہ کی منظوری سے یہ پیسہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں گیا۔
بعد میں اس تحریک انصاف کے فیصل واوڈا نے انکشاف کیا کہ ہمیں کوئی ڈاکومنٹ نہیں دکھایا گیا، بند لفافہ دکھا کر شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ سیکرٹ معاملہ ہے اور اصرار کے باوجود لفافہ کھول کر ڈاکومنٹ نہیں دکھایا گیا، کئی اور وزراء نے بھی اس مشکوک عمل پر سوالات اٹھائے لیکن "منظوری" ہوگئی۔
یوں ملی بھگت سے سے یہ پیسہ حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ میں جانے کی بجائے سپریم کورٹ میں چلا گیا اور ملک ریاض کے 460 ارب کے جرمانے میں ایڈجسٹ ہوگیا۔
کیا ججز اندھے تھے کہ جنھیں یہ پتہ نہیں چلا کہ یہ پیسہ حکومت پاکستان کی ملکیت تھا تو ملک ریاض کے جرمانے میں کیسے ایڈجسٹ ہوگیا؟
کیا 1000 ارب کو 460 ارب کرنے میں ثاقب نثار کا کوئی فائدہ نہیں ہوا؟ 1000 ارب اگر تخمینہ تھا تو ظاہر مارکیٹ ریٹ پر حساب لگا کر بنایا گیا تھا پھر 460 ارب میں سپریم کورٹ کیسے مان گئی؟ ملک ریاض کی طرف سے گھر کی آفر کے بعد ثاقب نثار اور ججز نے کیا وصول کر 1000 ارب کو 460 ارب کر دیا؟
3 دسمبر 2019 میں کابینہ نے پیسہ ریاض کے جرمانے میں ایڈجسٹ کرنے کی منظوری دی۔ 26 دسمبر کو عمران نیازی مشہورِ زمانہ القادر ٹرسٹ رجسٹر کرواتا ہے اور اور پھر اس اس ٹرسٹ میں بھی وہی کھیل کھیلا جاتا ہے جو بنی گالا میں کھیلا گیا یعنی
سمیع اللہ سے کلیم اللہ کلیم اللہ سے سمیع اللہ
القادر ٹرسٹ کے نام پر ملک ریاض 7 ارب روپے کا فائدہ عمران نیازی کو دیتا ہے اور اسے علاوہ ہیروں کے سیٹ پنکی پیرنی بقلم خود مانگتی ہے اور جو اسے دئیے جاتے ہیں۔
یہاں تک تو کردار ہے ملک ریاض عمران نیازی شہزاد اکبر پنکی پیرنی اور ذلفی بخاری کا، یہ تصویر کا ایک رخ ہے جو سب دیکھ رہے ہیں
دوسرا رخ
1000 ارب کا جرمانہ 460 ارب میں کیسے بدلا؟
ریاست کی ملکیت پیسہ سپریم کورٹ نے کیسے بطور جرمانہ وصول و ایڈجسٹ کرلیا؟
پھر اسی ایڈجسٹمنٹ کے مجرم عمران نیازی کو عدالت نے ریمانڈ سے چھڑوا کر اپنے پاس پناہ دی، پھر گرفتاری قانونی قرار دینے والی عدالت نے ضمانتِ عام بھی دے دی۔
آخر میں یہ سوال چھوڑے جا رہا ہوں
540 ارب جرمانے کا ڈسکاؤنٹ
60 ارب حکومت پاکستان کا پیسہ
600 ارب کا فائدہ ملک ریاض کو پہنچانے والے ججز کو اس فائدے سے کیا فائدہ ہوا؟ اس کی تحقیقات کون کرے گا؟
اسی کیس میں عمران نیازی کو عدالت نے اپنی پشت پناہی میں ضمانت دے کر فرار کیوں روایا؟
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
گرم پانی کےلیے اسے بالکل سیدھا رستہ اختیار کرنا چاہئے تھا۔ پاکستان کی تھکڑ بندرگاہ کی نسبت چاہ بہار کی بندرگاہ کلکروڑ درجے بہتر تھی اور پھر ایران کا تیل تو بالکل بونس ہوتا ساتھ۔
مغالطہ پاکستان کا مغالطہ ہے کہ روس افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
روس افغان حکومت کی درخواست پر اس وقت افغانستان آیا تھا جب حکومت کو بغاوت کا سامنا تھا۔ یہ گرم پانی یہ افغانستان پر روسی قبضہ یہ سب ویسے ہی ٹوپی ڈرامہ ہے جیسا "6 ستمبر کو رات کے اندھیرے نے ہمارے بزدل دشمن نے ہم پر اچانک حملہ کیا تھا"
روس کو افغانستان میں دیکھ کر امریکہ کا دل للچایا۔ براہ راست جنگ تو ممکن نہ تھی لیکن اپنے میزائیل اور اسلحہ ٹیسٹ کرنا بھی مقصود تھا اور روس کو نیچا دکھانا بھی۔ سو پھر امریکہ نے ہمیں انگیج کیا ہم نے کرائے کا جہاد شروع کیا وایا پاکستان امریکی اسلحہ پہلے افغان باغیوں کو پہنچایا گیا
اوریا مقبول جان کے خواب کے مطابق بےبس جنرل باجوہ کو پیغمبرِ اسلام فائل تھماتے ہیں جس کا مطلب اس کا آرمی چیف بننا ہوتا ہے، باجوہ فائل کو بائیں ہاتھ سے پکڑتا ہے، تو اسے منع کیا جاتا ہے کہ دائیں ہاتھ سے پکڑو اور پھر وہ دائیاں ہاتھ آگے کرتا ہے تو فائل اسے تھما دی جاتی ہے۔
خواب جرنل باجوہ کو سنایا جاتا ہے، باجوہ صاحب اس کی تعبیر پوچھتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ آپ کو اسلام کے قلعے کی سپہ سالاری سونپی جائے گی۔ جنرل باجوہ اپنی بےبسی پر ہنستا ہیا کہ میرا تو لسٹ میں نام ہی نہیں، میرے اوپر تو فلاں فلاں سینئیر بیٹھے ہیں ان کے ہوتے ناممکن ہے۔
پھر "معجزہ" ہوتا ہے اور "نواز شریف" کے ذریعے باجوہ کو آرمی چیف بنوا دیا جاتا ہے۔ باجوہ صاحب پردے کے پیچھے ملک کی وہ خدمت کرتے ہیں جو ایوب یحییٰ ضیاء اور مشرف مل کر بھی کر کرسکے۔
پوری سروس میں باجوہ صاحب اوریا مقبول کے ابوِ ثانی رہتے ہیں۔ جیسے ہی باجوہ صاحب کا زوال شروع ہوتا تو
پر ایک بادشاہ کو شوق ہوا کہ وہ دنیا کا بہترین لباس زیب تن کرے۔ شاہی درزیوں کو فرمان ظلِ الہی سنا دیا گیا کہ بادشاہ سلامت کیلئے دنیا کا انوکھا ترین لباس تیار کر کے دیا جائے، اسے پہن کر بادشاہ سلامت عوام میں جلوس فرمائیں گے۔
انہیں یہ خوشخبری بھی سنائی گئی
⬇️
کہ لباس کی تیاری پر اٹھنے والے تمام اخراجات شاہی خزانے سے ادا کئے جائیں گے اور ان اخراجات کی کوئی حد نہیں۔ ہر درزی اپنی ضرورت کے مطابق لباس شاہانہ کی تیاری کیلئے رقم لے سکتا ہے، مگر اس فرمان میں جو ایک اہم اعلان آخر میں کیا گیا وہ بہت بے رحمانہ تھا
⬇️
کہ جس درزی کے بنائے ہوئے کپڑے انوکھے نہیں تھے اسے شاہی فرمان کے تحت قتل کیا جائے گا۔ جب تمام درزی اپنے اپنے کارخانوں میں بیٹھے شاہی فرمان کے مطابق دنیا کا انوکھا ترین لباس تیار کر رہے تھے، اس دوران ایک شاہی درزی نے اس شاہی فرمان کو خالصتاً غیرمنطقی اور جاہلانہ تصور کیا
⬇️
ایک شکاری جنگل میں شیر کا شکار کرنے گیا، دو گھنٹے کی تگ و دو کے بعد اسے شیر نظر آیا، اس نے نشانہ باندھا اور گولی چلانے ہی والا تھا کہ شیر نے اسے دیکھ لیا اور ہاتھ کے اشارے سے رکنے کو کہا، شکاری نے ٹریگر سے ہاتھ ہٹا لیا۔
شیر بولا تو تم میرا شکار کرنے آئے ہو
شکاری بولا ہاں
شیر نے کہا چلو ایک فئیر ڈیل کرتے ہیں، شکاری نے پوچھا کیا؟ شیر بولا دیکھو اگر تم مجھے مار لو گے تو میں جان سے جاؤں گا اور تمہاری شیر کا شکار کرنے کی خواہش پوری ہوجائے گی، لیکن اگر تم مجھے نہ مار سکے تو میں تمہاری .... لوں گا، شکاری نے اتفاق کر لیا۔
شیر نے کہا 3 تک گِنو
میں بھاگوں گا اور تم میرا نشانہ لینا۔ شکاری نے تین تک گنا اور شیر نے دوڑ لگا دی، شکاری نے تاک کر گولی چلائی لیکن شیر بچ نکلا۔
اب وعدے کے مطابق شکاری کو شیر کو .... دینی پڑی۔
شکاری پیچ تاب کھاتا واپس چلا گیا، ہفتے بھر کی نشانہ بازی کی ریاضت کے بعد وہ واپس جنگل جا پہنچا
وہ پہلے سے تھی۔ مگر عموما ہوتا یہ ہے کہ اسی تعمیر کردہ سڑک یا گلی کے اوپر دوبارہ تعمیر کر دی جاتی ہے جو پہلے والی تعمیر سے ایک ڈیڑھ فٹ زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی مکمل اکھاڑ کر دوبارہ تعمیر کرے تب بھی یہی مشاہدہ ہے کہ نئی تعمیر کی اونچائی پہلے والی سے 6 8 انچ زیادہ ہوگی۔
یہ وہ ظلمِ عظیم ہے جو ٹھیکیدار اور بیوروکریسی پاکستانیوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے۔
ایک لمحے کو اپنے کو باقی چیزوں سے فری کریں اور سوچیں جب سے آپ نے ہوش سنبھالا آپ کا آبائی گھر کس لیول پر تھا، اگر وہ تعمیر آج بھی ویسے ہی موجود ہے تو کتنے فٹ زمین میں دھنس چکی ہے؟
یہ صرف ایک فواد چوہدری ہی نہیں، نظر دوڑا کر دیکھیں، عمران نیازی کے گرد جمع ٹولہ یا عرف عام میں کچن کیبنٹ کون لوگ ہیں؟
تقریباً سب کے سب وہ لوگ ہیں جو گذشتہ چند مہینوں میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملات کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر آگے سے صاف جواب ملنے کے بعد انہیں جب اپنا
سیاسی مستقبل تاریک نظر آیا تو انہوں نے عمران نیازی کو خانہ جنگی کروانے، ایم ایم ایف سے ڈیل خراب کروانے اور فوج میں بغاوت جیسے اقدامات پر خوب واہ واہ کہا، ان کے پاس تحریکِ انصاف ہی آخری آپشن تھا، ان کے مشورے اور عمران نیازی کا خود کو عقل کل سمجھنا اور طاقت کے سستے نشے
سے مغلوب ہوکر ایک ساتھ سیاسی جماعتوں، عدلیہ، الیکشن کمیش، پاکستانی معیشت، سماج اور فوج میں بغاوت جیسے اقدامات اصل میں اپنے اوپر ہی خودکش حملے تھے۔
قدم قدم پر عمران نیازی کے بیانات اور اقدامات بکھرے پڑے ہیں جو اسے ہر روز ایک نئی سزا دلوا سکتے ہیں۔