#Zaman_Park
ریٹائرڈ حافظ عمران خان کی نفرت میں اندھا ہو چکا ہے ۔ سپریم کورٹ سے عمران خان کی رہائی اور عوامی ردعمل کے باجود پارٹی بین نہ کر سکنے کے دکھ نے اندھے حافظ کی بنڈ کے تمام بال جلا دیے ہیں ۔ اب وہ پارٹی کو کرش کرنے کےلئے " عاصم لا" لگانے جا رہا ہے یعنی اس آرمی ایکٹ کو
تحریک انصاف کے خلاف استعمال کرنے جا رہا ہے جس کا اطلاق سویلین پہ ہوتا ہی نہیں ہے ۔ جب سپریم کورٹ اسے اڑا دے گی تو یہ پھر بلبلاتا ہوا مارشل لاء کی طرف بڑھے گا لیکن آج نوے کی دہائی نہیں ہے جو مارشل لاء اتنا آسانی سے لگ جاتا تھا۔ ان حالات میں مارشل لاء بھی ناممکنات میں سے ہے۔
مثلاً تھوڑا موازنہ کر لیتے ہیں ۔
مشرف نے جب نوازشریف کو برطرف کرکے اقتدار سنبھالا تو اس وقت معاشرے کے مختلف طبقات کی طرف سے مندرجہ ذیل ردعمل آیا:
1. متحدہ اپوزیشن کی طرف سے خوشی کا اظہار کیا گیا، مٹھائیاں بانٹی گئیں اور اسے ان کی جدوجہد کا پھل کہا گیا۔ متحدہ اپوزیشن میں
بینظیر، فضل الرحمان، قاضی حسین احمد، شاہ احمد نورانی، پیر پگاڑا، عوامی نیشنل پارٹی اور طاہرالقادری کی جماعتیں شامل تھیں۔ متحدہ اپوزیشن کی سربراہی اس وقت غالباً قاضی حسین احمد یا نوابزادہ نصراللہ کے پاس تھی۔ ان سب نے مشرف کا خیرمقدم کیا۔
2۔ سپریم کورٹ کے ججوں بشمول افتخار چوہدری
نے آناً فاناً مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھالیا اور ن لیگ کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے مشرف کا اقدام جائز قرار دے کر اسے مارشل لا کی سند عطا کردی۔
3۔ علما کے تقریباً تمام طبقات بشمول علما کونسل، اہلحدیث، دیوبندی، بریلوی و شیعہ حضرات نے مشرف کا خیرمقدم کیا۔ فضل الرحمان سے لے
کر طاہرالقادری اور شاہ نورانی تک، سب نے مشرف کی آمد پر مرحبا کہا۔
4۔ بارہ اکتوبر 1999 کی شام جب ٹیک اوور کی خبریں آئیں تو رات تک تمام مٹھائی کی دکانیں خالی ہوچکی تھیں۔ عوام الناس کی جانب سے مشرف کی آمد پر ملک کے ہر کونے میں جشن منایا گیا۔
5۔ پرائیویٹ چینلز تو اس وقت تھے نہیں،
البتہ تمام اخبارات کے بڑے بڑے صحافیوں اور کالم نگاروں نے مشرف کے ٹیک اوور کو جائز ثابت کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگانا شروع کردیا۔
یہ تھے آپ کے معاشرے کے وہ طبقات جو ننانوے فیصد پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں، انھوں نے مشرف کے مارشل لاء کو معاشرے میں پسندیدگی کی سند دے دی۔ آج
حالات یکسر مختلف ہیں۔ عمران خان کو اتارنے پہ مٹھائیاں نہیں بانٹی گئیں بلکہ پوری قوم سڑکوں پہ تھی ۔ ایک سال سے تحریک انصاف کو کچلنے کےلیے ہر حربہ استعمال کیا گیا ہے لیکن تحریک میں مزید شدت اور لوگوں کی آئین کی سربلندی اور سول سپریمیسی کی ضد مزید پروان چڑھتی گئی۔ عمران خان کو زیر
کرنے کےلئے بھی بڑے بڑے پلان بنائے گئے لیکن ان سے عمران خان کا موئے زیر ناف بھی نہیں اکھاڑ سکے۔ آج عمران خان پچہتر فیصد جنگ جیت چکا ہے اور اب ہم سیمی فائنل میں داخل ہونے جا رہے ہیں ۔ معاشرے کے دیگر تمام طبقات کے ساتھ ساتھ عمران خان نے اپنے عمل اور استقامت سے عدلیہ کو بھی بڑی حد
تک ان کے پریشر سے آزاد کیا ہے ۔ اب یہ جنگ ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ اندھا حافظ اور اس کے چیلے اب روئیں ، پٹیں یا چیخیں ماریں ، عوامی حکومت قائم ہو کر رہے گی چاہے قوم کو اس کےلئے ان کی لاشوں سے گزر کر آگے کیوں نہ بڑھنا پڑے۔ اب بزورِ قوت قوم کو جھکانے کی ہر کوشش بے سود ہے ۔
اندھا حافظ جتنا جلدی نکل لے ، اس کےلیے اتنا اچھا ہے کیونکہ حکومت میں آنے کے بعد عمران خان نے "خوشگوار " تعلقات کی ابتدا کر دینی ہے!!!
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#عمران_ریاض_کی_جان_کو_خطرہ
مصدقہ اطلاعات کے مطابق، تحریک انصاف کے لیڈروں اور ٹکٹ ہولڈرز پر، جماعت کو چھوڑ جانے کے لیے زبردست دباؤ ڈالا جارہا ہے
میری تھیوری ہے کہ ایسے تمام لوگوں نے، مقتدرہ کے سامنے یہ کہہ کر ہاتھ جوڑ لیے ہوں گے کہ سرکار، صورتحال یہ ہے کہ جو بھی شخص تحریک انصاف
کے ساتھ غداری کرتا ہے، عوام اس کا بھرکس نکال کر، اس کی سیاست کا ڈبہ ہمیشہ کے لیے گول کررہی ہے
لہذا، آپ ہمیں اس آگ میں جھونکنا ہی چاہتے ہیں تو کم سے کم کوئی مضبوط قسم کا بہانہ تو عنایت کیجیے جس کی آڑ لے کر ہم عمران خان کی پیٹ میں چھرا گھونپ بھی سکیں اور عوامی ری ایکشن سے بچ بچا
کر سیاست جاری رکھیں
مقتدرہ نے بھی اس التجا پر سنجیدگی سے غور کیا ہوگا
غور و خوض کے بعد، یہ بدمعاشی پر مبنی گرفتاری اور جلاؤ گھیراؤ episode پلان کی گئی
میڈیا اور صحافتی لفافوں کو بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا اور دبا کر پروپگینڈا کیا گیا۔ کمانڈر ہاؤس، یکایک جناح ہاؤس بن گیا
#عمران_ریاض_کی_جان_کو_خطرہ
ہمارا مخالف کم علم، کم فہم کا حامل ہے۔ یہ کامن سینس بھی نہیں رکھتا جو افسوسناک ہے
یہ سامنے دھری باتوں کا بھی انالسز کرنے سے قاصر ہے
حالات حاضرہ کا مطالعہ بالکل صفر ہے
کل سے مجھے کتنے ہی پڈم والے یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ ہم نے کس قدر پرامن احتجاج کیا
ڈسپلن قائم رکھا، کوئی جلاؤ گھیراؤ نہیں ہوا
سب سے پہلے میں ان کی نالج بڑھاؤں تاکہ ان کا تھوڑا بہت کامن سینس restore ہوسکے
مقبوضہ کش/میر کی مثال لیجیے:
وہاں صرف کش/میری مسلمان ہی احتجاج نہیں کرتے بلکہ کچھ معاملات میں، انتہا پسند ہند/و تنظیمیں جیسے شیو/ سینا وغیرہ بھی "مکمل
سرکاری سرپرستی" میں احتجاج کرتی ہیں
ایک بار پھر دہرادوں،
"شیو /سینا مکمل سرکاری سرپرستی میں احتجاج کرتی ہیں"
اب،
کش/میری مسلمان بھا/رت کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کریں تو سرکار ان پر شدید شیلنگ کرتی ہے، گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں، عام کش/میریوں کو ہراساں کیا جاتا ہے،
طوائف کے کوٹھے یا کسی دینی درسگاہ میں کیا فرق ہے؟ دونوں کی تعمیر میں اینٹ، ریت، سیمنٹ، سریا وغیرہ استعمال ہوتے ہیں، پھر طوائف کا کوٹھا قابل نفرت اور دینی درسگاہ واجب الاحترام کیوں ہوجاتی ہے؟
جوئے کے اڈے اور سٹاک مارکیٹ میں کیا فرق ہے؟ دونوں جگہوں پر آپ اپنی رقم سے بازی لگاتے ہیں
لیکن جوا کھیلنے سے آپ مجرم اور سٹاک مارکیٹ میں پیسے لگانے سے آپ انویسٹر کیسے بن جاتے ہیں؟
کسی بھی بلڈنگ، عمارت یا ادارے کو عزت اور احترام محض اس وجہ سے نہیں ملتا کہ وہ ایک بلڈنگ یا ادارہ ہے، اس لئے اس کی عزت کرنی چاہیئے، بلکہ اس عمارت یا ادارے کا استعمال اس کی عزت یا نفرت کا سبب
بنتے ہیں۔ طوائف کا کوٹھا اسی لئے قابل نفرت کہلاتا ہے کہ وہاں نوٹوں کے عوض عزت بیچی جاتی ہے، دینی درسگاہ کو اسی وجہ سے عزت و احترام ملتا ہے کہ وہاں دین کی تعلیم دی جاتی ہے جس سے معاشرے میں بہتری آسکتی ہے۔
جناح کے نام پہ ہاؤس بنا کر اور پھر اس کو کور کمانڈر ہاؤس کا درجہ دیا جائے
#عمران_ریاض_کو_رہا_کرو
ایک فضلانڈو جماعتیے کو ایک پٹوارن لڑکی سے پیار ہو گیا ایک دن فضلانڈو جماعتیا پٹوارن لڑکی سے کہنے لگا
" جانو کبھی کسی کے ساتھ مباشرت کی ہے"
پٹوارن لڑکی شرماتے ہوۓ بولی " یہ مباشرت کیا ہوتی ھے"
جماعتیا بولا........." شلوار اتارو بتاتا ہوں....
پٹوارن جو بہت چالو تھی چپکے سے اس نے اپنی اندام نہانی میں میں مچھلی کا کانٹا رکھ لیا جب فضلانڈو نے عضو تناسل پٹوارن کی اندام نہانی میں ڈالا تو اسے مچھلی کا کانٹا لگ گیا زور سے چلاتے ھوۓ بولا تماری اندام نہانی نے میرے عضو تناسل کو کاٹ لیا اور رونے لگ پڑا
کافی عرصے کے بعد فضلانڈو
کی دادی نے فضلانڈو سے کہا
بیٹا!!!!!! " ہم نے تماری شادی طے کر دی ھے"
فضلانڈو بولا ___دادی میں شادی نہیں کرو گا اندام نہانی کے دانت ہوتے ہیں وہ کاٹ لیتی ھے
دادی نے شلوار اتار کر کہا دیکھو کہاں ہیں دانت
فضلانڈو...واہ نی دادی.!!
تیرے منہ وچ دنند نئیں تیری پھ*دی وچ کیویں ہونڑیں "
#Zaman_Park
بہت دل چاہتا ہے کہ یہ سیاسی دنگل اپنے اختتام کو پہنچے اور معاملات نارملائز ہوں
پاکستان میں جس قسم کی سیاست ہے، اس حال میں سیاست پر لکھنا ایک جہد مسلسل ہے۔ ایک بہت بڑا نفسیاتی پریشر ہے۔ لکھاری کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق رہتا ہے
خواہش ہے کہ حالات ایسے ہوں کہ سیاسی
جماعتیں اپنی روٹین کی مخالفت جاری رکھیں۔ ایک دوسرے پر تنقید کریں۔ پوائنٹ اسکورنگ کریں اور الیکشنز میں مقابلہ کریں۔ جو جیتے، وہ حکومت بنائے، جو ہارے، وہ نتائج میں دھاندلی کا رونا رو کر اپوزیشن میں بیٹھ جائے
آئین intact ہو، ادارے فنکشن کررہے ہوں اور ملک کی صورتحال ویسی نارمل ہو
جیسی دنیا بھر میں ہوتی ہے
سیاستدان اپنی روٹین کی گولہ باری بیشک جاری رکھیں لیکن ایک دائرے، ایک قانون اور آئین کے اندر رہ کر
حالات ایسے ہوجائیں تو ہم جیسے لوگ بھی قلم کا ہتھیار رکھیں اور ریلیکس کریں
پھر وال پر بزنس اور کیرئیر کنسلٹنگ پر پوسٹ کی جائیں