“مئیر تو اپنا ہونا چاہئے” #تھریڈ
یہ ان دنوں کی بات ہے جب خان صاحب کا جادو سر چڑھ کر نیا نیا بولنا شروع ہوا تھا ۔۔۔ “تحریک نیا پاکستان” کی جدوجہد ملک کے کونے کھُدروں سے نکل کر اسلام آباد کی شاہراہ دستور تک پہنچ چکی تھی ۔۔۔ ہر طرف “حقیقی آزادی” کے ترانوں کی گونج تھی ۔۔۔
دھرنا بام عروج پر تھا اور دست شفقت دستانوں سمیت متحرک ۔۔۔ ٹارگٹ بس ایک تھا نون کا بستر گول کرنا ۔۔۔ زرداری صاحب اور مولانا کے انکار کے بعد طاہر القادری کے زریعہ اس وقت کی MQM اور الطاف حسین صاحب کی رضا مندی پر کام شروع کیا گیا ۔۔۔ اس دوران ڈی چوک اسلام آباد نائین زیرو عزیزآباد… twitter.com/i/web/status/1…
کے بیچ متعد ٹیلی فون کالز کا تبادلہ ہوا ۔۔۔ اس دوران طاہرالقادری صاحب نے لندن فون کرکے یہ گارنٹی بھی دی کہ اگر آپ کے ہمارا ساتھ دینے کے نتیجہ میں یہ حکومت جاتی ہے تو ہم سندھ میں پیپلز پارٹی کا گیم آف کرکے سندھ آپ کے حوالہ کردیں گے ۔۔۔۔ اسی اثناء میں لندن کراچی و اسلام آباد میں… twitter.com/i/web/status/1…
متحدہ کی قیادت کے لمبے لمبے مشاورتی اجلاس رپورٹ ہوئے مگر نتیجہ وہ نہ نکل سکا جو اس وقت کی ضرورت تھا اور الطاف بھائی اور اس وقت کی MQM کی قیادت نے میاں صاحب کی جمہوری حکومت غیر جمہوری طریقہ سے گرانے کے عمل کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا اور میاں صاحب کے پیچھے موجود زرداری صاحب اور… twitter.com/i/web/status/1…
وغیرہ کیساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہوگئے ۔۔۔ الطاف حسین یا MQM نے وہی کیا جو کوئی بھی جمہور پسند سیاسی جماعت یا رہنما کرتا ۔۔۔ مگر خان صاحب اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی ۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ کے پلان اور خان صاحب کے مقصد کی تکمیل کے راستہ میں حائل رکاوٹوں
میں ایک مضبوط سیاسی اکائی کے اضافہ نے پیٹی بھائیوں کو غصہ دلا دیا ۔۔۔ متحدہ چونکہ قدرے ایک soft target تھی اسی لئے سب سے پہلے متحدہ اور الطاف حسین کو ہی مثال بنانے کی ٹھان لی گئی ۔۔۔
Fast forward
دسمبر 2014
APS کا المناک واقعہ ۔۔۔ خان صاحب نے موقع غنیمت جانا اور دھرنا
“مئیر تو اپنا ہونا چاہیے” #تھریڈ
(گزشتہ سے پیوستہ)
لپیٹا اور گھر ۔۔۔ میاں صاحب کے سر پر سے بھی لٹکتی تلوار وقتی طور پر ہٹا لی گئی مطلب حکومت بچ گئی ۔۔۔ مگر کھیل ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ اب تو کھیل شروع ہوا تھا ۔۔۔
مارچ 2015
چئیرمین سینٹ کا انتخاب
مقابلہ نون لیگ… twitter.com/i/web/status/1…
اسٹیبلشمٹ کے کرتے دھرتوں کیلئے چوٹ مارنے کا یہ ایک سنہری موقع تھا ۔۔۔۔ چوہدری نثار علی خان کے زریعہ میاں صاحب کو راضی کروایا گیا اور شائید اگلے ہی روز رینجرز نے الطاف حسین صاحب کی رہائشگاہ نائین زیرو کراچی پر چھاپہ مارا اور پھر جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھا ۔۔۔ وفاقی اور صوبائی
دونوں حکومتوں کے اتحادی ہونے کے باوجود MQM پر ایک اور فوجی آپریشن شروع کیا گیا ۔۔۔
مقاصد صاف تھے !!
۱- متحدہ کو پچھاڑ کر مصنوعی طریقہ سے PTI کو کراچی میں مضبوط کرنا
۲- پراجیکٹ تبدیلی کے درمیان حائل مخالفوں کو تقسیم کرنا
۳- سال 2014 میں الطاف صاحب اور MQM کے جمہوریت کو derail… twitter.com/i/web/status/1…
“شائید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات” #تھریڈ
آجکل پاکستان میں سیاسی polarisation عروج پر ہے جبکہ سندھ کے شہری علاقوں میں بسنے والا مہاجر سیاسی confusion کا شکار ۔۔۔۔مہاجروں کی “دستیاب” قیادت کا یہ حال ہے کہ اتنی بڑی کابینہ میں کوئی ایک نام ایسا نہیں ہے جس کے پیچھے ڈھائی کروڑ
آبادی والے شہر سے 20 ہزار لوگ باغ جناح پہنچ جاتے ۔۔ کیا یہی MQM کی وہ legacy ہے جسے بچانے کا بیڑا اٹھایا تھا آپ نے بائیس اگست کو ؟؟ کیا ایسے ہی ہوا کرتے تھے MQM کے جلسے ؟؟؟ اس سے زیادہ لوگ تو 92 والے آپریشن کے دوران ہونے والے جلسوں میں دیکھے ہیں کراچی والوں نے اور آپ حکومت کا حصہ
ہوتے ہوئے مکمل ریاستی سپورٹ کے ساتھ ایسا پاور شو کرنا جس سے مخالفین گھبرانے کے بجائے آپ پر آوازیں کسیں اور آپ حیلے بہانوں کے پیچھے چھپتے پھریں ۔۔۔۔ بہت معذرت کیساتھ مگر جس MQM کو میں جانتا ہوں یہ اس کی legacy تو نہیں ہوسکتی ۔۔۔ آپ پچھلے پانچ سالوں سے مسلسل حکومت کا حصہ ہیں اور
“ایک چھوٹا سا مظلوم #تھریڈ”
آجکل جنرل باجوہ ہر جگہ بات کرتے اپنے “دور اختیار” میں ہونے والے غیرآئینی و غیرقانونی کاموں کی clarification spree پر ہیں ۔۔۔ مطیع بھائی کے اغوا سے لیکر مریم نواز صاحبہ کے کمرے کا دروازہ توڑے جانے تک اور شہباز گل سے ایمان مزاری صاحبہ تک
ہر معاملہ کی وضاحت آرہی ہے ۔۔۔ اچھا لگ رہا ہے ۔۔۔ یقین جانیں دل سے خوشی ہورہی ہے کہ سچ سامنے آرہا ہے مگر ساتھ ساتھ تھوڑا دُکھی بھی محسوس کررہا ہوں کیونکہ جنرل صاحب کی وضاحتوں کا محور صرف اور صرف پنجاب میں یا پنجابیوں کیساتھ ہونے والی زیادتیاں ہیں ۔۔۔۔ جنرل صاحب کے چھ سالہ دور میں
پنجاب کے باہر دوسرے صوبوں میں بسنے والے سندھی مہاجر بلوچ و پشتون عوام کیساتھ جو کچھ ہوتا رہا وہ سب شائید نہ جنرل صاحب کیلئے اہم ہے اور نہ ہی ان کے انٹرویو لینے اور چلانے والوں کیلئے ۔۔۔ شائید اسی لئے جنرل صاحب کے انکشافات میں نہ کہیں کراچی میں اپنے گھر کے دروازہ پر قتل کردئیے
“گر جاں کی اماں پاوں ؟؟؟” #تھریڈ
پرانا نام: سندھ پولیس رائفلز - SPR
نیا نام: سندھ رینجرز (پاکستان رینجرز)
گئے وقتوں کا زکر ہے جب گورا سرکار ہم پر قابض تھی دوسری عالمی جنگ جاری تھی اور گوری افواج ایک بڑے معرکہ میں مصروف تھیں تو سندھ اور ملحقہ علاقوں کے مقامی افراد
پر مشتمل ایک سیکیورٹی فورس کا قیام عمل میں لایا گیا جسے “سندھ پولیس رائفلز - SPR” کا نام دیا گیا جس فورس کی باگ ڈور گورے یعنی انگریز افسران کے ہاتھ میں دی گئی جبکہ فورس میں مقامی افراد کو زمہ داریاں ملیں ۔۔۔ 1942 سے تقسیم ہند تک یہ فورس انگریز راج کے زیرانتظام کام کرتی رہی جبکہ
اس فورس کا بنیادی کام اس وقت کے باغیوں (جنہیں ہم آج تحریک آزادی کے کارکنان کے نام سے یاد کرتے ہیں) کی تحریک کو کچلنا تھا ۔۔۔ قیام پاکستان کے بعد جب یہ فورس حکومت پاکستان کے زیرانتظام آئی تو اس کا نام “سندھ پولیس رائفلز” سے بدل کر “سندھ پولیس رینجرز” رکھ دیا گیا اور اس فورس
شناخت
ایک تھریڈ
مجھ سے اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں بسنے والی مہاجروں کی اکثریت الطاف حسین اور مہاجر شناخت کے معاملہ میں اتنے حساس اور جذباتی ہوجاتے ہیں ؟؟؟
شناخت
ایک تھریڈ
اس سوال کا جواب تو خیر میرے پاس بھی نہیں ہیں ہاں مگر ایک بات جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ 1947 اور اکہتر کے بعد ہندوستان اور ڈھاکہ سے پاکستان آنے والے ہمارے بڑے کئی سال شدید identity crisis کا شکار رہے ۔۔ کوئی خود کو بہاری تو کوئی بھوپالی کوئی رام پوری تو کوئی دلی
شناخت
ایک تھریڈ
والا تو کوئی خود کو حیدرآباد دکنی کہلواتا تھا جبکہ غیر مہاجر انہیں “ہندوستانی” پکارا کرتے تھے ۔۔۔ میرا بچپن اسی کی دہائی میں کراچی میں ہی گزرا ہے اور مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ہمارے پنجابی یا پٹھان پڑوسی ہمیں “ہندوستانی فیملی” کہا کرتے تھے 😀😀 جو سن کر عجیب تو